سال 2023 پر نظر ڈالی جائے تو مشرقی سرحد سے زیادہ پاکستان کو مغربی سرحد پر چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا اس کے علاوہ اندرونی سکیورٹی حالات میں بھی قدرے بے امنی رہی۔
اختتام پذیر ہونے والے سال کے دوران بڑے پیمانے پر انٹیلی جنس آپریشنز کیے گئے جس میں سینکڑوں عسکریت پسندوں کو مارا اور گرفتار کیا گیا۔
وزارت دفاع سے حاصل کردہ اعدادوشمار کے مطابق ان آپریشنز میں 260 سے زائد افسران اور جوان بھی اپنی جان قربان کر گئے۔
پاکستان کے اندرونی چیلنجز
پاکستان کے لیے سال 2023 بیرونی چیلنجز کے ساتھ ساتھ اندرونی چیلنجز بھی نمایاں رہے۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور سوشل میڈیا پر مہمات اندرونی چیلنجز کی بڑی وجہ رہے۔
گذشتہ ہفتے آرمی جنرل عاصم منیر نے کسان کنونشن میں خطاب کے دوران کہا کہ ’سوشل میڈیا پر ہیجان، مایوسی اور افراتفری کا ماحول پیدا کر کے جھوٹی خبروں کے ذریعے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ جیسے ریاست اپنا وجود کھوتی جا رہی ہے۔‘
نو مئی کو ملک بھر میں دفاعی تنصیبات پر سیاسی کارکنان کے حملے،جلاؤ گھیراؤ ہوا جس کے نتیجے میں کئی فوجی افسران کے خلاف بھی کارروائی کی گئی جبکہ 102 سویلینز کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے۔
دفاعی تجزیہ کار قمر چیمہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے کہا کہ ’پاکستان کے اندرونی چیلنجز میں جو بڑا چیلنج ہے وہ سیاسی انتشار ہے۔ سیاسی جماعتوں میں پاکستان تحریک انصاف کا ریاستی اداروں کے ساتھ جو ٹکراؤ ہے اس سے پاکستان کی اندرونی سمت تبدیل ہوئی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں مستحکم سیاسی صورت حال نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا ’ایک بڑا چیلنج یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کے حملے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بڑھ گئے ہیں اس میں تحریک طالبان پاکستان کی واپسی اور بلوچ عسکریت پسند جماعتوں کا فعال ہونا بھی شامل ہے۔ اس کی وجہ ترجیحات مختلف ہونا ہے کیونکہ سیاسی جماعتوں کی ترجیح انتخابات جبکہ دفاعی اداروں کی ترجیح سکیورٹی صورت حال کو بہتر بنانا ہے۔ تمام سٹیک ہولڈرز مختلف سمتوں میں سوچ رہے ہیں۔‘
برگیڈئیر ریٹائرڈ طاہر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اندرونی چیلنجز میں معاشی و سیاسی عدم و استحکام کے دفاع پر اثرات مرتب ہوئے۔ پرتشدد سیاسی رویہ جو سڑکوں پر ہجوم کی شکل میں موجود تھا اس سے نمٹنا بھی ایک چیلنج رہا۔ ‘
پاکستان کے بیرونی چیلنجز
پاکستان کو اس وقت مغربی سرحد پر مشرقی سرحد کی نسبت قدرے مشکل حالات کا سامنا ہے۔ بیرونی چیلنجز کے حوالے سے قمر چیمہ نے کہا کہ ’افغانستان کے ساتھ ازسرنو جو پالیسی بنائی گئی ہے اس نے گذشتہ 50 سالہ پالیسی کو تبدیل کر دیا ہے۔ افغانستان پر بین الاقوامی برادری کا دباؤ بھی نہیں ہے، دوسرے نمبر پر انڈیا کا چیلنج ہے جس کی فوج کو تمام بڑی طاقتوں کی پشت پناہی اور جدید ہتھیاروں تک رسائی حاصل ہے جبکہ پاکستان کو ایسی کوئی سہولت حاصل نہیں ہے۔‘
بیرونی چیلنجز سے متعلق برگیڈئیر ریٹائرڈ طاہر نے کہا کہ ’یوکرین جنگ میں پاکستان کی پوزیشن متوازن رکھنا بھی پاکستان کے لیے چیلنج تھا۔ افغانستان کے ساتھ بین الاقوامی سرحد پر تحریک طالبان پاکستان کا فعال ہونا ایک سردست مسئلہ ہے جس کے ملک پر اندرونی اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں اسی وجہ سے افغان غیر قانونی باشندوں کو واپس بھجوانے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔
’اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر سے متعلق انڈین سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آیا ہے، اگر ہم اپنی معاشی و سیاسی صورت حال میں استحکام نہ لائے تو اس کے دور رس اثرات ہوں گے۔‘
سکیورٹی فورسز کے شدت پسندی کے خلاف اقدامات
وزارت دفاع سے حاصل کردہ معلومات میں بتایا گیا کہ سال 2023 میں خطے میں بدامنی کی صورت حال کے پیش نظر ملکی دفاع، سلامتی اور شدت پسندی کے خلاف موثر اقدامات کیے گئے۔
سرکاری ڈیٹا کے مطابق: ’حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے تانے بانے اور شواہد افغانستان میں موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہوں تک جاتے ہیں۔ رواں سال 2023 میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے ملک بھر میں 18736 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے۔‘
میسر معلومات سے پتہ چلا کہ 2023 میں ان آپریشنز کے نتیجے میں 566 شدت پسند جان سے گئے جبکہ 5161 کو گرفتار کیا گیا۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سال 2023 میں سکیورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے متعدد انتہائی مطلوب عسکریت پسندوں کو بھی مارا۔
ایک نظر دوڑاتے ہی معلوم ہوتا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے سب سے زیادہ آپریشنز صوبہ بلوچستان میں کیے۔
سرکاری معلومات کے مطابق ’بلوچستان میں 15063 انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز کئے گئے اور 109 شدت پسندوں کو مارا گیا جبکہ کے پی میں 1942 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کئے گئے جن میں 447 عسکریت پسندوں کو ختم کیا گیا۔ پنجاب میں 190، گلگت بلتستان میں 14 اور سندھ میں 1987 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کئے گئے جبکہ 10 عسکریت پسندوں کو سندھ میں مارا گیا۔‘
ایجنسیز کے مؤثر آپریشنز کے باعث گلزار امام شمبے اور سرفراز بنگلزئی، بلوچ نیشنل آرمی کے اہم ترین کمانڈرز نے عسکریت پسندی چھوڑ کر قومی دھارے میں واپس شمولیت اختیار کی۔
وزارت دفاع کے اعداد و شمار کے مطابق ’ان حملوں میں پاکستانی فوج کے 260 سے زائد افسران اور جوانوں سمیت تقریباً ایک ہزار سے زائد افراد جان سے گئے۔‘
پاکستان کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ
سال 2023 میں پاکستان نے اپنی دفاعی صلاحیت میں اضافہ کرتے ہوئے تین اہم تجربات کیے۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ دسمبر کے مہینے میں پاکستان نے مقامی طور پر تیاری کردہ گائیڈڈ میزائل سسٹم فتح ٹو کا تجربہ کیا ہے۔
یہ میزائل 400 کلومیٹر تک ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس تجربے میں مختلف پیرا میٹرز کو چیک کیا گیا۔ یہ روایتی جنگی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
18 اکتوبر کو پاکستان نے ابابیل ویپن سسٹم کا کامیاب تجربہ بھی کیا۔
آئی ایس پی آر سے جاری پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ میزائل سسٹم کے تجربے کا مقصد اپنے ڈیٹرنس کو مضبوط بنانا اور مختلف ڈیزائن، تکنیکی پیرامیٹرز اور ہتھیاروں کے نظام کے مختلف ذیلی نظاموں کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ یہ میزائل بیک وقت کئی اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ 24 اکتوبر کو غوری میزائل ویپن سسٹم کا تجربہ کیا گیا۔ میزائل روایتی اور نیوکلیئر وار ہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور 1300 کلومیٹر تک ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔