’اذان اور مؤذن‘ رمضان المبارک کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کی نئی سیریز ہے، جس میں پاکستان بھر سے چنیدہ مساجد کے مؤذن اور ان کے اذان دینے اور سیکھنے کے سفر کو قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ اس سلسلے کی تیسری قسط ہے۔
کوئٹہ کی جامعہ عربیہ و مرکزیہ تجوید القرآن کے مؤذن عبدالسمیع کو 2019 میں کینسر کا سامنا تھا لیکن اسے شکست دے کر وہ اب بھی اذان دیتے ہیں۔
کوئٹہ کے اختر محمد روڈ پر واقع مسجد و مدرسہ جامعہ عربیہ و مرکزیہ تجوید القرآن شہر کا ایک قدیم دینی ادارہ ہے، جو 1960 سے قائم ہے۔
عبدالسمیع اس مسجد میں کئی سالوں سے بطور مئوذن اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
انہیں بچپن ہی سے اذان دینے کا شوق تھا۔ عبدالسمیع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مؤذنین کی کافی فضلتیں بیان کی ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن مقدوم اورحضرت بلال (اولین مؤذنین) کے اذان دینے کے بارے میں پڑھ کر مجھے بھی شوق ہوا۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عبدالسمیع کے مطابق: ’مجھے بچپن سے ایک ہی شوق تھا کہ میں کسی مسجد میں مؤذن بنوں، اس لیے کہ اللہ کے کلمات اذان کے ذریعے کہے جاتے ہیں تو الحمداللہ، اللہ تعالی نے مجھے مؤذن بنایا۔‘
اذان کی تربیت اور سیکھنے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’اذان دینے اور مؤذن بننے کا شوق مجھے بچپن ہی سے تھا۔ جب بھی قاری صدیق المنشاوی اور حرمین شرفین کے مؤذنین کی اذان ہوتی تو ان سے مجھے اذان سیکھنے میں آسانی اور رہنمائی ملتی تھی۔
’میری کوشش یہی ہوتی کہ جس طرح سے مصر کے قاری صدیق المنشاوی تلفظ ادا کرتے تھے، میں بھی اسی طرح پر کشش انداز میں ان کی پیروی کروں۔ اس کے علاوہ زمانہ طالب علمی میں میرے کچھ ایسے اساتذہ تھے جو اس وقت کے مؤذن ہوا کرتے تھے، ان سے بھی میں نے اذان ادا کرنے کا طریقہ سیکھا اور انہوں نے اذان سیکھنے میں میری رہنمائی کی۔‘
عبدالسمیع کہتے ہیں کہ ’اذان ادا کرنے کا یہ لہجہ اور طرز ان کی اپنی ہے۔ بارہا کوشش کے باوجود میں اپنے استادوں اور حرمین شریفین کے مؤذنین کی طرز اپنا نہیں پایا۔‘
اپنی زندگی کی یادگار اذان کے حوالے سے عبدالسمیع کہتے ہیں کہ ’2019 میں مجھے کینسر کا مرض لاحق ہوا۔ میری زبان پر ایک دانہ نکلا جو بعد میں کینسر بن گیا۔ اس کے علاج کی تگ و دو کے دوران مجھے کہا گیا کہ اس کا علاج تو ہو جائے گا لیکن میں دوبارہ اذان نہیں دے پاؤں گا۔ میں علاج کی غرض سے ایک حکیم کے پاس خیبر پختونخوا گیا۔ وہاں شانگلہ کے قریب پہاڑوں پر ایک مسجد تھی۔ وہاں مجھے آخری مرتبہ اذان ادا کرنے کو کہا گیا۔ بہرحال میں نے وہاں پر مغرب کی اذان دی۔ جس کے بعد میرا علاج ہوا اور میں آج بھی اذان دے رہا ہوں۔‘
اپنی خواہش کے بارے میں انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’دنیاوی خواہش میری یہی ہے کہ اللہ تعالی حرمین شریفین میں اذان ادا کرنے کی سعادت نصیب فرمائے اور اخروی خواہش یہ ہے کہ اللہ مجھے مؤذنین کی صف میں شامل فرمائے۔‘
پہلی قسط: نورالاسلام کا صوابی سے فیصل مسجد تک کا سفر
دوسری قسط: حجازی اور مصری لہجوں کے ماہر بادشاہی مسجد لاہور کے انیس الرحمٰن
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔