عمران خان کے خاندان کے قریبی ذرائع نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا ہے کہ سابق وزیراعظم کے بیٹوں کو جیل میں اپنے والد سے ملاقات کے لیے پاکستان آنے کی صورت میں دھمکیاں دی گئی ہیں۔
گذشتہ ہفتے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو کرپشن کے الزام میں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس سے محض ایک دن بعد ایک اور خصوصی عدالت نے سابق وزیراعظم کو ریاستی راز افشا کرنے کا مجرم ٹھہرایا اور انہیں 10 سال قید کی سزا سنائی۔ یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا اور ہفتے کو ایک عدالت نے ان کے نکاح کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے جوڑے کو مزید سات سال کی سزا سنائی۔
پاکستان میں جمعرات (آٹھ فروری) کو عام انتخابات ہونے والے ہیں اور عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پارٹی کا کہنا ہے کہ عجلت میں دی گئیں یہ سزائیں جھوٹے الزامات کے تحت انہیں بدنام کرنے کی بھونڈی کوشش ہے۔ حالانکہ گذشتہ چھ ماہ سے جیل میں قید ہونے اور کوئی سیاسی عہدہ رکھنے پر پابندی کے باوجود عمران خان کی انتخابات میں مقبولیت بڑھ رہی ہے۔
لیکن عمران خان کو جس کریک ڈاؤن کا سامنا ہے وہ سیاسی دائرے سے بھی آگے بڑھ گیا ہے۔ خاندان کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ برطانیہ میں مقیم سابق وزیر اعظم کے دو بیٹوں 27 سالہ سلیمان خان اور 25 سالہ قاسم خان کو ’تشدد آمیز دھمکیاں‘ موصول ہوئی ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ پاکستان میں عمران خان کے دیگر رشتہ داروں نے بھی جیل کا سامنا کیا ہے یا ان پر فوجداری مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’عمران کے بھتیجے کو چھ ماہ سے فوجی جیل میں رکھا گیا ہے اور کسی کو ان کے بارے میں علم نہیں ہے۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کی بہن پر سائبر کرائم اور ڈرانے دھمکانے کے مقدمات زیر التوا ہیں۔ ان کے خاندان میں سے کچھ افراد ملک چھوڑنے کی پابندی سے پہلے ہی بیرون ملک فرار ہو گئے تھے۔
ذرائع کے مطابق ’یہاں تک کہ عمران خان کے غریب گھریلو عملے کو بھی جیل میں ڈال دیا گیا ہے اور ان کے ڈرائیور اور باورچی دہشت گردی کے الزام میں مئی 2023 سے جیل میں ہیں۔‘
حراست میں لیے جانے سے قبل گذشتہ سال جولائی میں دی انڈپینڈنٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں 71 سالہ عمران خان نے اپنے اور پارٹی کے دیگر ارکان کے گھروں پر چھاپوں کے دوران پولیس کے ’وحشیانہ ہتھکنڈوں‘ کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ’گھر میں توڑ پھوڑ کرتے ہیں اور وہ جو کچھ بھی ڈھونڈ سکتے ہیں لوٹ لیتے ہیں۔‘
ان کے مطابق یہ حربہ لوگوں کو ڈرانے کے لیے تھا۔
عمران خان نے اس وقت اپنے اسی خاندانی باورچی کا بھی ذکر کیا تھا، جو ان کے مطابق ’30 سال سے ہمارے پاس کام کر رہے تھے۔ پولیس نے اسے بھی اٹھا لیا اور ایک چھوٹے سے سیل میں پھینک دیا۔ وہ ابھی تک اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہا ہے۔‘
عمران خان نے ایک اور انٹرویو میں اس واقعے کے بارے میں بتایا تھا کہ ’انہوں نے اسے مارا پیٹا اور ساتھ لے گئے، اسے جیل میں ڈال دیا اور اس سے پوچھا کہ عمران خان کیا کھاتے ہیں؟‘
انہوں نے مزید کہا تھا کہ اب جو کچھ ہو رہا ہے اس کے مقابلے میں پاکستان کے آخری فوجی حکمران پرویز مشرف کی ’آمریت نسبتاً معتدل‘ تھی۔
لاہور پولیس نے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے 18 مارچ 2023 کو عمران خان کے گھر پر چھاپے کے دوران رائفلز، کلاشنکوف اور پیٹرول بم سمیت کئی ہتھیار برآمد کیے تھے۔ پولیس نے چھاپے کے دوران ’ظالمانہ رویے‘ کے الزامات کا براہ راست کوئی جواب نہیں دیا۔
آخری بار عمران خان کے بیٹوں نے نومبر 2022 میں پاکستان کے علاقے وزیر آباد میں ایک ریلی کے دوران پی ٹی آئی کے سربراہ کو گولی لگنے کے بعد ان سے ملاقات کی تھی۔ اس بظاہر قاتلانہ حملے کے بعد انہیں اور ان کے بیٹوں کو خیبر پختونخوا کی صوبائی پولیس نے اضافی سکیورٹی فراہم کی تھی۔
مئی 2023 میں انڈپینڈنٹ اردو کے ایڈیٹر ان چیف بکر عطیانی کو دیا گیا عمران خان کا انٹرویو یہاں دیکھیے:
ذرائع نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ ’غیر جمہوری اور انتہائی ناانصافی‘ پر مبنی ہے۔
عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک زلفی بخاری نے گذشتہ ہفتے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا تھا کہ ’ملک میں عمران خان کے لیے ایک قانون ہے اور باقی سب کے لیے دوسرا قانون ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ (آٹھ فروری کے الیکشن کا) نتیجہ کچھ بھی ہو، یہ منصفانہ انتخابات نہیں ہوں گے۔‘
جمعرات ہو ہونے والے انتخابات میں عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی کا مقابلہ پاکستان کی دو جماعتوں، پاکستان مسلم لیگ (ن) پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔
تجزیہ کاروں کو مسلم لیگ ن کی جیت کی توقع ہے، جس سے پارٹی سربراہ نواز شریف کی ریکارڈ چوتھی بار وزیراعظم بننے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
پی ٹی آئی سے ان کے انتخابی نشان ’بلے‘ کے تحت انتخابی مہم چلانے کا حق چھین لیا گیا ہے اور اس کی بجائے پارٹی رہنماؤں کو آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لینے پر مجبور کیا گیا ہے۔
پیر کو نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے نوجوانوں پر زور دیا تھا کہ وہ باہر نکلیں اور ووٹ ڈالیں حالانکہ رپورٹس کے مطابق نوجوان پاکستانی سیاست سے مایوس نظر آتے ہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔