لاہور میں تین مرلے کے کرائے کے مکان کے ساتھ کریانے کی چھوٹی سی دکان کی آمدنی سے چھ بچوں کو پالنے والے غلام نبی بھٹی نے آج بھی اپنے مکان پر پاکستان پیپلز پارٹی کا جھنڈا لگا رکھا ہے۔
غلام نبی کے بقول: ’جب ذوالفقار علی بھٹو بطور وزیر خارجہ صدر جنرل ایوب کے ساتھ پہلی بار لاہور آئے تو میں بھی استقبال کرنے والوں میں شامل تھا۔ پیپلز پارٹی کا پرچم بھی اسی وقت سے تھام رکھا ہے جب لاہور میں پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔‘
لاہور کے علاقے گرین ٹاؤن، جو قومی اسمبلی کے حلقے 127 میں شامل ہے، سے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری آٹھ فروری کے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
غلام نبی نے بتایا: ’بلاول کو جتوانے کے لیے اب بھی پیپلز پارٹی کا جھنڈا لگا رکھا ہے، جو 50 سال پہلے تھاما تھا۔ ہر بار انتخابات میں یہ جھنڈا تو نیا مل جاتا ہے لیکن 95 سال کی عمر میں آج بھی کسمپرسی اور تنگ دستی سے زندگی گزار رہا ہوں۔ کئی دہائیوں سے پی پی پی کے امیدوار بھی انتخاب لڑتے ہیں، خوش حال کرنے کے وعدے کرتے ہیں لیکن دوبارہ کوئی خبر نہیں لیتا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’پنجاب سمیت وفاق میں کئی بار اپنی جماعت کے اقتدار میں آنے کی خوشی منائی مگر گھریلو حالات کبھی نہیں بدلے۔ پھر بھی اپنے قائد بھٹو کے نظریے پر پرچم تھامے کھڑا ہوں۔ بی بی کے بعد اس خاندان کا امیدوار بلاول 35 سال بعد اس حلقے سے انتخاب لڑ رہا ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ نہ صرف ملک کے بلکہ میرے حالات بھی بدلے گا۔‘
لاہور میں، جو کبھی پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، اب صرف ایک نشست این اے 127 پر بلاول بھٹو کا دوسرے امیدواروں سے مقابلہ دکھائی دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس حلقے میں پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ تشہیر کر رکھی ہے۔ غیر معمولی اخراجات کا اندازہ شاہراہوں پر بورڈز، بینرز اور پوسٹرز دیکھ کر ہی ہو جاتا ہے۔
اس حلقے میں بلاول کے علاوہ مسلم لیگ ن کے امیدوار عطا تارڑ، پاکستان تحریک انصاف کے ملک ظہیر عباس کھوکھر اور جماعت اسلامی کے احسان وقاص سمیت کئی آزاد امیدوار بھی مقابلے میں ہیں۔
ماضی میں اس حلقے کا نام این اے 133 تھا، جہاں 2013 میں مسلم لیگ ن کے امیدوار ملک پرویز بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کی وفات کے بعد ضمنی الیکشن میں ان کی اہلیہ شائستہ پرویز ملک مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئیں جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار اسلم گل کو 32 ہزار ووٹ ملے تھے۔
اس حلقے سے عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری بھی رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔ فروری کے انتخابات میں وہ بلاول بھٹو زرداری کی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں۔
شہری آبادی پر مشتمل این اے 127 میں ٹاؤن شپ، باگڑیاں، گرین ٹاؤن، کچہ جیل روڈ کے علاقے شامل ہیں۔
الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق حلقے کی کل آبادی نو لاکھ سے زیادہ جب کہ کل ووٹرز کی تعداد پانچ لاکھ 27 ہزار ہے اور یہاں 327 پولنگ سٹیشنز قائم کیے گئے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے اس حلقے کا جائزہ لیا گیا اور بعض ووٹرز کی رائے بھی دریافت کی گئی۔
اس حلقے کے ووٹر زیادہ تر تینوں بڑی جماعتوں کی حمایت کرتے دکھائی دیے۔ کوئی بلاول بھٹو کی کامیابی کو مسائل کا حل سمجھتا ہے تو کسی نے مسلم لیگ ن کے عطا اللہ تارڑ کی کامیابی سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔
جب کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ظہیر عباس کھوکھر کے حامی بھی ان کے ذریعے عمران خان کو سپورٹ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے اس حلقے میں صوبائی اسمبلی کی پانچ نشستوں کے علاقے بھی شامل ہیں، اس لیے صوبائی اسمبلی کے امیدوار بھی اپنی اپنی پارٹی کے قومی اسمبلی کے امیدواروں کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔
حلقے کے ووٹرز پانی کی دستیابی اور سیوریج سمیت ترقیاتی کاموں کا مطالبہ کر رہے ہیں البتہ سب سے زیادہ لوگ مہنگائی اور بے روزگاری سے پریشان دکھائی دیے۔ امیدواروں کے ساتھ انہیں ان پارٹیوں کی قیادت سے امیدیں وابستہ ہیں۔
حلقے میں تحریک انصاف کے امیدواروں کی تشہیری مہم دکھائی نہیں دی۔
ظہیر عباس کھوکھر کے مطابق وہ اپنے پوسٹر اور بینرز لگاتے ہیں لیکن رات کو اتار دیے جاتے ہیں۔ مد مقابل امیدواروں کی طرح حلقے میں انہیں جلسہ کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے، مگر ڈور ٹو ڈور مہم چلا کر اپنے ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔