ماہرین فلکیات نے 85 ممکنہ سیارے ڈھونڈ لیے ہیں جہاں خلائی مخلوق کی موجودگی ہو سکتی ہیں۔
ان سیاروں – جن کی ابھی تصدیق نہیں ہوئی – کو دریافت کرنے والے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ان میں درجہ حرارت اتنا ٹھنڈا ہوسکتا ہے وہاں زندگی پنپ سکے۔
یہ سیارے سائز میں مشتری، زحل اور نیپچون سے ملتے جلتے ہیں۔ انہیں ناسا کے ٹرانزیشننگ ایکسوپلینٹ سروے سیٹلائٹ یا ٹی ای ایس ایس نے دیکھا۔
ٹی ای ایس ایس سے سائنس دان ستاروں کی چمک میں کمی کا مشاہدہ کر سکتے ہیں، جسے ٹرانزٹ کہا جاتا ہے، جو ان کے سامنے سے گزرنے والی اشیا کی وجہ سے ہوتا ہے۔
عام طور پر، اس طرح ایک بیرونی سیارے کو دریافت کرنے کے لیے کم از کم تین ٹرانزٹ دیکھنا ضروری ہوتا ہے، تاکہ یہ تعین کیا جاسکے کہ وہ اپنے ستارے کے گرد چکر لگانے میں کتنا وقت لیتے ہیں۔
تاہم، نئی تحقیق میں، محققین نے ایسے نظاموں کا جائزہ لیا جو صرف دو بار گزرے ہیں، جس کے نتیجے میں ایسے سیارے پیدا ہوتے ہیں جن کا مدار لمبا ہوتا ہے، جس سے ٹھنڈے درجہ حرارت پر بیرونی سیاروں کی دریافت ممکن ہوتی ہے۔
85 سیاروں کو اپنے میزبان ستاروں کے گرد چکر لگانے میں 20 سے 700 دن لگتے ہیں، جبکہ ٹی ای ایس ایس کی طرف سے مشاہدہ کیے جانے والے زیادہ تر بیرونی سیاروں کے مدار کی مدت 3-10 دن ہوتی ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ کچھ سیارے اپنے میزبان ستاروں سے اتنے دور ہیں کہ وہاں زندگی پنپنے کے لیے صحیح درجہ حرارت ہوسکتا ہے۔ یہ ’قابل رہائش زون‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔
اس مرحلے پر ابھی بھی ان اجسام کی بیرونی سیاروں کے طور پر تصدیق کرنے کی ضرورت ہے لیکن محققین کو امید ہے کہ مستقبل کے مشاہدات سے یہ ہوجائے گی۔
85 ممکنہ سیاروں میں سے 60 نئی دریافتیں ہیں جبکہ 25 کا پتہ آزاد تحقیقی ٹیموں نے ٹی ای ایس ایس کے اعداد و شمار میں مختلف تکنیکوں کا استعمال کرتے ہوئے لگایا ہے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یونیورسٹی آف واروک کی پی ایچ ڈی محقق فیتھ ہاؤتھرن کے بقول: ’ہم نے 14 لاکھ ستاروں کے نمونے پر ٹرانزٹ کی تلاش کے لیے ابتدائی الگورتھم استعمال کیا۔
’سخت جانچ پڑتال کے عمل کے بعد ہم نے اسے صرف 85 ایسے نظاموں تک محدود کر دیا ہے جن میں ڈیٹا سیٹ میں صرف دو بار ٹرانزٹ کرنے والے بیرونی سیارے ہیں۔‘
تحقیق میں شامل پروفیسر ڈینیئل بیلس نے کہا: ’ان سیاروں کو تلاش کرنا اور یہ جاننا بہت دلچسپ ہے کہ ان میں سے بہت سے ایسے صحیح درجہ حرارت والے زون میں ہو سکتے ہیں جس میں زندگی پنپ سکتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ٹی ای ایس ایس مشن کے مشترکہ جذبے کو شامل کرتے ہوئے، ہم نے اپنی دریافتوں کو عام بھی کیا ہے تاکہ دنیا بھر کے ماہرین فلکیات ان انوکھے سیاروں کا مزید تفصیل سے مطالعہ کرسکیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اس سے ان دلچسپ سیاروں پر مزید تحقیق ہوگی۔‘
تحقیق کے دوسرے مصنف ڈاکٹر سیم گل کا کہنا ہے: ’صرف دو ٹرانزٹ سے exoplanets کا پتہ لگانا، ٹرانزٹ سروے میں طویل مدتی بیرونی سیاروں کا پتہ لگانے کا ایک ہوشیار طریقہ ہے۔
’اس سے ہم وہ سیارے تلاش کر سکتے ہیں جو روایتی ٹرانزٹ سرچ کے مقابلے میں کہیں زیادہ ٹھنڈے ہیں۔‘
یونیورسٹی آف واروک میں ہاؤتھرن کی سربراہی میں مختلف ممالک کے افراد پر مشتمل مشترکہ ریسرچ پیپر بدھ کو رائل ایسٹرونومیکل سوسائٹی (ایم این آر اے ایس) کے ماہانہ نوٹسز میں شائع ہوا تھا۔
اضافی رپورٹنگ: ایجنسیاں