پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے جمعرات کو کہا ہے کہ پاکستان نے 18 مارچ کو افغانستان میں عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں پر فضائی حملے کیے جبکہ افغان عوام یا فوج پر کوئی حملہ نہیں کیا گیا۔
اسلام آباد اور کابل کے درمیان کشیدگی اس وقت بڑھ گئی جب پاکستان نے پیر کی صبح افغانستان کے اندر سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے۔ یہ حملے 16 مارچ کو شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے حملے میں سات فوجی اہلکاروں کی موت کے بعد کیے گئے۔
جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ میں ترجمان دفتر خارجہ نے ایک بار پھر کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنا چاہتا ہے۔
پاکستان کے فضائی حملوں کے بعد طالبان حکومت نے رد عمل میں کہا کہ اس حملے میں آٹھ شہریوں کی جان گئی۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کشیدگی میں اضافے کے بعد واشنگٹن نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرے اور کابل سے مطالبہ کرے کہ وہ عسکریت پسندوں کو سرحد پار حملے کرنے سے روکے۔
صحافیوں کو بریفنگ میں ترجمان زہرہ بلوچ نے کہا کہ پیر کو کیے گئے فضائی حملے پاکستانی طالبان اور گل بہادر گروپ سے وابستہ عسکریت پسندوں کو ہدف بنا کر کیے جانے والے آپریشن کا حصہ تھے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے 16 مارچ کے حملوں پر افغانستان کے ساتھ احتجاج کیا اور اسے حملے میں گل بہادر گروپ کے ملوث ہونے کے بارے میں اپنی تشویش سے آگاہ کیا۔
بلوچ نے واضح کیا کہ ’18 مارچ کے آپریشن میں حکومت یا اداروں یا افغانستان کے عوام کو ہدف نہیں بنایا گیا۔ یہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور پناہ گاہوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن تھا۔‘
انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان، افغانستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ’دہشت گردی‘ کا مقابلہ کرنے اور دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو سبوتاژ کرنے والی کسی بھی تنظیم کو روکنے کی خاطر مشترکہ حل تلاش کرنے میں افغانستان کے ساتھ کام کرنے کا منتظر ہے۔