fbpx
خبریں

سندھ کی قوم پرست جماعتیں انتخابات میں کامیاب کیوں نہیں ہوتیں؟

پاکستان کے صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والی قوم پرست جماعتوں کے انتخابات میں کامیاب نہ ہوپانے کی وجہ تجزیہ کار ان کے امیدواروں کے مستقل حلقے نہ ہونا، عوام میں عدم مقبولیت اور عوامی رابطے کی کمی قرار دیتے ہیں۔

پاکستان میں عام انتخابات 2024 آٹھ فروری کو ہونے جارہے ہیں۔ سندھ میں پاکستان کی مرکزی سیاسی جماعتوں کے ساتھ سندھی قوم پرست جماعتیں بھی عام انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔

سندھ میں گذشتہ 16 سالوں سے مسلسل حکمرانی کرنے والے جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت پر صوبے میں تنقید کے باجود قوم پرست جماعتیں انتخابات میں کیوں کامیاب نہیں ہو رہی ہیں؟

انڈپینڈنٹ اردو سے یہ جاننے کے لیے مختلف مبصرین سے بات کی ہے۔

سندھی قوم پرست جماعتیں انتخابات میں کیوں کامیاب نہیں ہوتیں؟

سینیئر سیاسی تجزیہ نگار اور سندھی زبان کے ٹی وی ’آواز ٹی وی‘ کے میزبان فیاض نائچ سندھ میں کئی سالوں سے حکمرانی کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی پر لوگوں کی ناراضگی کے باجود سندھی قوم پرستوں کے الیکشن میں کامیاب نہ ہونے کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے فیاض نائچ نے کہا: ’الیکشن میں کامیابی کے لیے کسی بھی امیدوار کے پاس ایک مستقل حلقہ ہونا ضروری ہے، جہاں وہ اس حلقے کی عوام کے ساتھ جڑا ہوا ہو۔ حلقے کی عوام سے رابطے میں ہو۔ شادی، غمی اور دیگر تقریبات میں شرکت کے عوام سے رابطے میں ہو۔

’پی پی پی کی نسبت سندھ کے قوم پرست رہنماؤں کے پاس کوئی مستقل حلقہ نہیں ہے۔ سوائے سندھ یونائیٹڈ پارٹی (ایس یو پی) کے رہنماؤں جلال محمود شاہ اور زین شاہ کے کسی بھی سندھ قوم پرست رہنما کے پاس کوئی مستقل حلقہ نہیں۔ مثال کے طور سندھ ترقی پسند پارٹی (آیس ٹی پی) کے سربراہ اور قوم پرست رہنما ڈاکٹر قادر مگسی کبھی حیدرآباد، کبھی ٹھٹہ اور کبھی نواب شاہ سے الیکشن لڑے۔

’پی پی پی کے امیدواروں کی نسبت قوم پرست رہنما اسی حلقے میں عوام کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں رکھتے اور انتخابات میں فارم جمع کرانے کے بعد اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں حلقے کی عوام سے رجوع کرتے ہیں۔ ایسے میں عوام ان کو کیوں ووٹ دیں؟ یہ ایک اور بڑی وجہ ہے مقبولیت کے باجود سندھی قوم پرست الیکشن میں کامیاب نہیں ہوتے۔‘

فیاض نائچ کے مطابق سندھی قوم پرست جماعتوں کے سربراہ کے علاوہ پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے امیدوار غیر مقبول ہوتے ہیں۔ جنہیں عوام نہیں جانتے۔ اس علاوہ قوم پرست جماعتیں چند نشستوں پر اپنے امیدوار نامزد کرتی ہیں۔

’سندھ ترقی پسند پارٹی (ایس ٹی پی) نے حالیہ الیکشن میں پورے صوبے میں صرف 11 امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ عوامی تحریک نے 10 حلقوں پر امیدوار کھڑے کیے ہیں۔‘

سینٹر فار پیس اینڈ سوسائٹی کے ڈائریکٹر اور ادیب جامی چانڈیو نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں دیگر صوبوں کی نسبت سیاسی شعور ہونے کے باجود ووٹ نظریاتی بنیاد پر دینے کے بجائے پاور کو دیا جاتا ہے۔

’پیپلز پارٹی گذشتہ کئی سالوں سے پاور میں ہے تو لوگوں کو لگتا ہے کل حکمرانی ان کو کرنی ہے تو یہ لوگ کچھ نہ کچھ حلقے کے لیے کریں گے۔

’جب کہ پی پی پی کی نسبت عوام کو لگتا ہے کہ قوم پرست حکمرانی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، اس لیے نطریاتی طور پر قوم پرستوں کے ساتھ ہونے کے باجود ووٹ پی پی پی کو دیتے ہیں۔‘

جامی چانڈیو کے مطابق ماضی میں قوم پرست الیکشن میں حصہ ہی نہیں لیتے تھے، اب کچھ قوم پرست انتخابات لڑ رہے ہیں، مگر انہیں اپنی جگہ بنانے میں وقت لگے گا۔

’اس کے علاوہ تاحال ووٹ ذات، برادری یا قبیلے کی بنیاد پر بھی دیا جاتا ہے تو لوگ کسی قوم پرست کو ووٹ دینے کے بجائے اپنے برادری یا قبیلے کے امیدوار کو دیتے ہیں۔‘

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جامی چانڈیو کے مطابق کسی بھی حلقے میں امیدوار کی کامیابی کے لیے امیدوار مستقل بنیادوں پر اوطاق (مہمان خانہ) چلاتے ہیں، جہاں آنے والے حلقے کے لوگوں کی خاطر توازہ کے ساتھ ان کے مسائل سنے اور کچھ قدر حل بھی کیے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ انتخابات کے دوران انتخابی مہم کے لیے خطیر رقم درکار ہوتی ہے، جب کہ قوم پرستوں کی اکثریت کا تعلق متوسط طبقے سے ہے۔ یہ ایک اور بڑی وجہ ہے کہ لوگ نظریاتی طور پر قوم پرستوں کے ساتھ ہونے کے باجود انہیں ووٹ نہیں دیتے۔

سندھی قوم پرست جماعت سندھ ترقی پسند پارٹی (ایس ٹی پی) کے سربراہ اور قوم پرست رہنما ڈاکٹر قادر مگسی نے تسلیم کیا کہ سندھ میں انتہائی مقبولیت کے باجود قوم پرست الیکشن میں کامیاب نہیں ہوتے۔

’سندھ کے لوگ قوم پرستوں کو ووٹ دینا چاہتے ہیں، مگر روایتی سیاست دان لوگوں کو قوم پرستوں کے بجائے زبردستی خود ووٹ لیتے ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر قادر مگسی نے کہا کہ ’آپ جب دیہات سطح پر جاکر صورت حال دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ سندھ کے ہر حلقے میں کئی سالوں سے کامیاب ہونے والے سیاست دان کتنے بااثر اور طاقت ور ہیں۔

ڈاکٹر قادر مگسی کی جماعت سندھ ترقی پسند پارٹی (آیس ٹی پی) کے ٹکٹ پر سندھ اسمبلی کی 130 جنرل نشستوں پر صرف 11 امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔

ڈاکٹر قاسر مگسی گذشتہ سالوں کے دوران تین بار الیکشن لڑے۔ جس میں پہلی مرتبہ حیدرآباد شہر کے قاسم آباد، دوسری بار ٹھٹہ، تیسری بار نواب شاہ اور  2024 کے عام انتخابات کے دوران وہ ٹنڈو محمد خان کے شاہ کریم سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔

مسلسل حلقے تبدیل کرنے سے الیکشن میں کامیابی ممکن ہے؟ کے جواب میں ڈاکٹر قادر مسگی نے کہا کہ ’میں نے نواب شاہ سے اس لیے الیکشن لڑا کہ وہاں سے ہمیشہ آصف زرداری بغیر مقابلے جیت جاتے تھے۔ تو میں نے سوچا کہ کم از کم ان کا کسی کے ساتھ مقابلہ تو ہو۔ اس لیے وہاں سے الیکشن لڑا۔

’اس بار جہاں سے الیکشن لڑ رہا ہوں وہاں مجھے مثبت ردعمل مل رہا ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس بار میں الیکش ضرور جیتوں گا۔‘

 سندھ میں قوم پرستی اور انتخابات

سندھ میں قوم پرست جماعتیں وہ ہیں جو سندھ کی خوشحالی چاہتی ہیں اور سندھ کے وسائل، پانی اور دیگر اشیا کو وفاق یا کسی صووبے کی جانب سے استعمال کرنے کی مخالف ہیں۔

یہ جماعتیں صوبے کی زمین کو وفاق کی جانب سے کسی مقصد کے لیے استعمال کرنے اور صوبے میں دیگر صوبوں یا غیر ملکی تاکین وطن کی آمد کے بھی شدید مخالف ہیں۔ یہ قوم پرست جماعتیں اپنی سیاست کا دائرہ سندھ تک رکھتی ہیں۔

سندھ میں قوم پرست سیاسی جماعتیں دو اقسام کی ہیں۔ ایک جو علحیدگی پسند ہیں اور وہ انتخابات میں حصہ نہیں لیتیں دوسری وہ قوم پرست جماعتیں جو علیحدگی میں یقین نہیں رکھتیں اور وہ پاکستان میں  رہتے ہوئے خوشحال سندھ کی بات کرتی ہیں۔ یہ جماعتیں پارلیمانی سیاست میں یقین بھی رکھتی ہیں اور الیکشن میں بھی حصہ لیتی ہیں۔

ان میں معروف سندھی سیاستدان مرحوم رسول بخش پلیجو کی عوامی تحریک، ان کے بیٹے ایاز لطیف پلیجو کی قومی عوامی تحریک، ڈاکٹر قادر مگسی کی سندھ ترقی پسند پارٹی اور جی ایم سید کے پوتے جلال محمود شاہ کی سندھ یونائیٹڈ پارٹی شامل ہیں۔

علیحدگی پسند جماعتیں جو انتخابات میں حصہ نہیں لیتیں وہ تمام جماعتیں مقبول سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید کے نظریے کے تحت بنی ہیں۔

ان میں سندھ کی مقبول قوم پرست جماعت جیے سندھ قومی محاذ (جسقم بشیر خان گروپ)، جیے سندھ قومی محاذ (جسقم آریسر گروپ)، جیے سندھ قوم پرست پارٹی (قمر بھٹی گروپ)، جیے سندھ محاذ (رسول بخش تھیبو گروپ)، جیے سندھ محاذ (صوفی حضور بخش گروپ)، جیے سندھ محاذ (عبدالخالق جونیجو گروپ)، جیے سندھ محاذ (ریاض چانڈیو گروپ)، جیے سندھ تحریک (ڈاکٹر صفدر سرکی گروپ)، جیے سندھ تحریک (شفیع کرنانی گروپ) اور جیے سندھ متحدہ محاذ (شفیع بُرفت گروپ) شامل تھیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے