ابھی تک تو لگ رہا ہے کہ انتخابات ہوں گے۔ گو سردی نے ساری انتخابی سرگرمیوں اور ووٹرز سپورٹرز کو جما رکھا ہے مگر انتخابی نشانات نے بڑی رونق لگا رکھی ہے۔
پی ٹی آئی کو ایکسٹرا لارج بنانے اور پھر واپس اس کے اصل حجم میں لانے کے لیے جو آپریشن کیا جا رہا تھا وہ آپریشن کی بجائے پوسٹ مارٹم بن گیا۔ اس قدر تیزی سے تو سائنس فکشن فلموں میں بھی تبدیلیاں رونما نہیں ہوتیں جتنی تیزی سے ہمارا سیاسی میدان پلٹا گیا۔
پی ٹی آئی کی جھاڑ پھٹک کے بعد جب اس کے ڈھانچے میں سے سارے الیکٹ ایبلز نکال لیے گئے کچھ تائب ہو گئے کچھ کی توبہ کرا دی گئی تو اب باری آئی بلے کی۔
زیر والے بلے کی نہیں زبر والے بلے کی۔ اتنی پرانی بات نہیں کہ یاد نہ ہو اسی بلے سے ڈر کے انتخابات کے دنوں میں کچھ لوگ لکھنے سے بھی تائب ہو گئے تھے۔ قدرت خدا کی کہ آج بلا ہی میدان سے غائب کر دیا گیا۔
بلے کی جگہ ایسے ایسے انتخابی نشان دیے گئے ہیں کہ ہاسا ہی نکل گیا۔ بینگن، ہارمونیم، وکٹ، کڑاہی، سلیٹ، پیالہ، پھول، ائیر کنڈیشنر، بیڈ، فریج اور جانے کیا کیا گویا پورا جہیز ہی دے دیا گیا۔
ویسے پی ٹی آئی کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کا سلوک بالکل ویسا ہی ہے جیسا جائیداد والے گھروں میں بیٹیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ساری آزادی حاصل ہے، اتنے سارے رنگ برنگے انتخابی نشان بھی دیے گئے ہیں، مگر پی ٹی آئی والوں کے آنسو تھم رہے ہیں اور نہ دہائیاں بند ہو رہی ہیں، ’ڈولی چڑھدیاں ماریاں ہیر چیکاں۔۔۔‘
یہ سن کے دکھ تو ہو رہا ہے لیکن بات یہ ہے کہ سیاست کے میدان اور کرکٹ کے میدان میں بہت فرق ہوتا ہے۔ کرکٹ میں چالاکی چل جاتی ہے۔ آل راؤنڈر بن کے کپتانی بھی مل جاتی ہے اور ورلڈ کپ کا سارا کریڈٹ بھی، مگر سیاست میں زیادہ چالاک بننے کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔
لوگ سمجھتے یہی ہیں کہ سیاست روند مارنے کا کھیل ہے اور ریلو کٹے بلا کر بازی جیتی جا سکتی ہے، مگر حقیقت کچھ اور ہے۔ سیاست قربانی مانگتی ہے، اصولوں سے دائیں سے بائیں ہو جانے والی جماعتوں کا انجام علاقائی پارٹی، پریشر گروپ بننے سے لے کر ناپید ہونے تک پہنچتا ہے۔
میثاق جمہوریت کے بعد تیسری قوت بنتے ہوئے اگر ذرا تفکر کر لیا جاتا اور یہ سوچ لیا جاتا کہ سیاسی عمل کو بار بار ڈی ریل کرنے والے آپ کو کب تک برداشت کریں گے؟ کوتاہ بینی سے نقصان جمہوریت اور سیاسی عمل کو ہوا۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ سیاسی جماعتیں جو تجربے کرنے کے بعد اس نتیجے پہ پہنچ چکی تھیں کہ سیاسی نظام کی بقا کے لیے روند مارنے سے گریز کیا جائے گا دوبارہ اسی مقام پہ آ کے کھڑی ہو گئیں۔
بددلی ہی سے سہی مگر باقی جماعتوں نے پی ٹی آئی کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیا اور کیوں نہ دیں؟ پی ٹی آئی کے لیڈروں سے جو غلطی ہوئی اس کا خمیازہ سب بھگتیں گے۔
مضحکہ خیز انتخابی نشان کے ساتھ الیکشن لڑنے والی پارٹی کے حق میں ایک بات اچھی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ پارٹی عوام میں چلی گئی ہے۔ جلسے جلوسوں اور سوشل میڈیا پہ شور مچانے والے اب دل سے پارٹی کے ساتھ ہیں۔ اگر بچے کھچے لیڈروں نے انتخابی نشان چمٹا کے باوجود پارٹی کو سنبھال لیا اور کسی نہ کسی طرح حسب اختلاف میں بیٹھنے میں کامیاب ہو گئی تو بہت ممکن ہے اگلے انتخابات میں یہ ایک مضبوط اور عوامی جماعت بن کے ابھرے۔ یہ وقت قربانی اور سمجھداری کا ہے۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی بد دلی بھی صاف نظر آرہی ہے۔ پرانے جمے ہوئے سیاستدان اس قدر فاؤل پلے میں شوق سے شریک نہیں ہوتے۔ اس طرف سے بھی کچھ زیادہ گہما گہمی نظر نہیں آ رہی، سیاسی ماحول ٹھنڈا ہی ہے۔
ایسے میں اگر کسی کو انتخابی نشان، چمٹا الاٹ کر دیا گیا، کسی کو ہارمونیم اور کسی کو کیتلی تو اسی پہ ہنس لیجئے کیونکہ جو کچھ ہوتا آیا ہے اور جو آنے والے وقت میں متوقع ہے اس پہ تو ہنسنے کا بھی موقع نہیں ملے گا۔ چمٹا، ہارمونیم بجائیے اور بس یہ ہی سوچیے، جب وہ بلے والے دن نہیں رہے تو یہ چمٹے والے دن بھی نہیں رہیں گے۔
یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔