براڈ کاسٹنگ کے نت نئے طریقوں میں سے ایک پوڈکاسٹ بھی ہے، جو پاکستانی نوجوانوں میں بے حد مقبول ہوتا جا رہا ہے، لیکن ہمارے یہاں پوڈکاسٹ کے شوقین افراد کی اکثریت اس بات سے ناواقف ہے کہ یہ درحقیقت آڈیو کا نام ہے۔
اسی حوالے سے ہم نے ’ناٹ ایوری ویمن‘ (Not Every Women) کے عنوان سے پوڈ کاسٹ کرنے والی مریم کائیوان راجہ سے خصوصی گفتگو کی، جن کی سنجیدہ سوچ اور نقطہ نظر کی بدولت خواتین کی ایک بڑی تعداد ان کی پوڈکاسٹ سے جڑی ہے۔
انٹرویو کے دوران پوڈکاسٹ کے نام سے متعلق سوال پر مریم کائیوان نے بتایا کہ ’ہماری خواتین ہمیشہ خوفزدہ رہتی ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے، میں نہیں کرسکتی،گھر کیسے چلے گا۔ وہ اپنے کمفرٹ زون سے باہر نہیں نکلتیں، تو اس پوڈکاسٹ کا مقصد ایسی خواتین کو سامنے لانا ہے، جن کے اندر کچھ کرنے کی جرات ہے اور وہ اپنے گھر اور کام دونوں کو کامیابی سے لے کر چل رہی ہیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ یہ نام ان کے شوہر نے تجویز کیا تھا۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مریم نے مزید بتایا: ’میں پہلے مین سٹریم میڈیا میں کام کرتی رہی ہوں لیکن وہاں مزہ نہیں آتا تھا کہ ایک مخصوص انداز میں مخصوص سوال پوچھنے ہیں اور اس کے ساتھ میں خود بھی زندگی کے ایسے مرحلے سے گزر رہی تھی تو سوچا کہ کس طرح گھر اور کام دونوں کو ساتھ لے کر چل سکتی ہوں تو پھر پوڈکاسٹ شروع کرنے کا خیال آیا، جس کے اندر ہم مختلف لوگوں کو بلائیں، جن کی اپنی اپنی مہارتیں ہوں۔‘
مریم کائیوان اپنے شعبے میں ماہر ہیں اور اس کا کریڈٹ وہ کچھ حد تک اپنے خاندان والوں خصوصاً سسرال کو بھی دیتی ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’فیملی کے بغیر آپ کچھ نہیں کرسکتے، جب تک ایک لڑکی اپنے والدین کے ساتھ ہوتی ہے اسے کچھ بھی کرنے کی آزادی ہوتی ہے لیکن زندگی کا اصل کیریئر تب شروع ہوتا ہے جب آپ کے سسرال سے آپ کو وہ سپورٹ حاصل ہو اور میں ان میں سے ہوں، جسے اگر سسرال کی سپورٹ حاصل نہ ہوتی تو میرے اپنے اندر بہت سے سوال تھے۔‘
مریم کا کہنا تھا کہ انہوں نے شادی کے بعد تقریباً تین سال کا وقفہ لیا۔ ’پھر جب دوبارہ سے آغاز کرنا ہوتا ہے تو وہ ایسے ہی ہے کہ آپ بالکل ابتدا سے شروع کر رہے ہو اور پھر لوگوں کی توقعات بھی ساتھ آجاتی ہیں تو پھر یہاں کسی غلطی کی گنجائش نہیں بچتی، اس لیے فیملی سپورٹ بہت ضروری ہوتی ہے۔‘
’ہم جو پاکستان میں پوڈکاسٹ کر رہے ہیں وہ اس کا ’دیسی‘ ورژن ہے۔ اصل پوڈکاسٹ تو آڈیو سے جڑا ہے اور یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو کچھ سننا چاہتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے پوڈکاسٹ کو زیادہ تر خواتین دیکھتی ہیں۔ ’اچھی بات یہ ہے کہ ’ناٹ ایوری ویمن‘ کی وجہ سے خواتین اپنے مسائل شیئر کرتی ہیں اور مجھے یہ جان کر خوشی ہوتی ہے کہ میرے کسی مہمان کی باتوں سے ان خواتین کو مدد ملتی ہے اور ان میں حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔‘
نوجوانوں میں پوڈکاسٹنگ کے بڑھتے ہوئے رجحان کے حوالے سے مریم کہتی ہیں کہ ’ہمیں پاکستان میں ایسا لگتا ہے لیکن حقیقت میں ایک گیلپ سروے کے مطابق جو کہ میرے لیے بھی بہت حیران کن تھا کہ صرف سات فیصد لوگ ہی پوڈکاسٹنگ کے بارے میں جانتے ہیں۔
’بڑے شہروں میں لوگوں کی پوڈکاسٹنگ سے واقفیت ہے لیکن پھر ہمارے کچھ ایسے بھی علاقے ہیں جہاں انٹرنیٹ تک کی سہولت نہیں ہے اور ہمارے ہاں بدقسمتی یہ ہے کہ آج کے پوڈکاسٹرز کا ہوم ورک مکمل نہیں ہوتا، جس کے باعث چیزیں بہت زیادہ پیچیدہ ہو جاتی ہیں۔ وہ لوگوں کے مذہب، نجی زندگی سے متعلق سوال کرتے ہیں، جس کا پوڈکاسٹنگ سے کوئی تعلق نہیں۔‘
مریم نے مزید کہا کہ ’ہم جو پاکستان میں پوڈکاسٹ کر رہے ہیں وہ اس کا ’دیسی‘ ورژن ہے۔ اصل پوڈکاسٹ تو آڈیو سے جڑا ہے اور یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو کچھ سننا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے مختلف پلیٹ فارمز بھی موجود ہیں۔
’ہم اپنے پوڈکاسٹ کا مکمل آر ایس ایس بنا کر متعلقہ پلیٹ فارمز پر اپ لوڈ کرتے ہیں لیکن ہم ویڈیوز پوڈکاسٹنگ بھی کرتے ہیں کیونکہ ہمارا ہاں دیکھنے والا جب تک شکل نہیں دیکھے گا تب تک اسے سننے میں دلچسپی نہیں ہوگی تو جب تک لوگ نہیں دیکھیں گے، ویوز نہیں ہوں گے تو اس سب کا کیا فائدہ ہوگا؟‘
اپنے پوڈکاسٹ کے موضوع اور مہمانوں کے انتخاب سے متعلق انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے پوڈکاسٹ سے پہلے اس طرح سے تیاری نہیں کرتیں۔ ’میں حالات کے مطابق موضوع اور موضوع کی مناسبت سے مہمان بلاتی ہوں اور ان سے ان کے مطابق ہی ہر زاویے سے سوال کرتی ہوں۔‘
انہوں نے حال ہی میں سالِ نو پر فلسطین سے اظہار یکجہتی کے لیے اداکارہ مشی خان کے ساتھ کیے گئے پوڈکاسٹ کا حوالہ بھی دیا۔
پوڈکاسٹ کے مواد سے متعلق انہوں نے بتایا کہ وہ اب تک ہر شعبہ زندگی سے لوگ بلا چکی ہیں۔ نوجوانوں کے لیے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ان پروفیسرز کو بلائیں جن کا تعلیم کے شعبے سے گہرا تعلق ہو۔
انہوں نے ایک سکول کی خاتون پرنسپل کے ساتھ نشست پر مبنی ایک ویڈیو کا حوالہ دیا، جسے تقریباً ایک ملین سے زائد ویوز ملے تھے۔
لوگوں کے ردعمل کے حوالے سے مریم نے بتایا: پوڈکاسٹ پر لوگوں کا اچھا ردعمل آتا ہے، لوگ کہتے ہیں کہ آپ اپنے مہمان کو بولنے کا موقع دیتی ہیں۔خواتین میں پزیرائی ملتی ہے، مگر ساتھ ہی منفی ردعمل بھی آتا ہے کہ آپ نے کپڑے کیسے پہنے ہیں، ڈوپٹہ نہیں لیا لیکن مجھے غصہ تب آتا ہے جب کوئی میرے مہمان سے متعلق غلط بات کرے۔‘
آخر میں مریم نے پوڈکاسٹنگ کی دنیا میں آنے والے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ سب سے پہلے اپنا شوق تلاش کریں۔ ’اگر آپ کو کتابوں، سیاست، فیشن، تاریخ یا کسی بھی چیز میں زیادہ دلچسپی ہے تو اس پر ریسرچ کریں، آپ کا کوئی مقصد ہونا چاہیے تاکہ لوگوں کو اس سے کچھ فائدہ ہو لیکن اگر آپ کا مقصد صرف شہرت اور پیسہ کمانا ہے تو آپ کو اس طرف نہیں آنا چاہیے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔