یہ 18 جولائی 1993 کی بات ہے، جب ملک کی سیاسی صورت حال ایک ایسی بند گلی میں پہنچ گئی تھی کہ وزیراعظم محمد نواز شریف اور صدر مملکت غلام اسحاق خان کو ایک ساتھ مستعفی ہونا پڑا۔ اس صورت حال میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عبدالوحید کاکڑ نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
پہلے وزیراعظم نے صدر کو قومی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائز دی، پھر صدر نے قومی اسمبلی توڑنے کا اعلان کرکے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا بھی اعلان کر دیا۔ اب تلاش شروع ہوئی کہ ملک کا نیا نگراں وزیراعظم کون ہوگا؟
میاں محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے سامنے دو نام تھے، سعید شیخ اور معین قریشی۔ دونوں ہی کا تعلق قصور سے تھا مگر جس نام پر اتفاق ہوا وہ امریکہ میں مقیم عالمی بینک سے منسلک ماہر معاشیات معین قریشی کا تھا۔
معین قریشی کو تلاش کیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ اس وقت امریکہ میں نہیں ہیں۔ ایسے میں وفاقی وزیر سرتاج عزیز نے معین قریشی کو سنگاپور میں ڈھونڈ نکالا۔ انہیں ان کی نئی تقرری کی اطلاع دی گئی اور فوراً پاکستان پہنچنے کا کہا گیا۔
معین قریشی پاکستان کے لیے روانہ ہو گئے مگر طرفہ تماشا یہ تھا کہ وہ جس ملک کے نگراں وزیراعظم بننے جارہے تھے، نہ ان کے پاس اس ملک میں کوئی گھر تھا، نہ ہی اس ملک کا شناختی کارڈ۔ وہ اسلام آباد ایئر پورٹ پر اترے تو حکام نے ان کا شناختی کارڈ ان کے حوالے کیا، جس پر ان کا پتہ وزیراعظم ہاؤس، اسلام آباد تحریر تھا۔
اسی شام انہوں نے ایوان صدر اسلام آباد میں پاکستان کے 16ویں وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ ان سے یہ حلف صدر غلام اسحاق خان نے لیا۔ اس تقریب کے بعد صدر غلام اسحاق خان نے عہدہ صدارت سے الگ ہونے کی دستاویز پر بھی دستخط کیے اور اس کے ساتھ ہی سینیٹ کے چیئرمین وسیم سجاد نے قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھال لیا۔
معین قریشی کے نگراں وزیراعظم بنتے ہی پورے ملک میں ان کے متعلق قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں۔ بعض لوگوں نے کہا کہ انہیں واشنگٹن نے ہم پر مسلط کیا ہے۔ قاضی حسین احمد نے ان پر ’امپورٹڈ پرائم منسٹر‘ کی بھپتی کسی۔ کسی نے کہا کہ سی آئی اے نے انہیں ایک خفیہ مشن دے کر بھیجا ہے اور وہ تین ماہ کے اندر اپنا مشن مکمل کر کے رخصت ہو جائیں گے۔
مگر معین قریشی جنہیں ’شفاف‘ انتخابات منعقد کروانے کے لیے بلایا گیا تھا ان تمام الزامات کے باوجود کام کرتے رہے۔ اپنے دور حکومت میں انہوں نے ملک کی معاشی حالت میں بہتری لانے کے لیے آئی ایم ایف کی اصلاحات کا نفاذ کیا، ملکی کرنسی کی قدر میں کمی کی، قومی لائبریری کا افتتاح انہی کے دور میں ہوا، سٹیٹ بینک کو خود مختار ادارہ قرار دیا، حکومتی مشینری میں موجود افراد کی تعداد کو کم کیا اور وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کی صوابدیدی اختیارات میں کمی کی۔
20 اکتوبر 1993 کو وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد کروا کر باعزت طور پر رخصت ہو گئے۔
معین قریشی کون تھے؟
ان کا تعلق قصور کے ایک سیاسی گھرانے سے تھا جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بے حد معروف ہے اور ہر دور میں اس کا کوئی نہ کوئی فرد سیاست کے میدان میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ یہ سیاسی خاندان مولانا عبدالقادر قصوری کا خاندان ہے۔
مولانا عبدالقادر قصوری 1866 میں ضلع گجرانوالہ کے ایک گاؤں دلاور چیمہ میں پیدا ہوئے تھے۔ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ انہوں نے عصری تعلیم بھی حاصل کی اور لاہور میں وکالت کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد قصور میں اقامت اختیار کی اور اسی شہر میں اپنی پریکٹس کا آغاز کیا۔
ابتدا میں مولانا عبدالقادر قصوری، سرسید احمد خان کی آل انڈیا ایجوکیشن کانفرنس اور آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستہ رہے، مگر پھر تحریک خلافت اور انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ منسلک ہو گئے۔ وہ پنجاب خلافت کمیٹی کے صدر اور انڈین نیشنل کانگریس کے ورکنگ کمیٹی کے رکن اور دس برس پنجاب کانگریس کے صدر بھی رہے۔
مولانا عبدالقادر قصوری نے مسلمانان برصغیر کے لیے ہر دور میں نمایاں کردار ادا کیا۔ 1936 میں مسجد شہید گنج کے حصول کے لیے مولانا ظفر علی خان نے جب مجلس اتحاد ملت قائم کی تو مولانا عبدالقادر قصوری ہی اس کے صدر بنائے گئے تھے۔ مولانا عبدالقادر قصوری نے اپنا آخری وقت لاہور میں گزارا، جہاں 16 نومبر 1942 کو ان کا انتقال ہو گیا۔ اگلے روز انہیں قصور میں دفن کیا گیا تھا۔
مولانا عبدالقادر قصوری کے سب سے بڑے صاحبزادے مولانا محی الدین احمد قصوری تھے۔ وہ 1889 میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ کچھ عرصہ متفرق مشاغل میں مصروف رہنے کے بعد کلکتہ چلے گئے جہاں انہوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی سرپرستی میں اقدام کے نام سے ایک عالی شان اخبار جاری کیا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران یہ اخبار بند ہو گیا تو وہ واپس قصور آگئے۔ جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد کچھ عرصہ انہوں نے قید و بند میں گزارا۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مولانا محی الدین احمد قصوری کے فرزند معین قریشی تھے۔ ان کا پورا نام معین الدین احمد قریشی تھا اور وہ 26 جون 1930 کو پیدا ہوئے۔ معین قریشی گورنمنٹ کالج لاہور کے فارغ التحصیل تھے۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے اکنامکس میں ایم اے کیا اور فل برائٹ سکالر شپ پر انڈیانا یونیورسٹی سے اکنامکس میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔
1955 میں وطن واپسی کے بعد انہوں نے سول سروس میں شمولیت اختیار کی اور پلاننگ کمیشن سے وابستہ ہوئے۔ اگلے برس وہ استعفیٰ دے کر امریکہ چلے گئے اور وہاں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے منسلک ہو گئے، جہاں ان کا کیریئر نہایت شاندار رہا۔ 1960 میں وہ افریقی ملک گھانا کے معاشی مشیر مقرر ہوئے۔ بعدازاں انہوں نے انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن میں شمولیت اختیار کی اور 1977 تک اس کے ایگزیکٹو وائس پریزیڈنٹ رہے۔
1981 میں ورلڈ بینک کے اس وقت کے صدر رابرٹ میکنامارا کی دعوت پر وہ ورلڈ بینک سے منسلک ہوئے اور سینیئر وائس پریزیڈنٹ فنانس رہے، جبکہ بعد میں وہ ورلڈ بینک کے سینیئر وائس پریزیڈنٹ بن گئے۔ 1992 میں انہوں نے ورلڈ بینک سے استعفیٰ دے کر امریکہ میں ایک نجی کمپنی کی بنیاد رکھی۔
18 جولائی 1993 کو جب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور صدر غلام اسحق خان نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دیا تو چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد صدر بن گئے اور نگراں وزیراعظم کے عہدے پر معین قریشی کا تقرر کیا گیا۔ وہ 18 جولائی 1993 سے 19 اکتوبر 1993 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ ترتیب کے اعتبار سے وہ پاکستان کے 16ویں وزیراعظم تھے۔
معین قریشی اس کے بعد امریکہ واپس چلے گئے، جہاں انہوں نے ای ایم پی گلوبل کے نام سے ایک سرمایہ کاری فرم قائم کی۔ 2014 میں وہ پارکنسنز کی بیماری میں مبتلا ہوئے اور ایک مقامی سپتال میں زیر علاج رہے۔
22 نومبر 2016 کو وہ واشنگٹن ڈی سی میں وفات پا گئے اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔