صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم کا نام اردو ادب میں ان کی تخلیقات کی بدولت آج بھی زندہ ہے۔ اردو کے اس ممتاز ادیب، شاعر اور نقّاد نے 7 فروری 1978ء کو اپنی آنکھیں ہمیشہ لیے موند لی تھیں۔
اردو، پنجابی اور فارسی زبانوں میں شاعری کے ساتھ بچّوں کے لیے لکھی گئی نظمیں صوفی صاحب کی ایک بڑی وجہِ شہرت ہیں۔ وہ امرتسر میں پیدا ہوئے تھے اور بعد کا زمانہ لاہور میں گزارا۔ ممتاز فکشن نگار اور ادیب انتظار حسین نے اپنی ایک کتاب بعنوان ملاقاتیں میں صوفی صاحب کے بارے میں لکھا تھا، صوفی صاحب اصل میں یہ بتا رہے تھے کہ امرتسر کیا خوب شہر تھا۔ ایک طرف قالینوں اور پشمینوں کے سوداگر، دوسری طرف شعرا و ادباء اور تیسری طرف علماء مشائخ۔ اور یہ سوداگر خود سوداگری کے ساتھ علم و فضل میں بھی شہرہ رکھتے تھے۔
صوفی صاحب کے سامنے امرتسر کا نام لے دو، بس پھر وہ شروع ہو جاتے ہیں۔ مولانا غلام علی، ان کے خلیفہ عبدالرحمٰن، مولانا عبداللہ غزنوی اور پھر انہیں اپنے دادا یاد آ گئے۔ ”میرے دادا، درویش صفت آدمی تھے۔ ان کے گھر میں صرف دو تھالیاں تھیں۔ ایک تھالی میں خود کھاتے تھے وہ اور میری دادی، دوسری تھالی میں وہ درویش کھاتا تھا جو اس گھر میں مہمان تھا۔ تیسری تھالی اس گھر میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔ میرے دادا کہتے تھے کہ سامان کس دن کے لیے جمع کیا جائے اور تیسری تھالی کس کے لیے رکھی جائے۔“
صوفی صاحب نے دادا کے گھر پرورش پائی۔ والد صاحب دوسرے قماش کے آدمی تھے۔ دادا نے انتقال کیا تو انہوں نے کتب خانہ کہ نادر علمی کتابوں سے بھرا ہوا تھا، لوگوں میں بانٹ دیا۔ بس کچھ فارسی شاعروں کے دیوان رہ گئے۔ صوفی صاحب نے وہ دیوان پڑھے اور فارسی میں شعر کہنے لگے۔
صوفی صاحب نے طالبِ علمی کا ابتدائی زمانہ امرتسر میں گزارا۔ کچھ دنوں خالصہ کالج میں پڑھے۔ پھر 1921ء میں لاہور چلے آئے اور ایف سی کالج میں داخلہ لیا۔ لاہور کیا آئے کہ بس یہی ان کا گھر بن گیا۔
لاہور میں صوفی صاحب کو تاثیر، بخاری، تاج اور سالک جیسے یار مل گئے۔ ایک دن تاثیر صاحب نے کہا کہ او صوفی تیار ہو جا، رسالہ نکال رہا ہوں۔ اس اعلان کے چند دنوں بعد ”نیرنگِ خیال“ نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے اردو ادب میں نیاز مندانِ لاہور کا زمانہ شروع ہو گیا۔ رسالوں میں بحثیں اپنی جگہ اور مشاعروں میں مقابلہ اپنی جگہ۔ صوفی صاحب کہنے لگے کہ اس طرف سے تاجور نجیب آبادی، سیماب اکبر آبادی اور بڑا بڑا شاعر آتا۔ ادھر سے ہم نے حفیظ جالندھری کو میدان میں چھوڑا۔ اس مقابلہ آرائی نے لاہور شہر میں ایک زندگی پیدا کر دی۔ لیکن یہ مقابلہ بہت صحت مندانہ رنگ لیے ہوئے تھا۔ بُرے شعر پر خواہ اپنی ہی پارٹی کے شاعر کا ہو کبھی داد نہیں دی گئی۔ اچھا شعر ہو تو بے شک مخالف پارٹی کے شاعر کا ہو جی بھر کر داد دیتے تھے۔ ایس پی ایس کے ہال میں مشاعرہ تھا۔ سر عبدالقادر صدارت کر رہے تھے۔ میں نے فارسی میں غزل پڑھی۔ پیچھے کسی نے اچانک پیٹھ پر زور سے ہاتھ مارا کہ میں گرتے گرتے بچا۔ یہ یاس یگانہ تھے جو داد دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ واللہ کیا شعر کہا ہے۔ تو آج کی سی منافقت ان دنوں نہیں تھی۔ شعر و ادب کے معاملہ میں ہم پُر خلوص تھے۔
صوفی صاحب کہنے لگے کہ ادھر سے جو شاعر آتے ان میں سچا شاعر یگانہ تھا۔ پھر کہنے لگے کہ برسرِ مشاعرہ ہم نیاز مندانِ پنجاب ادھر سے آنے والوں کے خلاف صف آراء ہوتے تھے، مگر مشاعرہ ختم ہوتے ہی آپس میں گھل مل جاتے تھے۔
صوفی صاحب نے باتوں باتوں میں نجی صحبتوں کو یاد کیا جو کبھی ان کے گھر پر اور کبھی بخاری صاحب کے گھر پر منعقد ہوتیں۔ کہنے لگے کہ ”کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان صحبتوں میں، مَیں نے اپنی نجی پریشانیوں کا ذکر کیا ہو۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ یار اکٹھے تھے اور گھر میں میرے بیٹے کی جان کے لالے پڑے تھے، مگر مجال ہے کہ میں نے دوستوں کو پتہ ہونے دیا ہو۔ ہاں جب پریشانیاں گھیر لیتی تھیں تو میں علامہ اقبال کی خدمت میں پہنچتا، ان کی باتیں خاموشی سے سنتا اور ساری پریشانیاں اور کلفتوں سے نجات حاصل کر کے وہاں سے نکلتا۔
پھر صوفی صاحب علّامہ اقبال کے حقّے کی تفصیلات بیان کرنے لگے۔ کہتے تھے کہ علامہ حقّہ پیتے نہ پیتے بہرحال اس کی نَے مٹھی میں دبائے رکھتے تھے اور باتیں کیے جاتے تھے۔
صوفی صاحب کہنے لگے کہ حقہ کے بغیر میں بھی بات نہیں کر سکتا۔ رات کو بیچ بیچ میں آنکھ کھلتی ہے اور میں ایک گھونٹ لیتا ہوں اور سو جاتا ہوں لیکن اگر حقہ ٹھنڈا ہو تو پریشان ہو کر اٹھ بیٹھتا ہوں۔“ پھر صوفی صاحب اپنی پریشانی بیان کرنے لگے کہ میرے پاس کوئی ملازم ہونا چاہیے کہ مستقبل میرے لیے حقہ گرم رکھے۔
صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم کی تاریخِ پیدائش 4 اگست 1899ء ہے۔ امرتسر اور لاہور سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد وہ تدریس کے پیشے سے منسلک ہوئے لاہور کے تعلیمی اداروں سے وابستگی اختیار کی، ریٹائرمنٹ کے بعد صوفی صاحب خانہ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر، لیل و نہار کے مدیر اور کئی دیگر اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔
وہ ادیب اور شاعر ہی نہیں استاد، شارح، مترجم اور نقّاد کی حیثیت سے بھی تھے اور ان اصنافِ ادب میں ان کی علمی و ادبی کاوشوں نے انھیں ہم عصروں میں ممتاز کیا۔ صوفی صاحب کا ایک نمایاں اور اہم حوالہ بچّوں کا ادب ہے جس میں ان کی تخلیقات کے علاوہ ایسے مضامین اور غیر ملکی ادب سے تراجم شامل ہیں جو بچّوں اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنے۔ خاص طور پر بچّوں کے لیے تخلیق کردہ اپنی نظموں سے انھوں نے نہایت دل چسپ اور پُر لطف طریقے سے قوم کے معماروں کو علم و عمل کی طرف راغب کرنے کا اہتمام کیا۔ ایک زمانہ تھا جب ان کی نظمیں ہر بچّے کو ازبر ہوتی تھیں۔ آج بھی ان کی نظمیں نصاب کا حصّہ ہیں اور بچّوں کو یاد کروائی جاتی ہیں۔
صوفی تبسّم کا تخلیق کردہ ایک کردار ٹوٹ بٹوٹ ہے۔ صوفی تبّسم نے اپنی شاعری میں ٹوٹ بٹوٹ کو اس خوب صورتی سے پیش کیا کہ بچّوں نے اسے اپنا ساتھی اور دوست سمجھ لیا اور اس کے ساتھ تعلیم و تربیت کا عمل انجام پایا۔ ان نظموں کی خصوصیت معلومات میں اضافہ کرنے کے ساتھ بچوں کو دماغ سوزی پر آمادہ کرنا ہے اور اس کے لیے انھوں نے پہیلیاں، کہاوتیں اور لطائف کو منظوم کیا۔
حکومتِ پاکستان نے صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم کو صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا جب کہ حکومتِ ایران نے انھیں نشانِ سپاس دیا۔
صوفی غلام مصطفٰی تبسّم کی آخری آرام گاہ لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں ہے۔