انڈیا کے شہر حیدرآباد میں کھیلے گئے حالیہ ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ کی میزبان ملک کے خلاف ڈرامائی جیت کرکٹ کے مداحوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔
25 سے 29 جنوری کو کھیلے گئے اس ٹیسٹ میں جہاں فاتح ٹیم اس کی لذت کو محسوس کر رہی ہے، وہیں انڈین ٹیم کو شکست کی کسک تڑپا رہی ہے۔
انڈین ٹیم کے کپتان روہت شرما سے لے کر ملک کے کسی دور دراز علاقے میں بیٹھا ہوا ایک مداح بھی خود سے بار بار یہی پوچھ رہا ہے کہ اپنی زمین، اپنا گراؤنڈ اور اس پر سپن بولنگ کا بچھایا ہوا جال آخر کس طرح خود کو ہی نگل گیا۔
اگر اس ٹیسٹ کے ہیرو اور ناقابل یقین اننگز کھیلنے والے اولی پوپ سے پوچھا جائے تو ان کا ایک ہی جواب ہے کہ ریورس سوئپ نے ٹیسٹ میچ کو ریورس کر دیا۔
یہ انڈیا کی 76 سالہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا کہ اپنی ہی سرزمین پر پہلی اننگز میں 190 رنز کی برتری لے کر دوسری اننگز میں میچ ہار گیا۔
انڈیا نے جب پہلی اننگز میں ایک زبردست سبقت لی تھی تو سنیل گواسکر سے سوراو گنگولی تک سب کا اتفاق تھا کہ ٹیسٹ تین دن میں ہی ختم ہو جائے گا اور انگلینڈ اس سبقت کو بھی پورا نہیں کر پائے گا، شاید وہ غلط نہ تھے کیونکہ انڈیا کی پچیں تیسرے دن سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں اور اس پر انڈین سپنرز دو دھاری تلوار بن جاتے ہیں۔
لیکن اس سارے منظر نامے میں فقط ایک کیون پیٹرسن ہی تھے جو کہہ رہے تھے کہ انگلینڈ میچ جیتے گا۔ حالانکہ پہلی اننگز کی ناکامی اور سب سے ماہر بلے باز جو روٹ کی خراب فارم سامنے تھی لیکن وہ پھر بھی مصر تھے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شاید وہ اپنا ایک مخصوص شاٹ اولی پوپ کو سکھا چکے تھے کہ انڈیا کی پچوں پر کس طرح کھیلنا ہے۔ اولی پوپ جو کوتاہ قد ہونے کے باعث گیند کو بہت قریب سے دیکھ سکتے ہیں، سمجھ گئے کہ جب انڈین سپنرز پچ پر پڑنے والے گڑھے استعمال کریں تو ریورس سوئپ سب سے بہترین ہتھیار ہے اور پھر انہوں نے وہ کمال کر دکھایا۔ انہوں نے اپنی 196 رنز کی اننگز میں 70 سے زائد رنز ریورس سوئپ کے ذریعے لیے۔
اولی پوپ نے میچ کے بعد انکشاف کیا کہ وہ ریورس سوئپ کو دفاع سے بہتر ہتھیار سمجھتے ہیں کیونکہ ریورس سوئپ میں شاٹ کے لیے جگہ مل جاتی ہے اور بولر کا لینتھ بھی خراب ہوجاتا ہے۔
ان کی اس اننگز اور ریورس سوئپ کی صلاحیت پر انڈین کوچ اور ماضی کے عظیم بلے باز راہول ڈریوڈ نے کہا کہ انہوں نے دوسری اننگز میں اس سے بہتر اننگز نہیں دیکھی۔ ’وہ جس کمال سے ریورس سوئپ کر رہے تھے، میں حیران ہوگیا ہوں۔‘
اولی پوپ بھی اپنی اننگز کو ریورس سوئپ کی مرہون منت قرار دیتے ہیں۔
ریورس سوئپ تکنیک کب شروع ہوئی؟
کرکٹ میں زیادہ تر شاٹ تکنیک 100 سال سے زائد پرانی ہیں لیکن ریورس سوئپ ابھی اتنی قدیم نہیں ہے۔
کرکٹ کی تاریخ پر نظر رکھنے والے اکثر مبصرین کا اتفاق ہے کہ یہ تکنیک اتفاقیہ طور پر پاکستان کے سابق کپتان مشتاق محمد نے 1964 میں انگلینڈ کے ایک کلب کی طرف سے کھیلتے ہوئے ایجاد کی تھی۔
اس میچ میں انگلینڈ کے آف سپنر فریڈ ٹٹمس بولنگ کر رہے تھے اور مشتاق روایتی شاٹ کے ذریعے رنز نہیں لے پا رہے تھے۔ انہیں پوائنٹ اور تھرڈ کے درمیان کچھ جگہ نظر آئی تو انہوں نے کلائیوں کو موڑا اور بلے کو دوسری طرف گھما کر ریورس سوئپ کر دیا جو چوکا ہوگیا۔
اگرچہ فریڈ اس شاٹ پر بہت چیخے کہ یہ غلط ہے لیکن قانونی طور پر درست مانا گیا اور اس دن سے کرکٹ کی لغت میں ریورس سوئپ کا اضافہ ہوگیا اور گذشتہ 60 برس سے تواتر سے کھیلا جا رہا ہے۔
ریورس سوئپ کے لیے کیا ضروری ہے؟
ریورس سوئپ کھیلنے کے لیے سب سے اہم بلے باز کا خود پر اعتماد اور درست وقت پر فیصلہ ہے۔ جب ایک بلے باز دیکھتا ہے کہ بولر گیند گڈ لینتھ (بلے کے نزدیک) زیادہ پھینک رہا ہے، جس پر کور ڈرائیو کرنا مشکل ہے تو وہ اپنی کلائیوں کو آخری وقت میں گھماتا ہے، کلائیوں کے ساتھ بلا بھی گھومتا ہے اور ایک زوردار شاٹ لگتا ہے جو زیادہ تر آف سائیڈ فیلڈرز کے سروں پر سے گزر جاتا ہے۔
اس شاٹ میں توازن اور ہاتھوں کی بلے پر گرفت بہت اہم ہوتی ہے، اسی لیے زیادہ تر بلے باز اس شاٹ کو کھیلنے سے گریز کرتے ہیں۔
ریورس سوئپ کے ماہر
اگر ریورس سوئپ کے ماہر بلے بازوں کے نام لیے جائیں تو بہت سے بلے باز سامنے آجائیں گے لیکن اس شاٹ کو جو شہرت اور دوام جن دو بلے بازوں نے بخشی وہ جاوید میاں داد اور زمبابوے کے اینڈی فلاور ہیں۔
ان دونوں کو اس شاٹ میں اتنی مہارت تھی کہ اکثر اننگز کی پہلی گیند پر کھیل جاتے تھے۔ جاوید میاں داد تو اسے اپنا بہترین شاٹ سمجھتے تھے۔ انہوں نے اس شاٹ سے بہت سے سپنرز کا کیریئر ختم کر دیا۔
پاکستان کے حنیف محمد نے بھی یہ شاٹ بہت زیادہ کھیلا۔ 1967 میں لارڈز میں ان کی شہرہ آفاق 187 رنز کی اننگز میں یہ شاٹ تواتر سے کھیلا گیا۔
سری لنکا کے جے وردھنے بھی اس شاٹ کے ماسٹر تھے۔ وہ تو ریورس سوئپ پر چھکے لگا دیے کرتے تھے۔
جب 2003 میں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا آغاز ہوا تو یہ شاٹ ایک موثر ہتھیار بن گیا۔ زیادہ تر بلے باز سپنرز کے خلاف یہ شاٹ کھیل کر باؤنڈری لے لیتے تھے۔
جنوبی افریقہ کے اے بی ڈی ویلیئر نے انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) میں اس شاٹ سے بہت شہرت حاصل کی۔ وہ پلک جھپکنے میں ریورس سوئپ پر گیند باؤنڈری سے باہر پہنچا دیتے تھے۔
پاکستان کے یونس خان نے اپنی ٹرپل سینچری اسی شاٹ پر مکمل کی تھی۔ وہ اور مصباح الحق بھی ریورس سوئپ کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔
انگلینڈ کے کیون پیٹرس بھی ریورس سوئپ پر بہت طاقتور شاٹ لگاتے تھے۔
اگر موجودہ دور کی کرکٹ کو دیکھیں تو جو روٹ، عثمان خواجہ، ڈیوڈ وارنر، ٹریوس ہیڈ، بین سٹوکس اور پھر سب سے بہتر اولی پوپ ہیں، جنہوں نے ریورس سوئپ شاٹ کو کرکٹ کا ایک مستند اور کوالٹی شاٹ بنا دیا ہے۔
ماڈرن کرکٹ میں بولرز اپنی فیلڈ کے حساب سے بہت نپی تلی بولنگ کرتے ہیں اور بلے بازوں کو موقع نہیں دیتے کہ وہ آف سائیڈ پر کوئی خلا تلاش کرسکیں، اس لیے بلے باز بولرز کی حکمت عملی کو توڑنے کے لیے ریورس شاٹ کا بھرپور استعمال کرتے ہیں کیونکہ ریورس سوئپ ایسی جگہ جاتا ہے جہاں فیلڈر نہیں ہوتا۔
گذشتہ حیدرآباد ٹیسٹ میں اولی پوپ اتنے تواتر سے ریورس سوئپ مار رہے تھے کہ انڈین کپتان نے سپنرز پر ڈیپ تھرڈ مین فیلڈر لیا ہوا تھا تاکہ چوکوں کی برسات روکی جاسکے حالانکہ عام طور پر سپنرز پر تھرڈ مین نہیں ہوتا۔
کرکٹ جتنی بھی ماڈرن ہو جائے اور نئے نئے شاٹ ایجاد ہو جائیں لیکن ریورس سوئپ کے مقابلے کا کوئی شاٹ نہیں ہے اور جب بھی ریورس سوئپ شاٹ کھیلا جائے گا، ہر مبصر اور تجزیہ نگار مشتاق محمد کو یاد کرے گا، جنہوں نے اپنی ذہانت سے ریورس سوئپ کو جنم دیا اور کرکٹ کا مزاج بدل دیا۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔