اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے ’عدالتی امور میں مداخلت‘ پر منگل کو سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک خط لکھا ہے جس میں ججز نے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جن چھ ججز نے خط لکھا ہے ان میں جسٹس بابر ستار، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس سردار اعجاز اسحاق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت شامل ہیں۔
چھ ججز کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ’انٹیلی جنس ایجنسیز عدلیہ کے کام میں مداخلت کر رہی ہیں۔ لہذا انٹیلی جنس اہلکاروں کے ججز کو دھمکانے کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔‘
ججز نے اس خط کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان سے رہنمائی مانگتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم یہ خط سپریم جوڈیشل کونسل سے رہنمائی کے لیے لکھ رہے ہیں، درخواست ہے کہ انٹیلی جنس اہلکاروں کی مداخلت کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے، انٹیلی جنس اہلکاروں کی عدالتی امور میں مداخلت اور ججز کو دھمکاناعدلیہ کی آزادی کم کرتی ہے، ایسی ادارہ جاتی مشاورت معاون ہوسکتی ہے کہ کیسے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کیا جائے۔‘
خط میں مختلف واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ مئی 2023 میں ہائی کورٹ کے ایک جج کے برادر ان لا کو اغوا کیا گیا، ایک جج کی رہائش گاہ سے خفیہ کیمرہ برآمد ہوا، چیف جسٹس ہائی کورٹ کو مداخلت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے لیے بھی لکھا، خط میں کہا گیا تھا کہ ایسے عناصر کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں لیکن چیف جسٹس ہائی کورٹ کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
اس سے قبل 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت صدیقی نے اپنی تقریر میں انٹیلجنس ایجنسیز پر مداخلت کا الزام لگایا تھا جس پر اس وقت کے آرمی چیف اور وفاق نے ان کے خلاف شکایت کی تھی جس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے انہیں جج کے عہدے سے ہٹا دیا تھا لیکن ابھی حال ہی میں 22 مارچ کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی کو ’عہدے سے ہٹانا غلط عمل‘ تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ’ہر جج چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یا جسٹس شوکت عزیز صدیقی جتنا بہادر نہیں ہو سکتا کہ تنہا لڑے، عدلیہ کی جانب سے بطور ادارہ اس معاملے پر رد عمل آنا چاہیے۔‘
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ہم شوکت صدیقی کے موقف کی تائید کرتے ہیں کہ انٹیلی جنس ایجنسیز کی مداخلت کا جو انہوں نے دعویٰ کیا تھا اس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس خط میں ٹیریان کیس کے دوران ’دباؤ‘ کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ’عمران خان کے خلاف دو ججوں نے کیس کو ناقابل سماعت کہا لیکن کیس کو ناقابل سماعت کہنے پر ججوں کو شدید دباؤ کا سامنا رہا جس کے باعث ایک جج کو دباؤ اور پریشانی کی وجہ سے ہسپتال منتقل ہونا پڑا۔‘
خط میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’یہ معاملہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ (جسٹس عامر فاروق) کے نوٹس میں لایا گیا تھا جس پر چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ انہیں یقین دہانی کرائی گئی ہے اب کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔‘
خط کے مطابق ’19 مئی 2023 کو ہم معاملہ اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان کے نوٹس میں بھی لائے، اسی روز سینیئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی آگاہ کیا، سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ وہ ساتھیوں سے مشاورت کے بعد آگاہ کریں گے۔‘
خط میں کہا گیا ہے کہ ’یہ جاننا اور تعین کرنا ضروری ہے کہ ریاست کی ایک ایگزیکٹیو برانچ کی طرف سے جاری پالیسی ابھی وجود رکھتی ہے، جاری پالیسی پر انٹیلی جنس اہلکاروں کی جانب سے عملدرآمد کیا جاتا ہے جو ایگزیکٹیو برانچ کو رپورٹ کرتے ہیں۔‘
’ہمارا ماننا ہے کہ اس بات کی انکوائری کرنا اور اس بات کا تعین کرنا ضروری ہے کہ انٹیلی جنسی کی برانچ سیاسی انجینیئرنگ کے لیے اپنی مرضی کے عدالتی فیصلے حاصل کرنے کے لیے ججوں کو دھمکایا جاتا ہے اور بلیک میل کیا جاتا ہے۔‘
ان چھ ججز کا کہنا ہے کہ ’بطور جج ہم نے آئینی حلف اٹھائے ہیں کہ آئین اور قانون کے مطابق، بلا خوف و خطر ہر طرح کے لوگوں کے ذریعے انصاف فراہم کریں گے اور انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ہم بیرونی تحفظات سے متاثر ہوئے بغیر ہر مدعی کو انصاف فراہم کریں۔‘