fbpx
خبریں

پیمرا ترمیمی بل مسترد، واپس لیا جائے: پاکستانی صحافتی تنظیمیں

حکومت پاکستان کی جانب سے پاکستان الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی (پیمرا) کے قوانین میں ترامیم کے نیا بل پیر کو کراچی پریس کلب میں صحافیوں کی تمام نمائندہ تنظیموں کے مشاورتی اجلاس کے بعد مسترد قرار دیا۔

پیر کو کراچی پریس کلب میں صحافیوں کی تمام نمائندہ تنظیموں کا مشاورتی اجلاس منعقد ہوا جس میں پیمرا ترمیمی بل 2023 کو مسترد کر دیا گیا۔

صحافیوں کی پیش کردہ سفارشات میں مطالبہ کیا گیا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے تجویز کردہ دو رکنی میڈیا کمیشن بنایا جائے اور پیمرا کی تشکیل نو کی جائے۔

اجلاس میں موقف اختیار کیا گیا کہ چیئرمین پیمرا اور کونسل آف کمپلینٹ کے ممبران کی نامزدگی چھ رکنی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے کی جائے۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اجلاس میں سفارش پیش کی گئی کہ پیمرا بطور نگران ادارہ صرف پراسیکیوٹر کے طور پر کام کر سکتا ہے، سزائیں دینے کے لیے جج کے طور پر کام نہیں کر سکتا۔ ایسی کسی بھی صورتحال میں علیحدہ خصوصی ٹریبونل تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

اجلاس میں آئین پاکستان آرٹیکل 19 کے غلط استعمال پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا اور سیاسی معاملات میں عدلیہ اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے فعال کردار کی طرف توجہ دلاتے ہوئے پارلیمنٹ سے اس پر نظرثانی کی اپیل کی گئی۔

اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ نیوز پیپرز ایمپلائز کنڈیشنز سروسز ایکٹ 1973 کی طرز پر میڈیا ایمپلائز کنڈیشنز اینڈ سروسز ایکٹ کی قانون سازی کی جائے۔

اجلاس میں ’مدیر‘ کی اہمیت اور ایڈیٹر کے عہدے کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا۔

اجلاس میں غیر مستند خبروں، ریمارکس، آڈیو، ویڈیو لیکس میں اضافے پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور بیان دیا گیا کہ اس طرح کے پروپیگنڈے اور ہتک آمیز مواد کے انسداد کا بہترین طریقہ ہتک عزت کا مضبوط قانون ہے۔

ہتک عزت کے قانون 2002 کو موثر بنانے کے لیے  اس میں ترمیم کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

اجلاس کے تمام شرکا اس بات پر متفق رہے کہ آزادی صحافت، میڈیا ورکرز کی بہتری اور صحافیوں کی ملازمت اور زندگی کے تحفظ کو یقینی بنانے اور پیمرا جیسے نگران ادارے کو مزید موثر بنانے کے لیے میڈیا کے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت جاری رکھی جانا چاہیے۔

اجلاس میں صحافیوں کی گمشدگی کے واقعات اور میڈیا پر غیر اعلانیہ پابندی اور سنسر شپ پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔

پی ایف یو جے کے سابق جنرل سیکریٹری ناصر زیدی اور شہزادہ ذوالفقار کی جانب سے جاری بیان میں بھی کہا گیا کہ کو وہ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کے اس بیان کی تردید کرتے ہیں کہ پی ایف یو جے کی سابق باڈی سے اس معاملے پر حتمی گفتگو ہوئی تھی۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ پیمرا ترمیمی بل کو واپس لیا جائے اور تمام فریقین کو ایک سنجیدہ مشاورتی عمل کا حصہ بنایا جائے نا کہ ایسا بل پاس کیا جائے جس سے عالمی دنیا میں ملک کا نام خراب ہو۔

حکومتی موقف

وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے نجی ٹی وی جیو نیوز سے پی ایف یو جے کی جانب سے جاری بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ وزارت اطلاعات کے تحت جوائنٹ ایکشن کمیٹی، جس میں صحافتی تنظیمیں بشمول سی پی این ای ، اے پی این ایس، امینڈ، پی ایف یو جے اور صحافی ناصر زیدی، سے اس بل پر مشاورت ہوئی۔  

مریم اورنگزیب کا مزید کہنا تھا کہ ’میں نے کوئی فیصلہ اکیلے نہیں لیا، میں نے کوئی فیصلہ مشاورت کے بغیر نہیں لیا، میں نے کوئی فیصلہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی مشاورت کے بغیر نہیں کیا۔‘

پیمرا ترمیمی بل

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کی جانب سے 20 جولائی 2023 کو پیش کردہ بل میں ’ڈس انفارمیشن‘ اور ’مس انفارمیشن‘ کا سیکشن شامل کیا گیا ہے۔

بل کے بارے میں ان کا موقف ہے کہ ’نئی ترامیم متعارف کرانے کا مقصد خبروں کے مواد کی ساکھ بڑھانا، گمراہ کن اور غلط اطلاعات کو ختم کرنا ہے۔‘

’بل کو بامقصد بنانے کے لیے فیک نیوز کی تعریف کو بھی اس کا حصہ بنایا گیا ہے۔‘

بل میں ڈس انفارمیشن کی تشریح یہ کی گئی ہے کہ ایسی خبر ’ڈس انفارمیشن‘ کہلائے گی جو کسی ذاتی، سیاسی یا مالی مفاد کی خاطر یا کسی کو ہراساں کرنے کے لیے دی گئی ہو۔

مجوزہ شق کے مطابق ’غلط معلومات سے مراد مصدقہ طور پر غلط، گمراہ کن، ہیرا پھیری، تخلیق شدہ یا من گھڑت معلومات ہیں جو کسی بھی شخص کی ساکھ کو نقصان پہنچانے، سیاسی، ذاتی یا مالی مفادات یا فائدے کے لیے یا ہراساں کرنے کے ارادے سے دوسرے شخص کے نقطہ نظر کو حاصل کرنے یا اسے مناسب کوریج اور جگہ نہ دینے کی کوشش کیے بغیر پھیلائی یا شیئر کی جاتی ہے۔‘

اس کے مطابق متعلقہ چینل متاثرہ شخص کا موقف بھی اسی نمایاں انداز میں نشر کرے گا یا کوریج دے گا جس طریقے  سے اس کے خلاف ’ڈس انفارمیشن‘ پر مبنی خبر دی گئی ہو گی۔

مجوزہ بل کے مطابق ’مس انفارمیشن‘ کی تشریح: ’مِس انفارمیشن‘ سے مراد وہ مواد ہے جو جانچ کے بعد جھوٹ ثابت ہو یا نہ چاہتے ہوئے غلطی سے نشر ہو گیا ہو۔




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے