پاکستان نے ہفتے کو ایک بیان میں کہا کہ وہ ’سویڈن میں تورات اور انجیل کی سرعام بے حرمتی کی اجازت دیے جانے کی مذمت کرتا ہے۔‘
اسلام آباد میں دفتر خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ آزادی اظہار اور رائے کی آڑ میں مذہبی منافرت کی جارحانہ کارروائیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
دفتر خارجہ کا کہنا تھا: ’امن کے مذہب کے طور پر، اسلام تمام مذاہب، مقدس شخصیات اور کتابوں کے احترام پر زور دیتا ہے۔
’پاکستان نے اسلامی اصولوں کے مطابق ہمیشہ مذاہب، عقائد اور ثقافتوں کے درمیان احترام، ہم آہنگی اور پرامن بقائے باہمی کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
دفتر خارجہ کے مطابق: ’ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایک آواز ہو کر مذہبی منافرت کی ایسی تمام گھناؤنی کارروائیوں کی مذمت کرے جن سے مذاہب کے ماننے والوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں اور جان بوجھ کر اکسایا جاتا ہے۔ ‘
ایک 32 سالہ شخص نے سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں تورات اور انجیل کو نذر آتش کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔
اسرائیل نے اس عمل کی مذمت کی جس کے بعد مذکورہ شخص نے اپنے احتجاج کو آگے نہ بڑھنے کا اعلان کیا۔
مذکورہ شخص نے وضاحت کی کہ اس کا مقصد دراصل ان لوگوں کی مذمت کرنا تھا جو سویڈن میں قرآن جیسی مقدس کتابوں کو جلاتے ہیں۔
سویڈش پولیس نے جمعے کو کہا کہ اس نے سٹاک ہوم میں اسرائیلی سفارت خانے کے باہر ایک احتجاجی مظاہرے کی اجازت دی ہے۔
اسرائیل کے صدر اسحاق ہرزوگ کئی اسرائیلی نمائندوں اور یہودی تنظیموں میں سے ایک تھے جنہوں نے فوری طور پر اس فیصلے کی مذمت کی۔
مظاہرے کے منتظم احمد اے نے وضاحت کی کہ ان کا مقصد دراصل مقدس کتابوں کو جلانا نہیں تھا بلکہ ان لوگوں پر تنقید کرنا تھا جنہوں نے حالیہ مہینوں میں سویڈن میں قرآن کو نذر آتش کیا۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شامی نژاد سویڈش شہری کا کہنا تھا کہ ’یہ ان لوگوں کو جواب ہے جو قرآن کو نذر آتش کرتے ہیں۔ میں یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ اظہار رائے کی آزادی کی حدود ہیں جن کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنا ہو گا۔ ہم ایک ہی معاشرے میں رہتے ہیں۔ اگر میں تورات، کوئی اور شخص بائبل اور کوئی قرآن کو نذر آتش کرے گا تو یہاں جنگ ہو گی۔ میں جو دکھانا چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ ایسا کرنا ٹھیک نہیں۔‘
جنوری میں سویڈش-ڈینش دائیں بازو کے انتہا پسند راسموس پالوڈن نے نیٹو میں سویڈن کی رکنیت کی درخواست اور سویڈن کی فوجی اتحاد میں شمولیت کے لیے ترکی کے ساتھ مذاکرات کی مذمت کرنے کے لیے قرآن کو نذر آتش کیا۔
28 جون کو سویڈن میں ایک عراقی پناہ گزین نے عید الاضحی کے موقعے پر سٹاک ہوم کی سب سے بڑی مسجد کے سامنے قرآن کے کچھ صفحات کو نذر آتش کیا۔
ان دونوں واقعات کی مسلم دنیا کی طرف سے مذمت کی گئی۔ اگرچہ سویڈش پولیس نے وضاحت کی کہ مظاہرے کی اجازت کسی مقدس کتاب کو جلانے کی باضابطہ اجازت نہیں تھی۔
اگرچہ سویڈن میں مقدس کتابوں کو جلانے کی ممانعت کا کوئی قانون موجود نہیں لیکن پولیس ایسے مظاہرے کی اجازت دینے سے انکار کر سکتی ہے جس سے سکیورٹی میں پڑ جائے یا وہ نسلی منافرت کو ہوا دینے والے عمل یا بیانات کا سبب بن جائے۔