fbpx
خبریں

پیچیدہ طریقۂ کار کے باعث ایک لاکھ قیدی ووٹ کے حق سے محروم

’میں پاکستان کا شہری ہوں۔ آئین نے مجھے ووٹ ڈالنے کا حق دیتا ہے لیکن جیلوں میں قیدیوں کے لیے انتخابات کا کوئی آسان اور براہ راست طریقہ موجود نہیں ہے۔‘

یہ کہنا تھا کوئٹہ ڈسٹرکٹ جیل سزا کاٹنے والے قیدی غلام سرور کا، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور حکومت سے پابند سلاسل شہریوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دینے کے لیے آسان طریقۂ کار رائج کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اکثر قیدیوں کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہیں۔ ’ہم قیدیوں کی بھی خواہش ہے کہ اپنا جمہوری اور آئینی حق استعمال کریں اگر الیکشن کمیشن ہمیں ایسی سہولت میسر کرتا ہے تو سو فیصد قیدی ووٹ کاسٹ کریں گے۔‘

پاکستان کے چاروں صوبوں کے آئی جیز جیل خانہ جات سے رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک کی 100 جیلوں میں ایک لاکھ سے کچھ زیادہ قیدی موجود ہیں۔

پاکستان کے آئین کی شق 51 کے مطابق، اگر کوئی شخص پاکستان کا شہری ہے تو اسے ووٹ دینے کا حق حاصل ہے بشرطیکہ:

  • اس کی عمر 18 سال سے کم نہ ہو
  • اس کا نام انتخابی فہرست میں موجود ہو
  • اسے کسی مجاز عدالت نے ناقص الدماغ قرار نہ دیا ہو۔

آئین میں حقِ رائے دہی کے لیے اہلیت کے جو مندرجہ بالا معیار طے کیے گئے ہیں وہ قیدیوں کو ووٹنگ کے عمل سے خارج نہیں کرتے۔ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 93 (d) کے مطابق جیل میں نظر بند یا زیر حراست شخص پوسٹل بیلٹ کے ذریعے ووٹ ڈال سکتا ہے۔

الیکشن ایکٹ 2017 قیدیوں کو پوسٹل بیلٹ کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا حق فراہم کرتا ہے، تاہم 2018 کے انتخابات کے علاوہ چاروں صوبوں کے بلدیاتی انتخابات میں قیدیوں نے ووٹ کے درخواست دی تھی لیکن سرکاری سطح کسی نے بھی ایک قیدی کے ووٹ کاسٹ کرنے کی تصدیق نہیں کی۔

قیدی کے لیے ووٹ کاسٹ کرنے کا طریقہ

پاکستان کی کسی جیل میں موجود قیدی ووٹ ڈالنے کے لیے سب سے پہلے متعلقہ پریزائڈنگ افسر کو تحریری طور پر اپنا پوسٹل بیلٹ پیپر جیل منگونے کی درخواست کرتا ہے۔ بیلٹ پیپز ملنے کی صورت میں قیدی جیل حکام کے زیر نگرانی ووٹ ڈالتا ہے، اور بعد ازاں جیل حکام قیدیوں کے تمام نشان زدہ بیلٹ پیپرز الیکشن کمیشن کو بھیج دیتے ہیں۔

اس سادہ سے عمل کو مکمل کرنے کے لیے محکمہ داخلہ اور ڈی آئی جیل خانہ جات اور دوسرے کئی سرکاری عہدیداروں سے اجازت درکار ہوتی ہے، جس کے باعث قیدی اتنے لمبے بکھیڑے میں پڑنے کی بجائے ووٹ نہ دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔

الیکشن کمیشن اور قیدی کے درمیان بیلٹ پیپر کی آمد و رفت ڈاک کے ذریعے ہوتی ہے، جس کی سست روی کے باعث اکثر قیدیوں کے ووٹ تاخیر سے پہنچتے ہیں اور گنتی میں شامل نہیں ہو پاتے۔

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں واقع ہدہ جیل میں موجود قیدی روشن خان کے مطابق اگر ہر جیل میں پولنگ سٹیشن قائم کر دیا جائے تو ہزاوں کی تعداد میں قیدی ووٹ کاسٹ کریں گے۔

کوئٹہ ڈسٹرکٹ جیل کے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ عبدالرسول جتک نے انڈپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اکثر قیدی ووٹ کاسٹ کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں لیکن جب ہم انہیں تمام پراسس بتاتے ہیں تو وہ درخواست نہیں کرتے۔‘

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چیف پبلک انفارمیشن افسر انسپکٹر جیل خانہ جات پنجاب امتیاز عباس کے مطابق 2018 کے انتخابات میں قیدیوں کے کاسٹ ووٹوں کی تعداد محکمہ جیل خانہ جات کے پاس موجود نہیں ہے تاہم پنجاب میں ہونے والے انتخابات میں کوئی قیدی نے ووٹ کاسٹ نہیں کر سکا۔

خضدار سینٹرل جیل کے سپرنڈنٹ یاسین بلوچ نے انڈپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ فروری کے انتخابات کے حوالے سے انہیں ابھی تک کوئی حکم نامہ موصول نہیں ہوا۔

 بلوچستان کے محکمہ جیل خانہ جات کے ذرائع کے مطابق 2018 کے انتخابات میں صوبے کی جیلوں میں موجود تقریباً 1900 قیدیوں میں سے 150 کے قریب نے پوسٹل بیلٹ کے حصول کے لیے جیل حکام کے ذریعے ریٹرننگ افسران کو درخواستیں بھیجی تھیں لیکن پیچیدہ طریقہ کار کے باعث کسی کو حق رائے دہی کا موقع نہیں مل سکا۔

الیکشن کمیشن بلوچستان کے ترجمان نعیم احمد نے انڈپنڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ قیدیوں اور سرکاری ملازمین کے لیے پوسٹل بیلٹ کا قانون موجود ہے اور اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔

تاہم انہوں نے مشورہ دیا کہ قانون سازی کے ذریعے قیدیوں کے لیے پوسٹل بیلٹ کے طریقے کو آسان بنا دیا جائے تو مزید بہتری آ سکتی ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے