پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کے ساتھ دوبارہ وزیرخارجہ بننا میرے لیے تو ناممکن ہے۔ اگر انہوں نے اسی قسم کی پرانی سیاست کرنی ہے تو میں اس پرانی سیاست کا ساتھ نہیں دے سکتا۔
انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’جس روپ میں میاں صاحب اس بار سامنے آ رہے ہیں، یہ وہ چارٹر آف ڈیموکریسی والے میاں صاحب نہیں ہیں۔ یہ ووٹ کو عزت دو والے میاں صاحب نہیں ہے۔ یہ وہی پرانے آئی جی آئی والے میاں صاحب ہیں جن کا ساتھ دینا میرے لیے مشکل ہے۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اس وقت کئی مسئلے درپیش ہیں، ہمارے معاشی بحران کا اثر پاکستان پر ہو رہا ہے۔
ملکی مسائل کو دیکھتے ہوئے کیا بلاول بھٹو وزارت اعظمیٰ کے لیے تیار ہیں کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’ملک میں غربت، مہنگائی اور بے روزگاری میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے دوسری طرف دہشت گردی ایک بار پھر سر اٹھا رہی ہے۔
’اس کے علاوہ جمہوریت اور آئینی حالات میں بھی ایک بحران نظر آ رہا ہے۔ پاکستان میں تقسیم کی سیاست جو خان صاحب کرتے تھے اور میاں صاحب کی بھی روایت تھی، وہ اب سیاست نہیں ذاتی دشمنی میں تبدیل ہو گئی ہے۔‘
’میں پاکستان میں اس تقسیم کو ختم کرنا چاہتا ہوں۔ اگر ہم نے معیشت، جمہوریت اور دہشت گردی کے مسائل کو حل کرنا ہے تو پہلے ہمیں اس تقسیم کو بخار کو توڑنا ہو گا۔
’ان تمام معاملات کو حل کرنے کے لیے میں بہترین پوزیشن میں ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں نہ صرف تیار ہوں بلکہ اس عہدے کو سنبھالنے کے لیے بہترین پوزیشن میں ہوں۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم اور الیکشن میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے سوال پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ’ہماری انتخابی مہم بہت زبردست رہی ہے۔ عوام کا ردعمل امیدوں سے زیادہ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے جو چاروں صوبوں میں انتخابی مہم چلا رہی ہے۔ ہم نے سب سے پہلے انتخابی مہم کا آغاز کیا، سب سے پہلے منشور دیا۔‘
ان کے مطابق ’ماضی کے مقابلے میں اچھا ردعمل مل رہا ہے۔‘
لیول پلیئنگ فیلڈ کے معاملے پر ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اپوزیشن لیڈر کے ساتھ مل کر حکومت بنائی، پھر جو اپوزیشن لیڈر بنے راجا ریاض وہ اس وقت ن لیگ کے ٹکٹ پر لڑ رہے ہیں۔ ہمیں ضرور شکایت ہے کہ میاں صاحب نہ صرف دوسرے لوگوں کو بلکہ پیپلز پارٹی کے لوگوں کو بھی تنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم میرے خیال میں انتظامیہ اسٹیبلشمنٹ نہیں ہے۔‘
حکومت کے لیے کس جماعت سے اتحاد بن سکتا ہے؟ کے سوال پر بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک مشکل سوال ہے کیوں کہ ہمارے مقابلے میں جو دونوں سیاسی جماعتیں ہیں، وہ ایک ہی قسم کی سیاست کر رہی ہیں۔ جو نفرت اور تقسیم کی سیاست ہے۔ وہ اشرافیہ کے فائدے والی ایک ہی قسم کی معاشی پالیسی پیش کر رہی ہیں۔
’میرے لیے یہ معاملہ کنویں اور کھائی کے درمیان کسی ایک کو چننے کا ہو گا، میری کوشش ہو گی کہ پیپلز پارٹی اپنی حکومت بنائے اور امید ہے کہ ایسا ہی ہو گا۔‘
بلاول بھٹو سے پوچھا گیا کہ اگر نتائج خلاف توقع ہوتے ہیں تو کیا انہیں قبول کریں گے؟ اس صورت حال میں کیا دوبارہ وزیرخارجہ بنیں گے؟
اس پر بلاول بھٹو نے کہا ’ان کے ساتھ دوبارہ وزیرخارجہ بننا میرے لیے تو ناممکن ہے اگر انہوں نے اسی قسم کی پرانی سیاست کرنی ہے تو میں اس پرانی سیاست کا ساتھ نہیں دے سکتا اگر وہ یہ پرانی روایتی توڑتے ہیں اور کوئی روایت قائم کرنا چاہتے ہیں وہ ایک ایسا ماحول بنانا چاہ رہے ہیں جس سے جمہوریت کو، ملک کو، معیشت کو فائدہ ہوگا تو میں ان کا وزیر تو نہیں بن سکتا لیکن اس چیز کا ساتھ دے سکتا ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’رزلٹ سے الیکشن کو قبول کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں جتنا لیک آف لیول فیلڈ ہونا تھا وہ ہوا، اس سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ ‘
پیپلزپارٹی چیئرمین نے کہا کہ ’مجھے امید ہے کہ ایسی چیزیں نہ ہو جس سے ہمیں مجبوراً ایسے اقدامات لینے پڑیں جس سے سیاسی استحکام میں اضافہ نہیں کمی ہو۔ میں ضرور قبول کروں گا اگر اس سے زیادہ، اس سے مزید، اس سے اور زیادہ گڑبڑ نہ ہوئی تو۔‘
سابق وزیراعظم عمران خان کو تین مقدمات میں سزائیں سنائی گئی ہیں، جس میں عدت کے دوران نکاح کا کیس ہے، اس پر پیپلزپارٹی کا کیا موقف ہے؟
اس پر بلاول کا کہنا تھا کہ ’انٹرنیشنل چینل پر میں اس معاملے پر میں بات نہیں کرنا چاہوں گا۔‘
عمران خان کے خلاف کیسز پر بلاول بھٹو کا موقف
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’خان صاحب کا جو ماضی رہا ہے، وہ خوش ہوتے تھے اپنے مخالفوں پر کیسز بناتے ہوئے، ہر کسی کو چور قرار دیتے ہوئے، میں اس طریقے سے خان صاحب کی طرح اس چیز میں کوئی ذاتی خوشی محسوس نہیں کر رہا۔‘
پی ٹی آئی کا مستقبل کی حکومت میں کوئی کردار نظر آتا ہے؟
اس سوال پر ان کا کہنا تھا کہ’ نہیں میں پی ٹی آئی کا کردار کسی صوبائی حکومت میں یا وفاقی حکومت میں نہیں دیکھتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اپنی سپیس واپس لینے کے لیے سیاستدان اپنے دائرے میں رہ کر کام کریں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری سیاست میں سیاست دانوں کے اپنے کردار کی وجہ سے وہ سپیس کم ہوتی جا رہی ہے۔ سیاستدان اپنے دائرے میں رہ کر کام کریں، جو بھی نو مئی کو ہوا وہ سیاست نہیں تھی۔
’ہمارے اتحادیوں کا جو کبھی کبھار رویہ ہوتا ہے وہ بھی سیاست نہیں ہے۔ سیاست کے دائرے میں رہ کر سیاست کیا کریں پھر ادارے بھی اپنے دائرے میں رہ کر سیاست کریں گے۔‘
پی پی چیئرمین نے کہا کہ ’دوسرے سیاستدانوں کو ایک دوسرے کی عزت کرنی چاہیے۔ ایک دوسرے کی عزت نہیں کریں گے تو یہ امید نہ رکھیں کہ کوئی اور آپ کی عزت کرے گا۔‘
جمہوریت کی بقا کے لیے ساری سیاسی جماعتوں کو ساتھ بیٹھنا ہو گا؟ کے سوال پر بلاول بھٹو نے کہا کہ ’ایک پری ریکوزیٹ ہے جو کہ سیاستدانوں کو کرنا چاہیے تاکہ اس حالات میں نہ پہنچیں۔ اس ملک میں جو نو مئی کا واقعہ ہوا تھا تو یہ ہماری کامیابی ہے کہ 10 مئی کو مارشل لا نہیں لگا۔
’پاکستان کی تاریخ ایسی رہی ہے کہ 50 فیصد سے زیادہ وقت تو ملٹری ڈکٹیٹرشپ رہی ہے۔ اور آپ پھر اس قسم کی حرکت کرکے یہ امید نہ رکھیں کہ ہماری سویلین سپیس بہتر ہو گی۔‘
انہوں نے کہا ’میں نے تو اس وقت فلور آف دی ہاؤس پر کہا تھا کہ خان صاحب نے جو فیصلے لیے ہیں ان فیصلوں کی وجہ سے انہوں نے اپنی جماعت کو بند گلی میں دھکیل دیا، ایسا نہ ہو کہ ہمارے پورے نظام کو بند گلی میں دھکیلا جائے۔‘
ن لیگ پر تنقید کے سوال پر بلاول کا کہنا تھا ’آپ چاہتے ہیں میں اپنی الیکشن کمپین چلاتے ہوئے ان کے لیے تالیاں بجاؤں۔ میں کہتا ہوں کہ جیسے باقی دنیا میں ہوتا ہے وزیراعظم کے امیدوار کی بحث ہونی چاہیے اور اس کے جواب میں ن لیگ کہتی ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذاتی نے حملہ کیا ہے میاں صاحب پہ۔‘
انہوں نے کہا ’میرے خیال میں ہم پر اس قسم کی تنقید بھی ہمارے ساتھ نا انصافی ہے۔ ہم ضرور اختلاف کر رہے ہیں، الیکشن اختلاف کرنے کا موسم ہے ہمیں اس دوران جو اختلافات کو سامنے لانا چاہیے اور کسی عام بندے کا غیرجانب دار تجزیہ بھی یہ ہو گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جس روپ میں میاں صاحب اس بار سامنے آ رہے ہیں، یہ وہ چارٹر آف ڈیموکریسی والے میاں صاحب نہیں ہیں۔ یہ ووٹ کو عزت دو والے میاں صاحب نہیں ہے۔ یہ وہی پرانے آئی جی آئی والے میاں صاحب ہیں جن کا ساتھ دینا میرے لیے مشکل ہے اور جس کی سیاست پر تنقید کرنا جائز ہے۔‘
بلاول بھٹو سے پوچھا گیا کہ آپ جن پر تنقید کر رہے ہیں انہیں کے اتحادی حکومت میں وزیر خارجہ رہے ہیں۔ تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ آپ کی سیاسی غلطی تھی؟
جس پر بلاول نے کہا کہ ’میں دل پہ ہاتھ رکھا ہے یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے یہ خلوص نیت سے کام کیا، دن رات کام کیا، پوری کوشش تھی کہ ملکی عوام کو فائدہ پہنچائیں اور خارجہ سطح پر پاکستان کو مشکلات سے نکالیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارے ساتھ جو ہمارے اتحادی تھے انہوں نے اپنی ذمہ داریوں پر اس طریقے سے توجہ دینے کے بجائے ان کا ایک فوکس تھا کہ میاں صاحب کو چوتھی بار وزیر اعظم بنانا ہے، جس طریقہ سے بنانا ہے اس سے فرق نہیں پڑتا، نقصان ہو تو ہو، ہم نے یہ کام کرنا ہے۔‘
انہوں نے کہا ’وہ پی ڈی ایم اب پی ڈی ایم ہی نہیں رہی وہ پی ڈی ایم کی بجائے پی این اے یا آئی جی آئی کی طرح لگنا شروع ہو گئی ہیں۔
’ظاہر ہے کہ میں تو پی ڈی ایم کے ساتھ چلا تھا، میں آئی جی آئی کی سیاست تو نہیں کر سکتا۔‘
ان سے پوچھا گیا کہ پیپلز پارٹی نے جو منشور دیا اس پہ اپوزیشن پارٹیز نے کافی تنقید کی کہ جو پارٹی سندھ میں مفت بجلی نہیں دے سکی وہ وفاق میں کیسے دے گی؟ آپ کے خیال میں یہ تنقید جائز ہے؟
اس پر بلاول کا کہنا تھا کہ ’جہاں تک بجلی کا نظام ہے وہ وفاق کا ایک ٹاپک ہے۔ میرا عوامی معاشی معاہدہ دس نکاتی ہے جس سے ہم غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کا مقابلہ کریں گے۔
’میں نے نہ صرف وہ منصوبے جن کا ذکر کیا کہ میں کروں گا، جن میں ایک ہمارا گرین ٹرینزیشن، گرین انرجی پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ ہے اور سولر بجلی کے تھرو 300 یونٹ غریب ترین لوگوں کو دلوانا تاکہ ہم اپنی انرجی ٹرانزیشن کیٹلائز کر سکیں۔ باقی تمام ہمارے منصوبے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ جو ہم اس کو کیسے فنڈ کریں گے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔‘
بلاول بھٹو سے پوچھا گیا کہ اقتدار ملنے کی صورت میں آپ کا صدر کا امیدوار کون ہو گا؟
جس پر پی پی چیئرمین نے کہا کہ ’الیکشن میں ہر عہدے کے لیے ایک امیدوار ہوتا ہے۔ صدر کے لیے ہمارے امیدوار آصف علی زرداری ہوں گے۔‘
سوال کیا گیا کہ حکومت ملنے کی صورت مین سفارتی ترجیحات کیا ہوں گی؟ بلاول بھٹو نے کہا ’جہاں تک چین کا سوال ہے ہمیں اپنے تعلقات اچھے انداز سے آگے لے کر جانا پڑیں گے۔ جس سوچ کے ساتھ صدر زرداری نے شی جن پنگ کے ساتھ مشن کی بنیاد رکھی تھی اسی سوچ کے مطابق اس کانسپٹ کو ہمیں تیزی سے اسے مکمل کرنا چاہیے۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا ’جہاں تک امریکہ یا مغرب کا عمومی معاملہ ہے، ان کے ساتھ میں چاہوں گا کہ پاکستان کے تعاون میں اضافہ ہو۔ جہاں تک ریجن کی بات ہے تو وہاں میں چاہوں کا گہ ہم اپنی پالیسی پر دوبارہ غور کریں اپنے چار ہمسایہ ممالک میں سے ہم صرف ایک کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں، صرف ایک ساتھ ہمارا تعلق آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت بہت اچھے انداز سے چل رہے ہیں۔ باقی تین کے ساتھ نہ ٹریڈ کر سکتے ہیں نہ بات چیت کر سکتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کشمیر پر بھی ہمارے اعتراضات ہیں، بات نہ کرنے کا طریقہ کار جو ہم نے اپنایا ہے، وہ میرے خیال میں اتنا کامیاب نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر ہم نارتھ ٹو ساؤتھ کا اکنامک کوریڈور بنا سکتے ہیں تو ایک خواب یہ بھی رکھتے ہیں ایسٹ ٹو ویسٹ کا کوریڈور ہو، لیکن اس کو حقیقت بنانے کے لیے بہت سی ڈپلومیسی، بہت سے رابطوں کی ضرورت ہے۔‘
بین الاقوامی تعلقات
اس پر بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’ہمسایہ ملک کے کچھ فیصلوں کی وجہ سے مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔ میری اپنی کوشش ہوگی کہ پہلے میں اپنے ملک میں ایک اتفاق رائے بنائیں کہ نہ صرف پاکستان کے مستقبل بلکہ ہمارے خطے کے مستقبل پر بھی ہم اثر کر سکتے ہیں۔ جو ہمارے خطے میں اختلاف چاہتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے سے لڑیں، میں چاہوں گا کہ پاکستان ایک پل کا کردار ادا کرے۔‘
اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے سوال پر پی پی چیئرمین نے کہا کہ ’اسرائیل کے بارے میں پاکستان کی پالیسی واضح ہے، اس میں تب تک ترمیم نہیں آ سکتی
جب کہ اقوام متحدہ کی پالیسی، پوزیشن پر عمل دارآمد نہیں ہوتا، جب تک فلسطین کے عوام کو ریاست نہیں دلوائی جاتی، جب تک فلسطین کے عوام، فلسطین کے حکمران یہ نہ کہیں کہ ہم ان کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں۔
’اس وقت تک میں نہیں سمجھتا ہوں کہ وہ گنجائش ہے کہ پاکستان اس قسم کی کوئی پوزیشن لے۔‘
ان سے پوچھا گیا کہ کیا اسرائیل پاکستان کی نیشنل سکیورٹی کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے؟
اس سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’میں ہر کسی کو نیشنل تھریٹ ڈیکلئر کرنے پر یقین نہیں رکھتا۔ مگر دنیا کے لیے جو حالات آج کل ہو رہے ہیں، ہم بہت ہی خطرناک نہج سے گزر رہے ہیں۔‘
ناہید خان کو کیوں سائیڈ لائن کیا گیا؟ کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’اس پر میں اتنی زیادہ بات نہیں کرنا چاہوں گا، ہر کسی کی مرضی ہے وہ پارٹی میں رہنا چاہتے ہیں، وہ چھوڑنا چاہتے ہیں، میرے خیال میں ان لوگوں نے اپنے آپ کو پارٹی سے دور کیا۔‘
شادی کے متعلق سوال کا جواب میں انہوں نے کہا، ’اگر سوال کا جواب دیا تو انٹرویو کی تمام باتیں اڑ جائیں گی اور اس سوال کا جواب سوشل میڈیا اور ہیڈلائنز میں چلے، میری ترجیح ہوگی کہ اس سوال کا جواب نہ دوں۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔