ہر سال سکواش کے کھلاڑیوں کو ملنے والے سرکاری اعزازات دیکھ کر میں یہی سوچتا رہتا ہوں کہ سکواش کی ورلڈ امیچور چیمپیئن شپ جیتنے والے پہلے پاکستانی کھلاڑی مقصود احمد سے ایسی کون سی غلطی سرزد ہوگئی تھی کہ 1977 سے آج تک پاکستان سپورٹس کے ارباب اختیار میں کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ انہیں ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا جائے جسے عرف عام میں پرائیڈ آف پرفارمنس کہتے ہیں۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
یہ پرائیڈ آف پرفارمنس ہر سال مختلف شعبہ ہائے زندگی میں قابل ذکر کارکردگی پر دیے جاتے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پچھلے چند برسوں کے دوران یہ تاثر پختہ ہوچکا ہے کہ ان ایوارڈز پر پسند ناپسند، سیاسی اور سرکاری وابستگی کے اثرات غالب آتے چلے گئے ہیں۔ ہر حکومت ان ایوارڈز کی فہرست میں چند ایسے نام بھی شامل کرتی رہی ہے جو اس کی مدح سرائی میں پیش پیش رہے ہیں جبکہ دوسری جانب کئی حقدار اس ملک کے لیے گراں قدر خدمات کے باوجود سرکاری پذیرائی سے محروم رہ جاتے ہیں۔
یہاں میں صرف سکواش کا ہی ذکر کروں گا کیونکہ جب میں نے سوشل میڈیا پر سابق عالمی امیچور چیمپئین مقصود احمد کو پرائیڈ آف پرفارمنس کے لیے نظرانداز کیے جانے کا ذکر کیا تو اس میں دو پہلو نمایاں تھے۔ اول یہ کہ میری مقصود احمد سے کوئی رشتہ داری نہیں ہے اور نہ ہی میرا کسی دوسرے کو ذاتی طور پر تنقید کا نشانہ بنانا مقصد تھا۔ اسے محض اتفاق کہیے کہ 14 اگست کو جن افراد کو سرکاری اعزازات سے نوازا گیا، ان میں سکواش کے ایک کھلاڑی دانش اطلس کو بھی تمغہ امتیاز ملا۔
ذاتی طور پر مجھے دانش اطلس کو ایوارڈ دیے جانے پر کوئی پریشانی تھی نہ ہی کوئی منفی سوچ ذہن میں تھی، لیکن ایک سوال ضرور تھا کہ پرائیڈ آف پرفارمنس دینے کا پیمانہ کیا ہے؟ اور اس طرح کے ایوارڈز کے لیے کارکردگی کس طرح پرکھی جاتی ہے؟
مثال کے طور پر کیا یہ پرائیڈ آف پرفارمنس پہلے اس کھلاڑی کو نہیں ملنا چاہیے یا مل جانا چاہیے تھا جس نے پاکستان کو پہلی مرتبہ ورلڈ امیچور سکواش ٹائٹل جتوایا تھا اور جو تین مرتبہ اس پاکستانی ٹیم کا حصہ تھا جس نے سکواش کی ورلڈ ٹیم چیمپیئن شپ جیتی تھی یا یہ ایوارڈ پہلے اس کھلاڑی کو ملنا چاہیے جس نے ایشین جونیئر چیمپیئن شپ جیتی ہو اور زیادہ سے زیادہ وہ ایشین گیمز میں گولڈ میڈل جیتنے والی ٹیم کا حصہ رہا ہو۔
یہ اچھی بات ہے کہ سکواش کے تمام کھلاڑیوں کو سرکاری پذیرائی ملے لیکن حکومت اور کھیلوں کے ارباب اختیار کو ایک واضح پالیسی وضع کرنی چاہیے کہ اگر کسی کھلاڑی کو آپ پرائیڈ آف پرفارمنس یا تمغہ امتیاز سے نواز رہے ہیں تو اس کی کارکردگی کس لیول کی ہے؟ اگر کسی کھلاڑی کو ایوارڈ دیا جارہا ہے تو کیا اس سے اوپر کے لیول کا کوئی کھلاڑی جو اس ایوارڈ کا پہلے حقدار ہے وہ کہیں اس سے محروم تو نہیں ہے؟
میری معلومات کے مطابق کھلاڑیوں کو پرائیڈ آف پرفارمنس دینے کے سلسلے میں پاکستان سپورٹس بورڈ اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن چونکہ پاکستان سپورٹس بورڈ بھی بین الصوبائی رابطے کی وزارت کے ایک سیاسی وزیر کے ماتحت ہوتا ہے، لہذا اس میں بھی کہیں نہ کہیں پسند ناپسند کا عنصر غالب رہتا ہے۔
جہاں تک مقصود احمد کا تعلق ہے تو یہ سرکاری اداروں کی نااہلی ہی ہے جنہوں نے کبھی ان کی خدمات کو تسلیم نہیں کیا۔ مقصود احمد کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ پبلک ریلشننگ کے آدمی نہیں ہیں۔ جب وہ انٹرنیشنل سکواش کھیلا کرتے تھے، اس وقت بھی وہ تشہیر سے دور ہی رہتے تھے حالانکہ ان کے نام کے آگے ورلڈ امیچور سکواش چیمپیئن درج ہے اور وہ ورلڈ اور ایشیائی سطح پر فتوحات حاصل کرنے والی ان ٹیموں میں شامل رہے ہیں جن میں جہانگیر خان اور قمر زمان ہوا کرتے تھے۔ وہ ان چند کھلاڑیوں میں شامل ہیں جنہوں نے سابق عالمی چیمپیئن آسٹریلیا کے جیف ہنٹ کو ان کے عروج کے دنوں میں ہرایا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ سکواش کے عظیم کھلاڑی جہانگیر خان نے بھی ایک سے زائد مرتبہ مقصود احمد کو پرائیڈ آف پرفارمنس دینے کے لیے آواز اٹھائی لیکن ان کی بھی نہیں سنی گئی۔
مقصود احمد کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب 1977 میں انہوں نے ورلڈ امیچور ٹائٹل جیتا تھا تو اس وقت صدر ضیاالحق نے انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ کے ساتھ ساتھ پلاٹ دینے کا بھی کہا تھا لیکن وہ بھی انہیں نہیں ملا بلکہ اس کے بعد بھی سندھ کے سابق گورنر محمود اے ہارون، سابق وزیراعلیٰ جام صادق علی اور خیبر پختونخوا کے سابق وزیراعلیٰ ارباب جہانگیر کے اعلانات کے باوجود انہیں پلاٹ نہ مل سکا۔
مقصود احمد سے جب میں نے پوچھا کہ آپ کو اب تک یہ ایوارڈ کیوں نہیں مل سکا ہے تو انہوں نے صرف ایک جملے میں بات ختم کردی کہ ’میرے پاس سفارش نہیں ہے۔‘
یہاں بدقسمتی صرف مقصود احمد کے ساتھ ہی نہیں رہی ہے بلکہ چراغ تلے اندھیرا کی اس کہانی میں ہمیں آفتاب جاوید اور گوگی علاؤ الدین کے نام بھی نہیں بھولنے چاہییں، جن کی سکواش میں خدمات ایشین جونیئر اور ایشین گیمز کے گولڈ میڈلز سے بھی کہیں زیادہ رہی ہیں لیکن ان دونوں کو بھی وہ مقام نہیں مل سکا، جن کے وہ مستحق تھے۔
آفتاب جاوید کو محض اس تعارف کے ساتھ یاد نہیں رکھا جاسکتا کہ وہ سابق برٹش اوپن چیمپیئن قمر زمان کے چچا ہیں بلکہ آفتاب جاوید کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے لگاتار تین سال برٹش امیچور سکواش چیمپیئن شپ جیتی تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے برٹش اوپن کے چار فائنل بھی کھیلے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب ہاشم خان، روشن خان، اعظم خان اور محب اللہ سینیئر کا دور ختم ہوچکا تھا۔
گوگی علاؤالدین 70 کے عشرے میں قمرزمان، محب اللہ خان جونیئر اور ہدیٰ جہاں کے ساتھ پاکستانی سکواش کی ایک بڑی قوت تھے۔ انہوں نے لگاتار دو سال برٹش امیچور ٹائٹل جیتا تھا جبکہ دو مرتبہ وہ برٹش اوپن کا فائنل بھی کھیلے تھے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ وہ دو نام ہیں جن کی سکواش میں خدمات سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا لیکن جب بات سرکاری پذیرائی کی آتی ہے تو ہر دور میں خاموشی ہی نظر آئی ہے۔
گوگی علاؤالدین کے ساتھ انٹرنیشنل سکواش کھیلنے والے سجاد منیر کہتے ہیں کہ یہ انتہائی شرم کی بات ہے کہ آفتاب جاوید اور گوگی علاؤالدین کو اب تک سرکاری پذیرائی نہیں ملی۔ یہ دونوں کھلاڑی ایوارڈ وصول کرنے والے کئی دوسروں سے بہت بلند دکھائی دیتے ہیں۔
سابق انٹرنیشنل کھلاڑی رحمت خان کا بھی یہی کہنا ہے کہ ان ہیروز کی خدمات کا اعتراف کیا جانا چاہیے نہ کہ سیاست کھیلی جائے۔
پاکستان کی سکواش یہ بھی دیکھ چکی ہے کہ پاکستان سکواش فیڈریشن نے جن چار کھلاڑیوں پر ورلڈ سکواش چیمپیئن شپ میں جان بوجھ کر میچ ہارنے پر ہونے والی تحقیقات کے بعد پابندیاں عائد کی تھیں، ان میں سے ایک کھلاڑی کو بعد میں تمغہ امتیاز سے نواز دیا گیا۔ ایک اور کھلاڑی جنہیں لندن کی عدالت سے سزا ہوئی تھی وہ بھی بعد میں پاکستان کی حکومت کی جانب سے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نواز دیے گئے تھے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔