ہالی وڈ فلم ’باربی‘ کی نمائش کو صوبہ پنجاب میں روک دیا گیا اور اس حوالے سے کچھ فلم بین ناخوش بھی ہیں تاہم باربی کی نمائش لاہور کے کچھ علاقوں میں اب بھی جاری ہے۔
سوشل میڈیا پر کہا یہ جارہا تھا کہ پنجاب میں باربی کی نمائش کو پنجاب سینسر بورڈ نے روکا ہے جبکہ پنجاب سینسر بورڈ کے ایک رکن نے انڈپینڈنٹ اردو کو نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ سینسر بورڈ نے فلم باربی کو 21 جولائی کو صوبے بھر کے سنیماز میں نمائش کے لیے این او سی جاری کر دیا تھا لیکن ایک دن کے بعد ہی پنجاب حکومت نے فلم کی نمائش روک دی۔
مذکورہ رکن کا کہنا تھا: ’اس فلم میں مکالمے بھی نہیں چند الفاظ تھے جو جسم کے اعضا کے نام تھے انہیں سینسر کرنا تھا، وہ ہم نے کر دیے تھے اور اس کے بعد اسے این او سی دے دیا گیا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ 21 جولائی کو لاہور میں یہ فلم نمائش کے لیے پیش بھی ہو گئی تھی لیکن صرف 45 منٹ کے شو کے بعد لاہور کی انتظامیہ کچھ سینیما گھروں میں پہنچی اور شو بند کروا دیا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پنجاب کے کچھ ایسے علاقے جن پر پنجاب حکومت کی عملداری نہیں ہے وہاں پر اس فلم کی نمائش جاری ہے لیکن شاید اب اسے روک دیا گیا ہو۔
اس بات کی تصدیق ایک سینیما میں جا کر فلم دیکھنے والی خاتون نے بھی کی۔
سینسر بورڈ کے رکن کا کہنا ہے کہ فلم کی نمائش روکنے میں پنجاب سینسر بورڈ کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔
’سوشل میڈیا پر چلنے والی خبریں غلط ہیں کہ ہم نے فلم کو نمائش کے لیے روکا۔ ہمیں فلم میں جو چیزیں قابل اعتراض لگیں ہم نے انہیں سینسر کر کے اسے این او سی جاری کر دیا تھا۔‘
دوسری جانب پنجاب کے نگران وزیر اطلاعات و ثقافت عامر میر نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’فلم باربی پر پنجاب میں کوئی پابندی نہیں ہے بلکہ فلم کو نمائش کے لیے وقتی طور پر مزید جانچ کے لیے روکا گیا ہے کیونکہ اس میں کچھ قابل اعتراض مواد موجود ہے جو ہم جنس پرستی کے حوالے سے ہے اور ہماری ثقافت سے مطابقت نہیں رکھتا اس پر مختلف حلقوں سے اعتراض اٹھایا جارہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ فلم کی جانچ جلد مکمل کر لی جائے گی اور اس کام کے لیے سینسر بورڈ کا فل بورڈ بیٹھے گا اور یہ بات غلط ہے کہ فلم کو مزید ایڈیٹنگ کے لیے دبئی بھیجا گیا ہے۔ فلم کی جانچ لاہور میں ہی ہوگی لیکن ابھی اس میں چند دن اور لگیں گے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پنجاب میں باربی پہلی فلم نہیں ہے جسے نمائش سے روکا گیا ہے بلکہ اس سے پہلے گذشتہ برس ’جوائے لینڈ‘ کی نمائش کو بھی پنجاب میں روکا گیا تھا جو اب تک نمائش کے لیے پیش نہیں ہو سکی۔
دوسری جانب فلم باربی پاکستان کے دیگر صوبوں اور وفاق میں نمائش کے لیے پیش کر دی گئی ہے۔
اس حوالے سے فلمی نقاد اقبال خورشید کا کہنا ہے: ’یہ مسئلہ اس لیے ہے کیونکہ ہمارے ہاں فلم انڈسٹری اپنی حقیقی شکل میں موجود نہیں ہے۔ جب فلم انڈسٹری موجود نہیں ہو گی تو فلم سے جڑی باڈیز میں بھی آپ کو خلا نظر آئے گا اور ان کے فیصلوں سے ابہام جنم لے گا۔‘
اقبال خورشید کے مطابق: ’کچھ تجزیہ کاروں کا یہ کہنا ہے کہ باربی میں ہم جنس پرستی کے حوالے سے کچھ ایسا مواد ہے جو قابل اعتراض ہے لیکن مجھے ایسے لگتا ہے کہ یہ ایک مرحلہ ہے، ایک اعتراض کیا گیا ہے فلم کو جانچنے کے بعد ممکنہ طور پر اس کو نمائش کے لیے پیش کر دیا جائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا: ’میرے خیال میں یہ ایک اتنی بڑی فلم ہے اور اتنی زیادہ موضوع بحث ہے کہ زیادہ سے زیادہ ایک کٹ لگا کر اسے نمائش کے لیے پیش کر دیں گے۔‘
اقبال کہتے ہیں کہ یہ فلم ملک کے کچھ صوبوں میں نمائش کے لیے پیش کر دی گئی اور پنجاب میں نہیں تو یہ ایک منتقی چیز ہے۔
’فلم باربی کا ملک میں اتنا چرچہ ہو رہا ہے کہ جن صوبوں اس فلم کی نمائش جاری ہے وہاں لوگ گلابی کپڑے پہن کر اس فلم کو دیکھنے جا رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر اس کا پرچار بھی کر رہے ہیں۔‘
سویب سائٹ باکس آفس موجو نے رپورٹ کیا کہ اب تک کے اعدادوشمار کے مطابق باربی نے کرسٹوفر نولن کی فلم ’اوپن ہائمر‘ پر سبقت لے جاتے ہوئے 194 ملین ڈالر کا بزنس کیا ہے۔