fbpx
خبریں

ای سیفٹی اتھارٹی: کیا ڈیجیٹل میڈیا کنٹرول ہوسکے گا؟

وفاقی حکومت نے ویب سائٹس، ویب چینلز اور یوٹیوب چینلز کی رجسٹریشن کا فیصلہ کیا ہے اور اس پر عمل درآمد کے لیے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بل بھی منظور کر لیا گیا ہے۔

یہ بل وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی ایند ٹیلی کام کی جانب سے کابینہ کو بھجوایا گیا تھا، جس کے مطابق بڑھتی ہوئی آن لائن سرگرمیوں کی مانیٹرنگ کے لیے اتھارٹی بنائی جائے، جس کا نام ’ای سیفٹی اتھارٹی‘ ہوگا۔

یہ اتھارٹی تمام ویب سائٹس کی مانیٹرنگ کرے گی اور ویب سائٹس کے اجازت ناموں اور قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانوں کا اختیار بھی اسی اتھارٹی کے پاس ہوگا۔

اتھارٹی ٹی وی چینلز اور اخبارات کی ویب سائٹس کی نگرانی کرنے کے ساتھ ساتھ ویب چینلز کو لائسنس جاری کرنے کا اختیار بھی رکھے گی جبکہ ویب مانیٹرنگ کا اختیار پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) سے واپس لے لیا جائے گا۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت بدھ (26 جولائی) کو اسلام آباد میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس بل کی منظوری دی گئی تھی۔

وزیراعظم ہاؤس سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ ’وفاقی کابینہ نے وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سفارش پر انفارمیشن سسٹم کے ناجائز و غیر قانونی استعمال کی روک تھام کے لیے ای سیفٹی بل 2023 کی اصولی منظوری دے دی ہے۔‘

اعلامیے کے مطابق اس بل کے تحت پاکستان میں تمام اقسام کی آن لائن سروسز، آن لائن خریداری، مختلف کمپنیوں کو دیئے جانے والے کوائف اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر صارفین کے ڈیٹا کو محفوظ کرنے اور اس کے بغیر اجازت استعمال کو یقینی بنانے کے لیے ایک جامع فریم ورک بنایا جائے گا۔

بل کی منظوری کے بعد آن لائن ہراسانی، سائبر بُلنگ اور بلیک میلنگ جیسے گھناؤنے جرائم کو موثر طریقے سے روکا جاسکے گا۔

کابینہ سے بل کی منظوری کے بعد یہ بل پارلیمنٹ میں پیش ہوگا اور وہاں سے منظوری کے بعد سینیٹ اور صدر پاکستان کے پاس جائے گا اور ان کی منظوری سے نافذ العمل ہوجائے گا۔

کیا نئی اتھارٹی سے ڈیجیٹل میڈیا پر کنٹرول مممکن ہے؟

اس سوال کے جواب میں پاکستان ڈیجیٹل میڈیا جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے کنوینئر فہم گوہر بٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ڈیجیٹل میڈیا جیسے جدید میڈیم کی مانیٹرنگ یا اس کی رجسٹریشن ریاست کا اختیار ہے، لیکن اس کی آڑ میں الیکٹرانک میڈیا کی طرح پیمرا کی طرز پر ڈیجیٹل میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش حکومت اور شہریوں کے لیے نقصان کا باعث بنے گی۔‘

ان کا کہنا تھا: ’یہ بات درست ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا خاص طور پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر گذشتہ چند سال سے جس طرح من گھڑت، جھوٹی افواہیں اور پروپیگنڈہ سے مخالفین کو نیچا دکھانے کی مہم دکھائی دیتی ہے، اس پر قابو پانے کے لیے حکومت کو حکمت عملی بنانی چاہیے، لیکن اس کے لیے نئی اتھارٹی بنانے کی ضرورت نہیں بلکہ ہتک عزت سے متعلق جو قوانین موجود ہیں، ان کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے تو اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔‘

فہیم گوہر بٹ کے مطابق: ’ہمارے ہاں مسئلہ ڈیجیٹل میڈیا پر جھوٹ یا فیک نیوز روکنے کا نہیں بلکہ من پسند خبروں کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے اور مخالفین کو روکنے کا ہے۔ پہلے پی ٹی آئی نے اپنی حکومت میں حکومت مخالف آوازیں دبانے کے لیے ایسے قانون بنانے کی کوشش کی اور اب پی ڈی ایم حکومت اپنے مخالفین کی آواز دبانے کے لیے یہ اقدام کر رہی ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے اس معاملے پر معروف یو ٹیوبر معظم فخر سے بھی گفتگو کی، جن کا کہنا تھا: ’جھوٹا پروپیگنڈہ یا پگڑیاں اچھالنے سے روکنے کے لیے ڈیجیٹل میڈیا کی مانیٹرنگ ضروری ہے، لیکن اسے اگر اپنے زیر اثر کرنے کی کوشش کی جائے گی تو ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے جو لوگ لاکھوں ڈالر کماتے ہیں اور پاکستان میں لاتے ہیں اور یہ سالانہ کروڑوں ڈالر بنتے ہیں، وہ بھی کم ہوسکتے ہیں۔‘

معظم کے مطابق: ’اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بیشتر ڈیجیٹل پلیٹ فارم مقامی میڈیا کی نسبت زیادہ آزادی سے خبریں اور معلومات فراہم کرتے ہیں، اس لیے لوگ انہیں زیادہ دلچسپی سے دیکھتے ہیں۔ اگر وہاں بھی کنٹرولڈ معلومات آئیں گی تو کون دیکھے گا، لہذا لوگ دوسرے ممالک سے اکاؤنٹس بنا کر اپنے پلیٹ فارم چلائیں گے اور وہیں پیسہ آئے گا۔‘

نئی اتھارٹی میں رجسٹریشن سے کتنا فرق پڑے گا؟

ڈیجیٹل مارکیٹنگ کمپنی چلانے والے نبیل رشید کا کہنا ہے کہ ’ڈیجٹل پلیٹ فارمز سے ملک میں اس وقت اربوں روپے کا کاروبار ہو رہا ہے اور اسے ریکارڈ میں لانے کا حکومتی اقدام بہتر ہے لیکن پہلے نظام کی شفافیت کو یقینی بنایا جائے اور رجسٹریشن کا عمل آن لائن اور شفاف رکھا جائے، لیکن اس کی شرائط نرم ہونی چاہییں تاکہ لوگ با آسانی رجسٹریشن کروا سکیں۔‘

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نبیل کے بقول: ’ہمارے ہاں سرکاری اداروں میں معمولی کام کروانا بھی جتنا مشکل ہے، وہ سب کو معلوم ہے۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز جس طرح کام کر رہے ہیں خیال کیا جائے کہ ان کے لیے بہترین طریقہ کار اپنایا جائے تاکہ وہ خود کو آسانی سے رجسٹر کروائیں اور ان کے کام پر اثر نہ پڑے۔لوگ ڈرتے ہیں کہ رجسٹریشن کے بعد کئی طرح کے ٹیکس عائد کر دیے جاتے ہیں، جیسے لاکھوں لوگ ایف بی آر میں فائلر بننے سے بھی کتراتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اتھارٹی بنانے سے پہلے حکومت کو چاہیے کہ پہلے ماہرین کو منظر عام پر لائے جو مانیٹرنگ کے سلسلے میں ڈیجیٹل صارفین کے لیے بھی قابل قبول ہوں اور طریقہ کار بھی واضح کیا جائے تاکہ لوگ آسانی سے اسے قبول کر سکیں۔‘

معظم فخر کے مطابق: ’ملک میں لوگ حکومتی اقدامات کو اسی وقت تسلیم کر سکتے ہیں جب حکومت بھی انہیں سہولیات دینے کی یقین دہانی کروائے۔ ابھی ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے لوگوں کا مختلف طریقوں سے روزگار کمانا آسان ہے، جس کے ذریعے موجودہ مہنگائی کے دور میں بھی لاکھوں افراد گھروں میں بیٹھ کر باعزت روزگار کما رہے ہیں۔ حکومت اس معاملے کو انتہائی حساس جانتے ہوئے اقدام کرے، کہیں اس قسم کی کوششوں کے باعث لاکھوں افراد کے لیے مسائل پیدا نہ ہوجائیں۔‘

ان کے خیال میں: ’حکومت کو چاہیے کہ پہلے سروے کرے اور لوگوں کو اپنی پالیسی سے مکمل آگاہ کرے اور پھر ان سے رائے لے تاکہ ای سیفٹی اتھارٹی حقیقی معنوں میں حکومت اور صارفین کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکے۔ اگر اسے بھی پیمرا کی طرح اپنے زیر اثر رکھنے کی پالیسی اپنائی گئی تو اس سے لاکھوں لوگ تو متاثر ہوں گے ہی، جو کروڑوں ڈالرز کی شکل میں زرِمبادلہ آ رہا ہے وہ بھی کم نہ ہوجائے کیونکہ تھمب نیل (Thumbnail) سے کانٹینٹ بکتا ہے اور وہ کسی کے حق یا خلاف میں ہونے کی پروا  کیے بغیر ہی دلچسپی کا سبب ہوتا ہے، لہذا اسے کنٹرول کرنے سے کشش ختم ہوسکتی ہے اور اس میں سے درمیانہ راستہ نکالنا پڑے گا۔‘

فہیم گوہر بٹ کے بقول: ’ادارہ جاتی پابندیوں کو ذہن میں رکھ کر اگر ذاتی طور پر چلائے جانے والے ڈیجیٹل میڈیا کو کنٹرول کرنے کا خیال ہوا تو ایسا کرنا ناممکن ہوگا اور سابق حکومت کی طرح اس حکومت کو ناکامی اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے