روزانہ کالج کی تیاری کے وقت میری عادت ہے کہ میں ٹی وی پر خبریں اور مختلف مارننگ پروگرامز بھی ٹی وی چینلز بدل بدل کے دیکھتی رہتی ہوں۔
اس دوران بہت ساری خبروں پر بے مزہ ہو کر بآواز بلند تبصرے کرتے رہنا اور کبھی کسی اینکر کی بات سے متفق ہونے پر شاباش دینا ایک عرصے سے میرا وتیرہ ہے۔
اب آپ سوچ ہی سکتے ہیں کہ صرف شاباش ہی نہیں کئی بار ناگواری سے ماتھا سکیڑنا اور کبھی تنہائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ نازیبا الفاظ سے نوازنا بھی تو ساتھ ساتھ چلتا ہی ہوگا۔
کوئی دو ایک ماہ کی اس مشق کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ بہت سارے اینکرز ذاتی طور پر مطالعہ کرنے کی عادت سے دور ہیں اور ان کو بولنے کے لیے دیا گیا مواد زیادہ تر ان کے پروڈیوسرز یا کانٹینٹ کریٹرز کی طرف سے ہی فراہم کیا جا رہا ہوتا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ اکثر اوقات جہاں انہیں کہیں اپنی طرف سے کوئی بات ایڈ کرنی پڑ جائے تو یک دم گڑ بڑا جاتے ہیں یا پھر ادھ ادھوری بات اپنے کسی تعصب کے تیل میں فرائی کرنے کے بعد بول دیتے ہیں۔
زیادہ تر پریزینٹرز صرف دیکھنے میں حسین اور بولنے میں مشین ہوتے ہیں تب ہی سکرین پر دکھائی دے رہے ہوتے ہیں لیکن خالی برتن کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ ہو جب کھڑکتا ہے تو سماعتوں پر گراں ہی گزرتا ہے۔
یہ بات ہمارے اساتذہ اور گھر کے بزرگوں نے بارہا ہمیں سمجھائی بلکہ یوں کہیں کہ پلے سے باندھ کے دی لیکن ہم بھی تب تک نہیں سمجھ پائے جب تک کہ اس کی اذیت کو سمجھے نہ تھے۔
بہ طور ایک سامع یا ناظر میرے جیسے ناقص العقل لوگ اکثر اس وجہ سے ہی چینل بدل دیتے ہیں کہ کوئی ڈھنگ کی بات سننے کو نہیں مل رہی ہوتی۔
میں خود ایک ٹی وی چینل سے کچھ عرصہ وابستہ رہی ہوں تو یہ بھی اندازہ ہے کہ آٹھ سے 10 گھنٹے کی شفٹ کے بعد اینکرز کے پاس اتنا وقت یا اعصاب نہیں بچتے ہوں گے کہ وہ جنرل ریڈنگ کی طرف جا سکیں۔
کتاب، اخبار یا کوئی میگزین اٹھائیں یا خریدیں پھر وقت نکال کے پڑھیں تو ان سب کے لیے چھوٹا سا مشورہ ہے کہ موبائل فونز جیسی ڈیوائس کا مکمل فائدہ اٹھائیں۔
یہ اب صرف رابطے اور سوشل میڈیا کے استعمال کی چیز نہیں ہے بلکہ اس پر مستند قسم کی ویب سائٹس کی تحریریں، پی ڈی ایف میں کتابیں اور رسائل اور یوٹیوب پر مختلف موضوعات پر مستند اور جانے مانے مصنفین اور محققین کی ویڈیوز بھی پڑی ہوئی ہیں۔
چلتے پھرتے، کھانا کھاتے، واش روم یوز کرتے ہوئے ایک ایئر پوڈ کان میں لگایا ہوا ہو اور کچھ بھی ایسا جو آڈیو اور ویڈیو کی صورت میں انٹرنیٹ پر موجود ہے اسے سن لیں۔
کتاب یا کوئی دستاویز ہے تو اسے سفر کے دوران یا رات کو سونے سے پہلے 25 سے 50 صفحے پڑھ لیا کریں۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کرنٹ افیئرز سے باخبر رہا کریں تاکہ جب کبھی خود سے بولنا پڑے تو آپ کی بات میں کسی منجھے ہوئے صحافی یا اینکر کا انداز نظر آئے اور آپ کم وقت میں جلدی کسی پرائم ٹائم شو کے میزبان بن سکیں۔
اور ہاں گوگل کی ہر قسم کی معلومات پر یقین کرنے کی بجائے مستند سائٹس تک رسائی کی کوشش کریں۔
اب ذرا بات کرلیں زبان و بیان کی۔۔۔
انگریزی زبان تو ماشااللہ اکثر میڈیا پرسنز کی اچھی ہے مسئلہ اب اردو زبان کا ہے کہ اس کا تلفظ اور ادائیگی عموماً درست نہیں ہوتے۔
اس کے لیے بھی جس طرز پر ہم گوگل سے انگریزی اور دیگر زبانوں کے لفظوں کی ادائیگی اور مطالب دیکھ کر سیکھ لیتے ہیں۔
بالکل اسی طرز پر اب ہمارے پاس اردو سکرپٹ میں ٹائپ کرنے کا جو آپشن موجود ہے اسے استعمال کیجیے۔
کسی بھی محاورے اور ضرب المثل کا مطلب جاننا ہے تو گوگل کے سرچ بار میں لکھ کر اینٹر کا بٹن دبا دیں۔ بہت سی لغات کے لنک سامنے آجاتے ہیں آپ ایک دو لنک کھول کے چیک کر لیں۔
اعراب اور گرامر کے ساتھ زیادہ تر الفاظ کی اصل آپ کو دستیاب ہو جاتی ہے۔ یعنی اب آپ کو اردو کے لیے فرہنگ آصفیہ، فیروز اللغات یا دیگر بڑی بڑی ڈکشنریوں میں ڈھونڈنے کی ضرورت بھی نہیں رہی۔
اب ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اچھی شکل، اچھے پہناوے، اچھے میک اپ اور فر فر بولنے کے ساتھ ساتھ آپ با اثر، درست اور با وزن بولنا شروع کر دیں۔
تاکہ آئندہ اگر آپ کا پروڈیوسر یا محقق کچھ غلط لکھ کر لے آتا ہے تو آپ اسے کہہ سکیں کہ جناب ! کچھ پڑھ بھی لیا کریں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔