گلگت بلتستان میں بعض ٹوئٹر صارفین کا کہنا ہیں کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لوکیشن سروس استعمال کرنے کے دوران کچھ دنوں سے ان کی لوکیشن گلگت نہیں بلکہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر آ رہی ہے۔
ان ٹوئٹر صارفین میں بعض صحافی بھی ہیں جنہوں نے ٹوئٹر پر اس مسئلے کی نشاندہی کی اور کہا کہ ساتھ میں حکومتِ پاکستان کے سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹس کی بھی رسائی ممکن نہیں ہے۔
انڈیا کی حکومت نے نے گذشتہ سال پاکستان کے تمام سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹس کی رسائی بند کی تھی اور گلگت کے بعض ٹوئٹر صارفین کے مطابق اب چونکہ لوکیشن انڈیا کے زیر اتظام کشمیر آرہی ہے تو ان کو بھی سرکاری اکاؤنٹس تک رسائی ممکن نہیں ہے۔
جمیل نگری گلگت میں پاکستان کے انگریزی اخبار روزنامہ ’ڈان‘ کے نمائندہ ہیں اور انہوں نے اس مسئلے کو ٹوئٹر پر اٹھایا اور ساتھ میں ٹوئٹر پر کچھ سکرین شاٹس بھی شیئر کیے ہیں جس میں ان کی لوکیشن انڈیا کے زیر انتظام کشمیر دیکھی جا سکتی تھی۔
اسی طرح ان کے شیئر کردہ سکرین شاٹس میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ حکومت پاکستان کے سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹس تک ان کو رسائی نہیں ہے۔
سکرین شاٹ میں لکھا گیا ہے، ’اس اکاؤنٹ تک رسائی انڈیا کی حکومت کے مطالبے پر بند کی گئی ہے۔‘
اس حوالے سے گلگت بلتستان کے محکمہ اطلاعات کے ڈپٹی ڈائریکٹر شمس الرحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بعض صارفین نے یہ شکایت ضرور کی ہے کہ ٹوئٹر پر ان کی لوکیشن غلط دکھائی جا رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ مسئلہ تقریبا! ایک ہفتے سے ہے اور چونکہ گلگت میں پچھلے ہفتے تمام محکمے وزارت اعلیٰ کے انتخابی عمل میں مصروف تھے تو اس حوالے سے نہیں سوچا گیا ہے لیکن اب اس مسئلے کے بارے میں پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو آگاہ کیا جائے گا۔
شمس الرحمٰن نے بتایا، ’تمام صارفین کو یہ مسئلہ درپیش نہیں ہے کیونکہ ابھی میں نے حکومت پاکستان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ چیک کیا، تو مجھے ذاتی طور پر اس اکاؤنٹ تک رسائی ہے لیکن بعض معتبر صحافی اور دیگر صارفین کو یہ مسئلہ درپیش ہے۔‘
پی ٹی اے کی جانب سے اس مسئلے کے بارے میں ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق گئی ہے کہ بعض آئی او ایس سافٹ ویئر یعنی اپیل آئی فون یا ایپل کے دیگر پراڈکٹس استعمال کرنے والے محدود صارفین کو یہ مسئلہ درپیش ہے۔
پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ پی ٹی اے نے گلگت میں ان گراؤنڈ اس مسئلے کی تفتیش کی ہے اور یہ بات سامنے آئی ہے کہ وسیع پیمانے پر یہ مسئلہ درپیش نہیں ہے۔
پی ٹی اے کے مطابق، ’محدود صارفین کو یہ مسئلہ درپیش ہے جس سے واضح ہے کہ ٹوئٹر نے گلگت بلتستان کی لوکیشن تبدیل نہیں کی ہے۔‘
اسی قسم کے سکرین شاٹس گلگت سے تعلق رکھنے والے صحافی شبیر میر نے بھی شیئر کیے ہیں جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کو بھی ان اکاؤنٹس تک رسائی ممکن نہیں ہے۔
شبیر میر نے اپنے ٹوئٹر پر لکھا، ’میں گلگت میں ہوں لیکن ٹوئٹر میری لوکیشن جموں و کشمیر شو کر رہا ہےاور نہ مجھے حکومتی اکاؤنٹس تک رسائی ہے۔ اس سے لگتا ہے انڈیا نے پاکستان کے ڈیجیٹل سپیس میں دخل اندازی کی ہے اور ایلون مسک کے ٹوئٹر کو انفلوئنس کیا ہے۔‘
شبیر میر نے انڈپینڈنٹ اردو کو گلگت بلتستان سے فون پر بتایا کہ کچھ دنوں سے وہ جب بھی لوکیشن سروس آن کرتے ہیں تو ان کی لوکیشن انڈیا کے زیر انتظام دکھتی ہے۔
انہوں نے اس کی تصویر بھیج کر بھی انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کی۔
شبیر میر نے بتایا، ‘آج بھی میں نے حکومتی ٹوئٹر اکاؤنٹس چیک کیے تو ان تک رسائی ممکن نہیں نظر آئی اور یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ یہ اکاؤنٹ انڈین قوانین کے مطابق قابل رسائی نہیں ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کی اوپن سورس تحقیق
انڈپینڈنٹ اردو نے کوشش کی ہے کہ اس مسئلے کی اوپن سورس یعنی آزاد موجود ذرائع اے تصدیق کر سکے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو نے گذشتہ شب (جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب) گلگت بلتستان کے بعض ایسے صارفین جن کو یہ نمائندہ ذاتی طور جانتے ہیں کے ٹوئٹس کی لوکیشن جب چیک کرنا شروع کیا۔
ٹویٹس چیک کرنے کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان صارفین کی بعض ٹوئٹس کو کھولتے ہی لوکیشن ’جموں و کشمیر‘ دیکھی گئی لیکن ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں ٹویٹ کی لوکیشن ’from earth‘ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
ٹوئٹر پر ایسے ٹویٹ جن پر لوکیشن سروس آن نہ ہوں، تو ان کی لوکیشن کی جگہ پر ’from earth‘ لکھا ہوا نظر آتا ہے۔
’تین ممکنہ وجوہات‘
اسد بیگ میڈیا کے حقوق اور میڈیا کارکنوں کو ٹرین کرنے والے ادارے ’میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی‘ کے بانی ہیں جو گذشتہ کئی برسوں سے ڈیجیٹل رائٹس پر کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تین چیزیں ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے لوکیشن بعض صارفین کو گلگت میں غلط دکھائی جاتی ہے۔
ایک وجہ اسد بیگ کے مطابق یہ ہوسکتی ہے کہ یہ ٹوئٹر کی لوکیشن سروس میں کوئی غلطی ہو، دوسری یہ ہوسکتی ہے تھرڈ پارٹی کی جانب سے لوکیشن کی غلط مارکنگ کی گئی ہو۔
تیسری وجہ اسد بیگ کے مطابق: ’انڈیا کے گلگت پر بے بنیاد دعوے کی وجہ سے ہوسکتی ہے اور اس تناظر میں شاید انڈیا نے ٹوئٹر کےساتھ بیک ڈور لابنگ کر کے اس کی لوکیشن تبدیل کی ہو کیونکہ ٹوئٹر انڈیا کے قوانین کا پابند ہے۔‘
اسد بیگ نے بتایا، ‘ابھی واضح نہیں ہے کہ انڈیا کی اس معاملے میں مداخلت ہے یا نہیں لیکن ہم ابتدا سے انٹرنیٹ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ممالک کے قوانین لاگو کرنے کے خلاف ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پھر طاقت ور ملک ایسے پلیٹ فارمز پر اثر انداز ہوتے ہیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے اس سارے معاملے پر ٹوئٹر کو سوال نامہ بھیجوایا تھا لیکن ٹوئٹر کی جانب سے ایک طنزیہ قسم کی ایموجی بھیج دی گئی جس میں سوالوں کا جواب موجود نہیں تھا۔
اسی طرح انڈپینڈنٹ اردو نے اس معاملے کے بارے میں انڈیا کے پریس انفارمیشن بیورو، جو حکومتی سطح کے میڈیا پیغامات جاری کرتے ہیں کو ای میل بھیجی ہے اور ان کی جانب سے موقف آنے کے بعد اس کو رپورٹ میں شامل کیا جائے گا۔