کمپیوٹر کے موجودہ جدید دور میں جب کاغذ اور قلم کا استعمال انتہائی کم رہ گیا ہے اس کے باوجود ہاتھ کی لکھائی کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
ہاتھ سے لکھنے کی عادت انسان کی جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے اور اس سے زندگی کے مثبت تصور کو قائم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
بچوں کا ہاتھ سے لکھنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ لکھائی کے عمل کے دوران ہمارا دماغ بھی سیکھ رہا ہوتا ہے، جن بچوں کی لکھائی اچھی ہوتی ہے ان کی تخیلاتی قابلیت بھی زیادہ ہوتی ہے۔
انگریزی ویب سائٹ "کیئرٹو” کے مطابق اگرچہ بہت سے اسکولوں نے مکمل طور پر ٹیکنالوجی پر انحصار کرتے ہوئے ہاتھ سے لکھنے کو نظر انداز کر دیا ہے تاہم سائنس دانوں کا اس بات پر زور ہے کہ کاغذ پر ہاتھ سے لکھنے سے کئی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
علم نفسیات کی ایک سوسائٹی کی جانب سے شائع ہونے والے تحقیقی مطالعے کے مطابق لیپ ٹاپ کے بجائے ہاتھ سے نوٹس لکھ کر ان کو مرتب کرنے سے انسانی سمجھ میں بہتری آتی ہے۔
لیکچروں کے دوران لیپ ٹاپ کے ذریعے نوٹس کو مرتب کرنے سے طالب علم کا معلومات کے ساتھ رابطہ کمزور رہتا ہے جو خود سیکھنے کے عمل کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔
ایک معروف جریدے "سائیکولوجی ٹوڈے” کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہاتھ سے لکھائی سیکھنے کا عمل انسانی دماغ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں اہمیت کا حامل ہے۔
ہاتھ سے لکھائی کے لیے انگلیوں کی درست حرکت کو کنٹرول کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ انسانی دماغ سے متعلق تحقیقی مطالعوں کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہاتھ سے لکھائی کے دوران دماغ کے مخصوص حصوں میں سرگرمی آتی ہے۔ یہ وہ حصے ہوتے ہیں جو کمپیوٹر یا اسمارٹ فون کے کیبورڈ کے ذریعے لکھتے ہوئے کسی قسم کا کردار ادا نہیں کرتے۔
تحقیق سے ثابت ہے کہ جو طلبہ قلم سے لکھتے ہیں وہ یقینا کمپیوٹر کیبورڈ استعمال کرنے والوں سے زیادہ لکھتے ہیں۔ یہ لوگ تیزی سے لکھنے کے علاوہ زیادہ مکمل اور بہتر تشکیل کے ساتھ جملوں کو تحریر کرتے ہیں۔
ہاتھ سے لکھائی اُن طلبہ کے لیے مددگار ہوتی ہے جو پڑھنے میں دشواری Dyslexia سے دوچار ہوتے ہیں۔ قلم کے ذریعے دائیں سے بائیں یا اس کے برعکس لکھائی ایسے طلبہ کے لیے انتہائی مفید ہے جن کو الفاظ کو درست طور پر پڑھنے میں مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔
امریکی اخبار "وال اسٹریٹ جرنل” نے کچھ عرصہ قبل بعض تحقیقی مطالعوں کا ذکر کیا تھا جس کے مطابق ہاتھ سے لکھائی عمر رسیدہ افراد کے دماغوں میں تحریک پیدا کرتی ہے۔
ہاتھ کی لکھائی کے ایک ماہر ڈاکٹر مارک سیور کہتے ہیں کہ سکون سے متعلق ایک جملہ تحریر کرنا درحقیقت ایک قسم کا "علاج” ہے۔ مثلا یہ جملہ "میں خیریت سے ہوں گا” دن میں کم از کم 20 مرتبہ لکھنے سے واقعتا انسان زیادہ راحت اور سکون کا حامل ہو سکتا ہے۔ بالخصوص وہ لوگ جو نفسیاتی مسائل سے دوچار رہتے ہیں۔
بہرکیف خلاصہ یہ ہے کہ بعض روایتی مہارتیں اور صلاحیتیں اتنی اہم اور قیمتی ہوتی ہیں جن کو ہمیں کھونا نہیں چاہیے۔ بالخصوص جب کہ ہماری عقل اور دماغ کے لیے یہ بہت فائدے مند ہوں۔