برٹش انڈیا كے دور میں اس وقت كے كوئٹہ شہر کی آبادی سے دور مغربی پہاڑی كے دامن میں ٹی بی کے مریضوں کے لیے بنایا جانے والا یہ ہسپتال مخصوص طرز، محل وقوع اور خاص قدرتی ماحول کے سبب اب بھی كسی شاہكار سے كم نہیں۔
تقریباً ڈیڑھ صدی سے بھی زیادہ پرانے اس ٹی بی سینٹورس ہسپتال میں، جس كا حالیہ نام اب فاطمہ جناح چیسٹ اینڈ جنرل ہسپتال ركھا گیا ہے، اب بھی انگریز دور كے مخصوص طرز پر بنائے گئے وارڈز فعال ہیں۔
یہاں ڈیوٹی دینے والے ڈاكٹر مقبول احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ ہسپتال 1858 میں خاص ٹی بی كے مرض كو مد نظر ركھ کر تعمیر كیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اُس وقت ٹی بی كے مریضوں كو آبادی سے آئیسولیٹ یا الگ ركھنے كے لیے اور چونكہ ٹی بی كے مرض میں پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں تو مریضوں کو صاف اور تازہ ہوا کی مسلسل فراہمی کے لیے پہاڑی كے دامن میں یہ ہسپتال بنایا گیا تھا۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس ہسپتال كے مختلف وارڈز آدھے زمین كے اندر اور آدھے زمین پر بنائے گئے ہیں۔ ڈاكٹر مقبول احمد كے مطابق یہ بھی مریضوں كے علاج كی غرض سے کیا گیا تھا۔
’اس وقت یہ تصور كیا جاتا تھا كہ ٹی بی كے مریض اگر چلتے ہوئے پھیپھڑوں پر زیادہ زور دیں گے تو وہ جلدی ریكور ہو سكتے ہیں، اسی لیے یہاں وارڈز اور دوسری جگہ جانے كے لیے انہیں چڑھنا اترنا پڑتا ہے جس سے ان كو زیادہ مشقت كركے ٹی بی سے ریكور كرنے میں مدد ملتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس ہسپتال کی كھڑكیاں اتنی زیادہ اور بڑی ركھی گئیں، جس سے ہوا فلٹر ہو كر بہت آسانی سے نیچے وارڈز میں مریضوں تک پہنچتی ہے۔
اسی ہسپتال میں ڈیوٹی سر انجام دینے والے ڈاكٹر قدرت اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مسلسل بخار، بلغم میں خون، زیادہ پسینہ اور مسلسل وزن کم ہونا ٹی بی كی بڑے علامات ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس ہسپتال میں اب ہم ٹی بی كے ساتھ ساتھ سینے اور پھیپھڑوں سے متعلق سارے بیماریوں كا علاج بغیر كسی معاوضے کے كرتے ہیں اور ہر ہفتے ہمارے پاس سینكڑوں نئے كیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔‘
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) كے اعداد وشمار كے مطابق ٹی بی سے دنیا بھر میں ہر روز پانچ ہزار افراد جان كی بازی ہارتے ہیں، جس كی سب سے بڑی وجہ ایک تہائی ٹی بی کے مریضوں میں مرض کی تشخیص ہی نہ ہونا ہے، جس کی وجہ سے وہ علاج کی سہولیات سے محروم رہ جاتے ہیں۔
کرونا کے بعد دنیا کی دوسری سب سے مہلک متعدی سمجھی جانے والی بیماری ٹی بی سے صرف پاکستان میں ہر سال 44 ہزار لوگ موت کا شکار ہوتے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او كے اعداد و شمار كے مطابق پاكستان میں ہر سال پانچ لاكھ 10 ہزار افراد ٹی بی كا شكار ہوتے ہیں، جن میں 33 ہزار سے زائد مریضوں كا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہوتا ہے۔
تاہم بلوچستان میں ٹی بی كنٹرول پروگرام كے سربراہ ڈاكٹر آصف انور شاہوانی نے بتایا كہ انہوں نے پچھلے سال صرف 14 ہزار چار سو كے قریب مریض ٹریس کیے ہیں۔
ڈاكٹر آصف انور شاہوانی کے مطابق بلوچستان میں ٹی بی كے گھوسٹ کیسز (جن کی تشخیص ہی نہ ہوئی ہو) كی وجہ دور دراز علاقوں پر پھیلی آبادی، آگاہی نہ ہونا، غربت اور خراب انفراسٹركچر کو قرار دیتے ہیں۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ پچھلے كچھ مہینوں میں صوبے بھر میں پھیلے ٹی بی کے تشخیصی مراكز 101 سے بڑھا كر 180 كے قریب تک پہنچائے گئے ہیں جس سے انہیں ٹی بی كے مریض ٹریس كرنے میں كافی آسانی ہوگی۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔