کراچی کے علاقے سولجر بازار میں واقع شری مری ناتھ ایک قدیم مندر تصور کیا جاتا ہے، جس سے متصل ایک حصے کو مبینہ طور پر مسمار کرنے کے واقعے کے بعد رکھوالی کرنے والے ہندو خاتون اور مدراسی برادری کے درمیان زمین کا تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔
اس تنازعے کے بعد سندھ حکومت کے احکامات پر قدیم شری مری ناتھ مندر کی ’مسماری اور تعمیرات‘ کا کام روک دیا گیا۔
یہ واقعہ گذشتہ ہفتے جمعہ کی رات کا ہے جب سولجر بازار کے مکینوں نے دعویٰ کیا کہ قدیم مری ماتا مندر زمین بوس کیا گیا ہے۔
علاقہ مکینوں نے بتایا کہ کارروائی اس وقت کی گئی جب رات کوعلاقے میں بجلی غائب تھی، اسی وقت کھدائی کرنے والی مشین اور ایک بلڈوزر اس کام کے لیے پہنچ گئے، جنہوں نے بیرونی دیواروں اور مندر کے مرکزی دروازے کو برقرار رکھتے ہوئے اندر کے تمام ڈھانچے کو مسمار کردیا۔
مندر کی دیکھ بھال پر مامور پنڈت کی بیٹی ریکھا لعل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’کئی سالوں سے میرا خاندان اور میرے آباؤ اجداد یہاں موجود ہیں اور اس مندر کی خدمت کرتے آئے ہیں۔ میں اپنے آباؤ اجداد میں سے تیسری نسل ہوں جو اس مندر کی دیکھ بھال کر رہی ہوں۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’مندر کی تزئین و آرائش میں تقریباً 10 سال پہلے سے کروا رہی ہوں، اس میں میرے کچھ ہندو بھائیوں نے میرا ساتھ دیا، میرا گھر مندر کے بالکل برابر میں ہے۔ کچھ۔۔۔لوگ ہیں جن کا مندر سے کوئی تعلق نہیں ہے، جو اپنے۔۔۔عزائم کی تکمیل چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’مجھے اس پورے علاقے سولجر بازار کے کسی مسلمان سے کوئی ڈر نہیں ہے، سب ہمارے ساتھ ہیں۔‘
سندھ ہیومن رائٹس کمیشن نے محکمہ اقلیتی امور اور کمشنر کراچی کو ہدایت کی ہے کہ معلوم کیا جائے کہ مندر کس کی ملکیت ہے۔
سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کے رکن سکھ دیو ہیمنانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا:’مری ماتا مندر کا جائزہ اتوار کو لیا جس پر ہر زاویے سے معلومات حاصل کی ہیں۔ اور یہ نتائج سامنے آئیں ہیں کہ مندر کا رہائشی علاقہ مسمار کیا گیا ہے جبکہ مندر محفوظ ہے۔ یہ ملکیت کا تنازع ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’سندھ کمیونٹی پراپرٹیز ایکٹ 2013 کے تحت ساری تحقیقات ہوں گی جس کے بعد واضح ہوگا کہ یہ ملکیت کس کی ہے؟ کیونکہ مدراسی ہندو پنچایت ہو یا ریکھا، دونوں ہی مندر کی ملکیت کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکے۔‘
’ہم نے سیکریٹری برائے اقلیتی امور اور کمشنر کراچی کو خط لکھا ہے اور ان سے تحقیقات کرنے کو کہا ہے۔ وہ معلوم کریں گے کہ آیا یہ پرائیویٹ پراپرٹی ہے یا کمیونٹی پراپرٹی تا کہ قانون کے تحت مناسب قدم اٹھایا جا سکے۔‘
دوسری جانب شری پنچ مکھی ہنومان مندر کے شری رام ناتھ مشرا مہاراج نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’یہ ایک بہت پرانا مندر ہے 150 سال پہلے بنایا گیا تھا، مدراسی ہندو برادری کے زیر انتظام تھا اور ملکیت بھی مدراسی کمیونٹی کی ہی تھی۔ مندر اسی جگہ تھا جو مسمار کیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا: ’ریکھا نامی خاتون نے پری کاسٹ چھتوں پر دوسرا مندر تیار کیا۔ تقریباً آٹھ سال قبل مندر کی تزئین و آرائش کے لیے عارضی طور پر بیشتر مورتیوں کو ایک چھوٹے سے کمرے میں منتقل کردیا گیا تھا اور ہمارے مندر کبھی بھی لمبائی میں نہیں ہوتے اور نہ ہی 24 گز پر ہوتے بلکہ بڑی جگہ پر بنے ہوتے ہیں۔‘
اس معاملے پر وزیر اقلیتی امور گیان چند ایسرانی نے کہا کہ کسی بھی مندر کو مسمار کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
’محکمہ اقلیتی امور کی ایک ٹیم رپورٹ تیار کرنے کے لیے جگہ کا سروے کرے گی، یہ محکمہ اس مندر کی ہی جگہ پر دوبارہ مندر کی تعمیر کرے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ احاطے میں رہنے والی خاتون نے دعویٰ کیا کہ ان کے آباؤ اجداد نے مندر کی تعمیر کے لیے اپنی زمین عطیہ کی تھی اور اب وہ اس جگہ پر اپنا مکان بنا رہی ہیں۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شری مری ماتا مندر کے اس تنازع پر سندھ حکومت نے مندر کی مسماری کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ وہ اقلیتی برادری کی عبادت گاہ کے ڈھانچے کو مسمار کر کے کسی بھی تجارتی عمارت کی تعمیر کی اجازت نہیں دے گی۔
صوبائی حکومت نے مندر کو مسمار کرنے کے بارے میں پولیس اور مقامی انتظامیہ کو حکم دیا کہ وہ تعمیرات یا مسماری کا کام روک دیں۔
کراچی کے میئر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کے ترجمان سکندر بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کےبتایا کہ یہ پلاٹ ہندو پنچائیت کی ملکیت ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی مذہبی ہم آہنگی اور آزادی پر یقین رکھتی ہے اور کسی کو بھی اقلیتی برادری کی عبادت گاہ کا کوئی ڈھانچہ تعمیر کرنے یا گرانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
مرتضیٰ وہاب کے ترجمان نے بتایا: ’مئیر کراچی نے بھی مندر کا جائزہ لیا ہے مندر کا کوئی حصہ انہدام نہیں ہوا ہے اور مندر ابھی تک برقرار ہے۔‘
مرتضی وہاب نے 19 جولائی کو ایک ٹویٹ میں لکھا: ’وہ سمجھتے ہیں کہ اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں کا تحفظ ہونا چاہیے۔ پاکستان پیپلز پارٹی تمام برادریوں کے ساتھ کھڑی ہے۔‘
جبکہ ایڈوکیٹ روبینہ درانی مندر کے کیس کو گذشتہ 10 سال سے دیکھ رہی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مسمار ہونے والی جگہ ایک رہائشی حصہ تھا۔ مندر محفوظ ہے، مندر کے ساتھ رہائشی پلاٹ خستہ حالی کا شکار تھا جسے تعمیر کروانے کا کام شروع کیا۔
’جبکہ انڈین میڈیا پروپیگنڈا کررہا ہے۔ مندر کی ایک اینٹ نہیں ہلی اس میں کسی کا کوئی لین دین نہیں ہے۔ ہندو کمیونٹی کے چند لوگ فساد ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں دونوں پلاٹ علیحدہ ہیں۔‘