fbpx
خبریں

پسینے بہاتا روبوٹ جو گرمی کا اثر جاننے میں مدد دے گا: تحقیق

جب انسان ہیٹ سٹروک کا شکار ہوتا ہے تو اس کے جسم کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ یا بتدریج ایک گرم ہوتے ہوئے سیارے میں ہم اپنی حفاظت کیسے کر سکتے ہیں؟ ان سلگتے سوالات کے جواب دینے کے لیے ایریزونا کے محققین نے ایک روبوٹ تیار کیا ہے جو سانس لے سکتا ہے، کانپ سکتا ہے اور پسینہ بہا سکتا ہے۔

اس روبوٹ کی تیاری میں پانچ لاکھ ڈالر سے زیادہ لاگت آئی ہے۔

امریکی شہر فینکس اس وقت تاریخ کے طویل ترین ہیٹ ویو سے گزر رہا ہے جہاں جمعے کو پارہ لگاتار بائیسویں روز 43 ڈگری سیلسیئس سے تجاوز کر گیا جس سے موسمیاتی تبدیلی کے دنیا پر تیزی سے پڑنے والے اثرات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

انسانوں کے لیے اس طرح بڑھتا ہوا درجہ حرارت ممکنہ طور پر مہلک خطرے کی نشاندہی کرتی ہے لیکن ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی میں انسان نما روبوٹ اینڈی کے لیے یہ ایک خوشگوار دن ہے۔

روبوٹ کا نام اینڈی ہے (یعنی Advanced Newton Dynamic Instrument)۔

مکینیکل انجنیئرنگ کے پروفیسر کونراڈ رائکازوسکی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’وہ دنیا کا پہلا آؤٹ ڈور تھرمل مینیکوئن (انسان نما روبوٹ) ہے جسے ہم معمول کے مطابق باہر لے جا سکتے ہیں اور اس بات کی پیمائش کر سکتے ہیں کہ وہ ماحول سے کتنی حرارت حاصل کر رہا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ خود کو خطرے میں ڈالے بغیر اس روبوٹ سے تجرباتی طور پر حرارت کی پیمائش ایک بہت ہی حقیقت پسندانہ طریقہ ہے کہ انسان کس طرح غیر معمولی آب و ہوا کا مقابلہ کر سکتا ہے۔

پہلی نظر میں اینڈی روبوٹ ایک سادہ کریش ٹیسٹ ڈمی سے مشابہت رکھتا ہے لیکن اس کی ایپوکسی یا کاربن فائبر کی جلد اس کے نیچے موجود جدید ترین ٹیکنالوجی کو چھپائے ہوئے ہے جو جلد سے منسلک سینسرز کا نیٹ ورک ہے جس سے جسم کے حرارت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اینڈی میں اندرونی کولنگ سسٹم اور سوراخ بھی ہیں جو انسانوں کی طرح اس کی جلد کو سانس لینے اور پسینہ بہانے میں مددگار ہوتے ہیں۔

روبوٹ میں 35 انڈپینڈنٹ تھرمل زونز ہیں اور انسانوں کی طرح یہ اپنی کمر سے زیادہ پسینہ بہاتا ہے۔

دنیا میں اس طرح کے صرف ایک درجن یا اس سے زیادہ روبوٹ موجود ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی باہر ماحول میں کام کرنے کے قابل نہیں تھا۔

وہ بنیادی طور پر کھیلوں کے سازوسامان کے مینوفیکچررز کی جانب سے تھرمل چیمبرز میں تکنیکی لباس کی جانچ کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔

محققین کو امید ہے کہ روبوٹ انسانوں میں ہائپرتھرمیا کی بہتر معلومات فراہم کرے گا جو گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں دنیا کی آبادی کے بڑھتے ہوئے تناسب کے لیے خطرہ بن رہا ہے۔

پروفیسر کونراڈ رائکازوسکی کا کہنا ہے کہ ہیٹ سٹروک کے دوران اخلاقی وجوہات کی بنا پر انسانوں کے اندرونی درجہ حرارت میں اضافے کی پیمائش نہیں کی جاتی اسی لیے ہم انسانی جسم پر گرمی کے اثرات ابھی تک پوری طرح سے سمجھ نہیں پائے ہیں لیکن اینڈی محققین کو سمجھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: ’ہم جو پہنتے ہیں اسے ہم کیسے تبدیل کر سکتے ہیں؟ ہم اپنے رویوں کی ترتیب کو کیسے تبدیل کرتے ہیں اور انہیں درجہ حرارت کے ساتھ کیسے ہم اہنگ کرتے ہیں وہ بھی اتنی شدت والے درجہ حرارت کے ساتھ۔

اینڈی کو لامحدود طور پر دوبارہ پروگرام کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ اس پروجیکٹ میں شامل ایک موسمیاتی ماہر جینیفر وانوس بتاتی ہیں کہ ’تحقیقی ٹیم آبادیوں کے مختلف حصوں کا جائزہ لینے کے لیے روبورٹ کے ڈیجیٹل جڑواں بچے پیدا کر سکتی ہے۔‘

مثال کے طور پر آپ کی عمر جتنی زیادہ ہوگی آپ کو اتنا ہی کم پسینہ آئے گا۔ نوجوانوں کو کھلاڑیوں یا بیمار لوگوں سے مختلف تحفظ کی ضرورت ہوگی۔ اینڈی کے ساتھ سائنس دان ہر فرد کے لیے مخصوص تھرمورگولیٹری میکانزم کی تقلید کر سکتے ہیں۔

وہ روبوٹ کو مختلف حالات میں بھی جانچ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر فینکس خشک خطہ ہے لیکن مرطوب گرم علاقے میں اس پر کیا اثر ہوگا؟ انسانی جسم گرم ہواؤں کا کیسے مقابلہ کر سکتا ہے؟

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس تحقیق کو گرمی سے بچنے والے کپڑوں کو ڈیزائن کرنے، شہری منصوبہ بندی پر نظر ثانی کرنے اور کمزور لوگوں کی حفاظت کے لیے کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔

فینکس میں، جہاں ہر موسم گرما میں بے گھر افراد کے لیے درجنوں کولنگ سینٹرز کھولے جاتے ہیں، اس تحقیق کے نتائج سماجی کارکنوں کے اقدامات کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔

وانوس کا کہنا ہے کہ ’ایک شخص کو کولنگ سینٹر میں کتنی دیر تک رہنا چاہیے تاکہ اس کا بنیادی درجہ حرارت اس سطح تک نیچے چلا جائے جو محفوظ ہو؟ ہم اینڈی کے ساتھ اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں۔‘

ٹیم کا یہ خواب بھی ہے کہ عمارت کی جگہوں پر کام کے اوقات کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے کم لاگت والے سینسرز تیار کیے جائیں جو عام موسمی حالات کی بنیاد کی بجائے سائٹ پر محسوس کی جانے والی اصل گرمی اور کارکنوں کی صحت سے مطابقت پیدا کریں۔

پروفیسر کونراڈ رائکازوسکی کا کہنا ہے کہ یہ ہر شہر، ہر ریاست، ہر ملک کے لیے محض سفارشات سے بہتر حفاظت کی طرف ایک قدم ہو سکتا ہے۔

اس طرح کے مخصوص، موزوں حل سے پورے شہروں کو دوبارہ تیار کر کیا جا سکتا ہے جس کے عالمی اثرات ہوں گے۔

پروفیسر کونراڈ رائکازوسکی کہتے ہیں، ’اگر پیرس کا مستقبل بھی فینکس جیسا ہوا تو ہم اس بارے میں بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں کہ ہم عمارتوں کو کیسے ڈیزائن کر سکتے ہیں۔‘




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے