اسرائیل نے ہفتے کی صبح غزہ کے سرحدی شہر رفح پر تازہ حملے کیے، جسے اقوام متحدہ نے ’مایوسی کا پریشر ککر‘ قرار دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ حملے ایک ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جب بین الاقوامی ثالث غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان فائر بندی کے لیے ایک معاہدے کی تیاری میں مصروف ہیں۔
اے ایف پی کے ایک صحافی نے رفح شہر میں جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب زور دار دھماکوں کی آوازیں سنی۔
بعد میں غزہ کی وزارت صحت نے بتایا کہ وہاں دو حملوں میں 14 افراد جان سے گئے جبکہ رات بھر پورے علاقے میں کل 100 سے زیادہ اموات ہوئیں۔
ادھر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ایک نمائندے نے جمعے کو بتایا کہ سات اکتوبر 2023 کے بعد سے لاکھوں بے گھر فلسطینی جنوب کی طرف رفح میں پناہ لے چکے ہیں۔ دو لاکھ سے زیادہ کی آبادی والے اس شہر میں غزہ کی پٹی کے 20 لاکھ سے زیادہ آبادی کے نصف سے زیادہ شہریوں نے پناہ لے رکھی ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے ادارے او سی ایچ اے نے کہا کہ اسے رفح کے قریبی شہر خان یونس میں بھی اسرائیلی جارحیت میں اضافے پر گہری تشویش ہے جہاں حالیہ دنوں میں فلسطینیوں کی بڑی تعداد کو جنوب کی جانب دھکیل دیا گیا تھا۔
او سی ایچ اے کے ترجمان جینز لائرکے نے جینیوا میں بریفنگ کے دوران کہا کہ ’زیادہ تر بے گھر فلسطینی عارضی ڈھانچوں، خیموں یا باہر کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بقول: ’رفح مایوسی کا ایک پریشر ککر ہے اور ہمیں خوف ہے کہ آگے کیا ہوگا۔‘
رفح میں پناہ لینے عبدالکریم مصباح نے کہا کہ انہوں نے پہلے شمالی شہر جبالیہ کے پناہ گزین کیمپ سے خان یونس میں پناہ لی تھی لیکن انہیں اب دوبارہ یہاں سے بھی نکال پھینکا جائے گا۔
32 سالہ عبدالکریم نے کہا کہ ’ہم گذشتہ ہفتے خان یونس سے موت کے منہ سے نکل کر آئے، ہمارے پاس کچھ نہیں تھا۔ ہمیں رہنے کو بھی کوئی جگہ نہیں ملی۔ ہم پہلی دو راتیں سڑکوں پر سوئے۔ خواتین اور بچے مسجدوں میں سوئے۔‘
ان کے خاندان کو بعد میں عطیے میں ایک خیمہ ملا جو انہوں نے مصری سرحد کے بالکل قریب لگایا۔
انہوں نے کہا: ’میرے چار بچے سردی سے کانپ رہے ہیں۔ وہ ہر وقت بیمار رہتے ہیں۔‘
جمعے کو موسم سرما کی طوفانی بارش نے غزہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، جس کے باعث لاکھوں بے گھر افراد کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا۔
اے ایف پی کے مطابق سات اکتوبر 2023 کو حماس کی اسرائیل میں اچانک کارروائی کے بعد 1160 اموات ہوئی تھیں جبکہ 240 کے قریب افراد کو قیدی بنا لیا گیا تھا۔
اس کے بعد سے اسرائیل نے غزہ پر زمینی و فضائی حملے شروع کیے، جن میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک کم از کم 27,131 افراد جان سے جا چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔
اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف نے جمعے کو کہا کہ غزہ میں ایک اندازے کے مطابق 17 ہزار بچے جنگ کی وجہ سے اپنے والدین سے بچھڑ گئے ہیں۔
یونیسیف ترجمان جوناتھن کرکس نے کہا: ’غزہ کے ہر ایک فرد کا نقصان ہوا ہے اور ہر ایک کے پاس غم کی دل دہلا دینے والی کہانی ہے۔‘
تقریباً چار ماہ سے جاری لڑائی نے ساحلی پٹی کو تباہ کر دیا ہے جہاں اسرائیلی محاصرے کے نتیجے میں خوراک، پانی، ایندھن اور ادویات کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیٹلائٹ سینٹر (یو این آئی ٹی اے آر) کی جانب سے جمعے کو جاری کردہ سیٹلائٹ تصویروں کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ کے ڈھانچے کا تقریباً 30 فیصد اسرائیلی جارحیت سے متاثر ہوا ہے۔
انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اینڈ ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز (آئی ایف آر سی) نے اس دوران تین فلسطینی ہلال احمر کارکنوں کی موت کا اعلان کیا جن میں سے دو بدھ اور ایک جمعے کو خان یونس کے العمل ہسپتال کے ارد گرد ہونے والی بمباری کے دوران مارے گئے۔
آئی ایف آر سی نے ایک بیان میں کہا: ’طبی کارکنوں، ایمبولینسوں اور طبی سہولیات پر کوئی بھی حملہ ناقابل قبول ہے۔‘
ادھر امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن آئندہ چند روز میں ایک بار پھر مشرق وسطیٰ کا دورہ کریں گے تاکہ لڑائی میں وقفے کے بدلے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی پر مشتمل ایک نئی تجویز پر زور دیا جا سکے۔
محکمہ خارجہ نے بیان میں مزید کہا کہ اینٹنی بلنکن قطر اور مصر کے ساتھ ساتھ اسرائیل، مقبوضہ مغربی کنارے اور سعودی عرب کا بھی دورہ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس ہفتے کے شروع میں پیرس میں پیش کی گئی فائز بندی کی تجویز کو اسرائیلی طرف سے منظور کر لیا گیا ہے اور حماس کی طرف سے بھی ابتدا میں اس پر مثبت جواب ملا تھا۔
تاہم حماس کے قریبی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا: ’معاہدے کے فریم ورک پر ابھی تک کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے، گروپ کے دھڑوں کے درمیان اہم مشاورت جاری ہے اور قطری بیان جلد بازی میں جاری کیا گیا اور یہ سچ نہیں ہے۔‘
حماس کے ایک ذرائع نے بتایا کہ اسے ایک منصوبہ پیش کیا گیا ہے جس میں لڑائی میں ابتدائی چھ ہفتے کا وقفہ شامل ہے، جس کے تحت غزہ میں مزید امداد کی فراہمی اور اسرائیل میں قید فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی قیدیوں کا تبادلہ دیکھا جائے گا۔
حماس اور غزہ میں اس کے اتحادی اسلامی جہاد کے رہنماؤں نے قطر میں اس تازہ ترین پیشرفت پر تبادلہ خیال کیا۔ اسماعیل ہانیہ کے ترجمان نے کہا کہ مستقبل میں ہونے والی کسی بھی فائر بندی کے معاہدے میں غزہ سے اسرائیلی فوجیوں کا ’مکمل انخلا‘ شامل ہونا چاہیے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔