fbpx
خبریں

سپریم کورٹ کے ججز پر ’تنقید‘: صحافیوں، یوٹیوبرز سمیت 65 افراد کو نوٹس

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ریاستی اداروں کے خلاف ’توہین آمیز اور غلط معلومات  کی تشہیر‘ کرنے پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے 65 افراد کو نوٹسز بھیجے تھے جن میں سے 47 صحافیوں اور یوٹیوبرز کو اگلے ہفتے طلب کیا گیا ہے۔

ایف آئی اے نے سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ریاست کے اداروں کے خلاف ’توہین آمیز اور غلط معلومات کی تشہیر‘ سے متعلق مواد ڈالنے پر مختلف صحافتی اداروں سے منسلک صحافیوں، یوٹیوب کے پلیٹ فارم پر ویڈیوز پوسٹ کرنے والوں اور دیگر افراد کو طلب 30 اور 31 جنوری کو کیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود 16 نوٹسز کے مطابق ان افراد میں صحافی مطیع اللہ جان، سرل المیڈا، اقرار الحسن، شاہین صہبائی، ثمر عباس، عدیل راجہ، صابر شاکر، ثاقب بشیر اور فہیم ملک شامل ہیں۔

دوسری جانب ایف آئی اے نے یوٹیوبرز میں اسد طور، صدیق جان، ملیحہ ہاشمی کو طلب کیا ہے جبکہ وکیل جبران ناصر کو بھی ایف آئی اے کی جانب سے طلب کیا گیا ہے۔

ایف آئی اے کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق ادارے نے 115 انکوائریاں باضابطہ طور پر رجسٹر کی ہیں۔

ایف آئی اے نے ’غلط معلومات‘ پھیلانے والے 65 افراد کو نوٹسز بھیجے ہیں، اعلامیے کے مطابق یہ ’تحقیقات اور مذکورہ کارروائی معاملے کی سنجیدگی کو ظاہر کر رہی ہے۔

’جن افراد کو نوٹس بھیجے گئے ان میں میڈیا اور سوشل میڈیا کی 47 مشہور شخصیات بھی شامل ہیں۔ چیف جسٹس اور ریاستی اداروں کے خلاف غلط معلومات پھیلانے کی پاداش میں ان 47 اہم افراد پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔ ایف آئی اے کے اقدامات ادارے کی ملکی قوانین کی پاسداری کے عزم کا مظہر ہیں۔‘

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ایف آئی اے کو صحافیوں کے کردار کشی کی پرواہ کیوں نہیں؟‘

صحافی حامد میر نے اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ’گالی اور تنقید میں فرق ہے۔ اگر کوئی عدالتی فیصلے پر تنقید کرے تو یہ آئینی حق ہے لیکن اگر ایف آئی اے صرف تنقید پر نوٹس دے تو یہ غیر آئینی ہے۔

’ایف آئی اے کو سوشل میڈیا پر صحافیوں کی کردار کشی کی پرواہ کیوں نہیں؟‘

حامد میر نے کہا: ’جب پی ٹی آئی کی حکومت تھی تو میں نے سائبر کرائمز ونگ کو فیاض الحسن چوہان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کے خلاف درجن سے زائد درخواستیں دائر کیں لیکن ایف آئی اے نے کچھ نہیں کیا۔

’وہ صرف موجودہ حکومت پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں۔‘

نگران حکومت کے تحت جے آئی ٹی کی تشکیل

نگران حکومت نے 16 جنوری کو سپریم کورٹ کے ججز کے خلاف ’بد نیتی پر مبنی سوشل میڈیا مہم کے حقائق کا پتہ لگانے‘ کے لیے چھ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔

یہ کمیٹی پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ایکٹ 2016 کے سیکشن 30 (تفتیش کے اختیار سے متعلق) کے تحت تشکیل دی گئی۔

ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کی سربراہی میں قائم کی گئی چھ رکنی کمیٹی میں انٹر سروسز انٹیلی جنس، انٹیلی جنس بیورو، اسلام آباد پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے نمائندے اور کوئی ایک شریک رکن شامل ہیں۔

وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفیکیشن کے مطابق جے آئی ٹی 15 روز میں وزارت داخلہ کو ابتدائی رپورٹ پیش کرے گی اور اس سلسلے میں ایف آئی اے تحقیقات کے دوران مدد فراہم کرے گا۔

13 جنوری کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان ’بلے‘ کو منسوخ کرنے اور انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے انتخابات کو ’غیر آئینی‘ قرار دیا تھا۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو قانونی و سیاسی ماہرین نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ 




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے