fbpx
خبریں

انڈیا: خواتین کو برہنہ کرنے اور جنسی حملے کی ویڈیو پر غصے کی لہر

انڈیا کی پرتشدد واقعات سے متاثرہ شمال مشرقی ریاست منی پور میں مردوں کے ہجوم کے ہاتھوں دو قبائلی خواتین کو برہنہ کر کے گھمانے اور ان پر جنسی حملے کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد ملک میں غم وغصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

یہ ویڈیو بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی ہے۔ منی پور میں تنازع شروع ہونے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے پہلے ردعمل میں کہا کہ اس واقعے نے ’انڈیا کو شرمندہ کر دیا‘ اور واقعے میں ملوث افراد کو بخشا نہیں جائے گا۔

نریندر مودی نے انڈین پارلیمنٹ کا مون سون اجلاس شروع ہونے  سے قبل کہا: ’میں قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ قانون اپنی پوری طاقت کے ساتھ راستہ بنائے گا۔ منی پور کی بیٹیوں کے ساتھ جو ہوا اسے کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔‘

یہ واقعہ مبینہ طور پر چار مئی کو تشدد کے ابتدائی مراحل میں پیش آیا جو میتی اور کوکی برادریوں کے درمیان شروع ہوا جب کوکی برادری سے تعلق رکھنے والے  کچھ لوگوں نے زیادہ تر ہندو میتی برادری کی طرف سے محفوظ قبائلی درجہ دینے کے مطالبات کے خلاف احتجاج کیا۔

اس کے بعد سے ریاست واضح طورپر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور وہاں 140 سے زیادہ افراد جان سے گئے اور 40 ہزار سے زیادہ بے گھر ہو گئے  کیوں کہ دونوں برادریوں نے ایک دوسرے کی رہائش گاہوں اور گاڑیوں پر حملے کیے جب کہ گرجا گھروں اور مندروں کو نذر آتش کر دیا۔

تشدد کے واقعات میں بچ جانے والے ایک شخص نے نیوز میگزین ’سکرول‘ کو بتایا کہ یہ واقعہ برادریوں کے درمیان جھڑپوں کے ایک دن بعد ضلع کانگ پوکپی میں پیش آیا۔

خواتین کے رشتہ داروں کی طرف سے پولیس میں شکایت درج کروائی گئی اور الزام لگایا کہ بعد میں ایک خاتون کو اجتماعی طور پر ریپ کیا گیا۔ پولیس نے مبینہ طور پر باضابطہ شکایت درج کی لیکن ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی۔

جنسی حملے کی ویڈیو بدھ کو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس کے بعد  قانون نافذ کرنے والے ریاستی اداروں نے واقعے کے دو ماہ سے زائد عرصے کے بعد متعدد مشتبہ افراد کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا۔

منی پور پولیس کا کہنا ہے اس نے گینگ ریپ کے معاملے پر کارروائی کا آغاز کر دیا ہے اور ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے جن کی شناخت 32 سالہ ہیراداس کے نام سے ہوئی ہے۔ ان کا تعلق ضلع تھوبل سے ہے۔

زندہ بچ جانے والی خاتون نے بتایا کہ پولیس کے پاس مئی میں درج کروائی گئی شکایت میں بتایا گیا کہ ضلع کانگ پوکپی میں ان کے گاؤں پر حملہ ہونے کے بعد کوکی برادری سے تعلق رکھنے والے دو مرد حضرات سمیت پانچ افراد پناہ کے لیے فرار ہو کر جنگل میں چلے گئے۔

ان لوگوں کو تھوبل پولیس نے بچا لیا۔ پولیس انہیں تھانے لے جا رہی تھی کہ راستے میں ہجوم نے انہیں پولیس کی تحویل سے چھڑوا لیا۔

زندہ بچ جانے والی خاتون نے اخبار انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ  50 سال سے زیادہ عمر کی ایک خاتون کو مبینہ طور پر برہنہ کر دیا گیا جب کہ 21 سالہ خاتون کے والد اور بھائی کو  قتل کر دیا گیا۔

زندہ بچ جانے والی خاتون نے انڈین اخبار کو بتایا کہ ’پولیس اس ہجوم کے ساتھ تھی جو ہمارے گاؤں پر حملہ کر رہا تھا۔‘

’پولیس نے ہمیں گھر کے قریب سے اٹھایا اور گاؤں سے تھوڑا دور لے جا کر سڑک پر ہجوم کے حوالے کر دیا۔ ہمیں پولیس نے ان کے حوالے کیا۔‘

پولیس کے پاس درج کروائی شکایت میں الزام لگایا گیا کہ خاتون کو ’دن دہاڑے وحشیانہ طور گینگ ریپ کیا گیا۔ دیگر دو خواتین ’علاقے کے کچھ لوگوں کی مدد سے موقعے سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئیں جو ان کے جاننے والے تھے۔‘

شکایت میں مزید کہا گیا کہ خاتون کے ’چھوٹے بھائی نے اپنی بہن کی عزت اور زندگی بچانے کی کوشش کی لیکن ہجوم  نے انہیں موقعے پر ہی قتل کر دیا۔‘

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خاتون نے کہا کہ ’تمام مردوں کے مارے جانے کے بعد ہجوم نے وہی کیا جو اس نے کیا۔ ہمیں وہیں چھوڑ دیا گیا اور ہم فرار ہو گئے۔‘

انڈیا کی سپریم کورٹ نے واقعے پر ’گہری تشویش‘ کا اظہار کیا ہے اور وفاقی حکومت زور دیا ہے کہ وہ  ملزموں کے خلاف فوری کارروائی کرے۔

انڈیا کے چیف جسٹس دھنن جایا یشونت چندرچوڑ نے کہا کہ اگر حکومت کارروائی کرنے میں ناکام رہی تو عدالت کردار ادا کرے گی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’میڈیا اور ویڈیو میں جو کچھ دکھایا گیا ہے اس سے آئین کی سنگین خلاف ورزی ظاہر ہوتی ہے۔‘

منی پور کی قبائلی تنظیم انڈیجینس ٹرائبل لیڈرز فورم نے ایک بیان میں کہا کہ کوکی زو برادری کی ویڈیو میں نظر آنے والی دو خواتین اب ایک پناہ گزین کیمپ میں حفاظت کے ساتھ ہیں۔

انڈین پارلیمنٹ کے مون سون سیشن کے پہلے روز ریپ کی اس ویڈیو پر احتجاج کیا گیا۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے مطالبہ کیا کہ تسلسل کے ساتھ جاری تشدد پر بحث کی جائے۔

بھارت کی مرکزی اپوزیشن جماعت کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے حکمراں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر الزام لگایا کہ وہ ’جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو ہجوم کی حکومت میں بدل رہی ہے۔‘

 کھرگے نے کہا کہ وزیر اعظم کو پارلیمنٹ میں منی پور کے بارے میں بات کرنی چاہیے۔ انہوں نے سوشل میڈٰیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر لکھا کہ ’انڈیا آپ کی خاموشی کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔‘

منی پور کے وزیر اعلیٰ این بیرن سنگھ کو بحران پر قابو پانے کے لیے اپنی حکومت کی نا اہلی پر استعفیٰ دینے کے مطالبات کا سامنا ہے۔

ریاستی وزیر اعلیٰ نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ’فی الحال جامع تحقیقات جاری ہے اور ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ تمام مجرموں کے خلاف سخت کارروائی ہو جس میں سزائے موت کے امکان پر غور بھی شامل ہے۔ جان لیں کہ ہمارے معاشرے میں ایسی گھناؤنی حرکتوں کے لیے قطعی طور پر کوئی جگہ نہیں ہے۔‘

یورپی پارلیمنٹ نے گذشتہ ہفتے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں انڈین حکام سے تشدد کو روکنے اور مذہبی اقلیتوں بالخصوص عیسائیوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

انڈین وزارت خارجہ نے اس قرارداد کو انڈیا کے داخلی معاملات میں ’مداخلت‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے