صوبہ بلوچستان میں عام انتخابات 2024 کے سلسلے میں سیاسی گہما گہمی، کارنرمیٹنگز، سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور گرینڈالائنس کی سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں جبکہ اب تک صوبے میں تین امیدواروں پر حملے اور انتخابی عملے کی تربیتی ورکشاپ پر دستی بم کا حملہ بھی ہوا ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتون خوا میپ
بلوچستان نیشنل پارٹی نے قومی اسمبلی کے حلقے 263 کوئٹہ سے پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے چیرمین محمود خان اچکزئی کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا ہے اور پارٹی امیدوار نیاز بلوچ کو محمود خان اچکزئی کے حق میں دستبردار کیا ہے۔
دوسری جانب پشتون خوا میپ کے چیئرمین محمود خان اچکزئی پشین سے قومی اسمبلی کے حلقہ 265 سے مولانا فضل الرحمٰن کے حق میں دستبردار ہوگئے ہیں۔
صوبہ بلوچستان کے اس انتخابی دنگل میں سیاسی اورقوم پرست جماعتوں نے خواتین کو ایک بارپھر ایسے حلقوں سے ٹکٹ جاری کیے ہیں جہاں سے ان کا جیتنا بظاہر ممکن نظر نہیں آتا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن پہلی مرتبہ بلوچستان سے قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں اور محمود خان اچکزئی کی دستبرداری سے مولانا فضل الرحمٰن کی پوزیشن مزید مستحکم ہوگی۔
الیکشن 2013 اور 2018 کے مقابلے میں پیپلز پارٹی اس بار بلوچستان کے ہر حلقے سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہے۔
گذشتہ انتخابات میں بلوچستان کے ووٹرز نے پیپلز پارٹی پر اعتماد کا اظہار کم ہی کیا تھا لیکن اس بار مرکزی قیادت اور کارکنان تک الیکشن مہم زوروں پر نظرآتی ہے۔
بلوچستان کے حلقہ این اے 251 سے این اے 266 تک تمام 16 جبکہ پی بی ایک سے 51 تک ہر حلقے سے پیپلز پارٹی کے امیدوار میدان میں ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف
بلوچستان میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صوبائی قیادت اور کارکنان ٹکٹس تقسیم پر متفق نظر نہیں آتے اور سیاسی حکمت عملی پر کہیں کہیں کارکن قیادت کو پارٹی کے مسائل کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان تمام سیاسی مشکلات کے باوجود انتخابات کے پلان اے، بی اور سی کے بعد پلان ڈی کے بجائے مذید غلطیاں نہ کرنے اور نظریاتی بنیادوں پر دوبارہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی مربوط کوششیں کر رہے ہیں۔
بلے کا نشان نہ ملنے اور مضبوط لیڈر شپ نہ ہونے کی وجہ سے آزاد امیدواروں کی مہم چلائی جا رہی ہے جس کے لیے زیادہ توجہ سوشل میڈیا اور دو بدو رابطے پر دی جا رہی ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن 2018 میں بڑی پارلیمانی جماعت کی حیثیت سے سامنے آنے والی پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار بلے کے نشان کے بغیر کتنی عوامی حمایت اور ووٹ حاصل کر سکیں گے۔
پاکستان پیپلز پارٹی
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق پارلیمنٹیرینز میں شامل نواب ثنا اللہ زہری این اے 261 سوراب قلات، مستونگ اور پی بی 18 خضدار سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
این اے 252 لورالائی، دکی، موسیٰ خیل بارکھان سے سردار اسرار ترین۔
این اے 255 جعفرآباد، اوستہ محمد، نصیرآباد سے میر چینگیز جمالی۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
این اے 258 پنجگور کیچ سے صابر بلوچ جبکہ
این اے 260 رخشان ڈویژن سے عبدالقادر بلوچ امیدوار ہوں گے۔
کوئٹہ سے قومی اسمبلی کی تین نشستوں این اے 262 کوئٹہ ون سے رمضان اچک زئی۔
این اے 263 کوئٹہ ٹو سے روزی خان کاکڑ اور
این اے 264 کوئٹہ تھری سے نوابزادہ جمال رئیسانی پارٹی ٹکٹ پر امیدوار ہیں۔
صوبائی اسمبلی الیکشن میں پی بی 8 سبی سے سردار سرفراز چاکر ڈومکی۔
پی بی 9 کوہلو سے میر نصیب اللہ مری۔
پی بی 10 ڈیرہ بگٹی سے میر سرفراز بگٹی۔
پی بی 11 جھل مگسی سے سیف اللہ مگسی۔
پی بی 13 نصیرآباد ون سے میر صادق عمرانی۔
پی بی 23 آواران سے سابق وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو۔
پی بی 25 کیچ ون سے میر ظہور بلیدی۔
پی بی 32 چاغی سے میر عارف جان محمد حسنی۔
پی بی 35 سوراب سے نوابزادہ نعمت زہری جبکہ
پی بی 45 کوئٹہ 8 سے علی مدد جتک امیدوار ہیں۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے زیادہ تر ٹکٹس نئے امیدواروں کو دیے گئے ہیں۔
صوبائی اسمبلی کے تین حلقوں پی بی 3 قلعہ سیف اللہ، پی بی 7 زیارت ہرنائی اور پی بی 48 پشین ٹو سے خواتین امیدواروں کو بھی ٹکٹ دئیے گئے ہیں۔
متعددامیدواروں کی کاغذات نامزدگی کی واپسی کے بعد بلوچستان اسمبلی کے حلقہ 38 کوئٹہ 1 پر 34 امیدوار میدان میں رہے گئے۔
بلوچستان اسمبلی کے حلقہ 46 کوئٹہ 6 پر45 امیدوار، حلقہ پی بی 47 کوئٹہ 7 پر 46 امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ بلوچستان اسمبلی کے حلقہ 45 کوئٹہ 8 پر 42 امیدوار میدان میں رہ گئے ہیں۔
بلوچستان سے قومی اسمبلی کے حلقہ 262 پر 52 امیدوار میدان میں ہیں جبکہ قومی اسمبلی کے حلقہ 263 پر59 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوگا۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔