زمین اور ماحول کے تحفظ کے ساتھ ساتھ انسانوں اور دوسرے جانداروں کی بقاء کی کوششیں تو جاری ہیں، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے سے متعلق تقریباً تمام اشاریے غلط سمت کو جا رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق لاکھوں لوگوں کی نقل مکانی، زمین کے گرم ہونے کے باعث اور جنگلات کی آگ موت اور تباہی کا باعث بن رہی ہے اور ایک بڑا خطرہ جانداروں کی معدومیت کا بھی ہے جس سے نوعِ انسانی کے لیے کئی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ دنیا اس خطرے سے آگاہ تو ہوچکی ہے لیکن شاید اس تیزی سے کوششیں نہیں کی جارہیں جو کہ ضروری ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 75 فیصد گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج تا حال کوئلے، تیل اور گیس کے استعمال کے باعث ہو رہا ہے جس سے موسمیاتی بحران بڑھ رہا ہے۔ لیکن تبدیلی اب بھی ممکن ہے۔ ماہرین کے مطابق مختلف جانداروں کی بعض اقسام تیزی سے معدومیت کی طرف بڑھ رہی ہیں جس سے بنی نوع انسان کا مستقبل بھی داؤ پر لگ چکا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے ہمارے پاس کم وقت رہ گیا ہے۔
ایک نئی تحقیق کے مطابق انسان ”شجرِ حیات‘‘ کی تمام شاخوں کے خاتمے کا سبب بن رہا ہے۔ اس تحقیق میں خبردار کیا گیا ہے کہ یہ صورت حال کرہ ارض پر چھٹی مرتبہ بڑے پیمانے پر مختلف جانداروں کے ناپید ہو جانے کا سبب بن سکتی ہے۔ ‘ٹری آف لائف‘ یا ‘شجر حیات‘ ایک ایسا استعارہ، نمونہ اور تحقیقی آلہ ہے، جو حیاتیاتی ارتقا کی تشخیص اور زندہ اور معدوم ہو جانے والے جانداروں کے مابین تعلقات کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز (PNAS) میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے شریک مصنف اور میکسیکو کی خود مختار نیشنل یونیورسٹی کے پروفیسر جیرارڈو سیبالوس کے مطابق، ”معدومیت کا بحران موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرے کی طرح خوف ناک ہے۔ اسے تسلیم نہیں کیا گیا۔‘‘ انھوں نے خبر رساں اے ایف پی سے بات چیت میں کہا کہ اس صورتحال میں بنی نوع انسان کا مستقبل داؤ پر لگا ہے۔‘‘
اس حوالے سے ایک منفرد مطالعاتی جائزہ ہے جس میں پورے کے پورے انواعی گروپوں یا genera کے ناپید ہوتے جانے کی شرح کا اندازہ لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔ برکلے میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پروفیسر انتھونی بارنوسکی اس پہلو سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”اس طرح یہ مطالعہ واقعی شجرِ حیات کی پوری کی پوری شاخوں کو پہنچنے والے نقصان کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘ بارنوسکی کے مطابق اس مطالعے سے پتہ چلتا ہے، ”ہم شجر حیات کی صرف اہم ترین شاخوں کو ہی نہیں کاٹتے جا رہے، بلکہ بڑی شاخوں سے چھٹکارا پانے کے لیے گویا آری استعمال کر رہے ہیں۔‘‘ اس رپورٹ کے لیے محققین نے بڑی حد تک جانداروں کی ان اقسام پر انحصار کیا، جو انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) کی فہرست میں معدومیت کے خطرے سے دوچار ہونے والی اقسام کے طور پر درج ہیں۔ محققین نے اپنی ریسرچ کے دوران ریڑھ کی ہڈی والے یا فقاریہ (مچھلی کو چھوڑ کر) جانوروں کی اقسام پر توجہ مرکوز رکھی۔
ماہرین نے جانداروں کے تقریباً 5,400 انواعی گروپوں (قریب 34,600 انواع) پر مشتمل اس مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان میں سے 73 انواعی گروپ گزشتہ 500 برس میں ناپید ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر پچھلی دو صدیوں میں معدوم ہو گئے۔ اس کے بعد محققین نے اس صورت حال کا موازنہ جانداروں کی انتہائی قدیمی باقیات یا فوسلز کے ساتھ بھی کیا۔
پروفیسر جیرارڈو سیبالوس کے مطابق اس سب کی وجہ انسانی سرگرمیاں، جیسے فصلوں یا بنیادی ڈھانچے کے لیے دوسرے جانداروں کی رہائش گاہوں کی تباہی، نیز ضرورت سے زیادہ ماہی گیری اور شکار وغیرہ ہیں۔
سائنس دان بڑے پیمانے پر انواع کی معدومیت کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں کہ کسی نوع کے 75 فیصد جاندار ایک مختصر وقت میں ہلاک ہو جائیں۔ ماہر حیاتیات رابرٹ کاوی کہتے ہیں کہ اس ‘صوابدیدی‘ تعریف کا استعمال کرتے ہوئے چھٹی مرتبہ بڑے پیمانے پر انواع کی معدومیت ابھی وقوع پذیر نہیں ہوئی۔ لیکن انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا، ”اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ موجودہ شرح یا اس سے بھی تیزی سے حیاتیاتی انواع کے پورے کے پورے گروپ معدوم ہوتے جائیں گے، تو پھر ہم یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ یہ ممکنہ طور پر انواع اور انواعی گروپوں کے خاتمے کے چھٹے بڑے عمل کا آغاز ہے۔‘‘
سیبالوس کے مطابق ترجیح جانداروں کی قدرتی رہائش گاہوں کی تباہی کو روکنا اور جو اپنے رہائشی مقامات کھو چکے ہیں، ان کو بحال کرنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ”جانداروں کی مختلف انواع کے بہت سے گروپوں کو بچانے کے لیے اب بھی وقت ہے۔