نیدرلینڈز کے شہر دا ہیگ میں واقع عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف دائر فلسطینیوں کی نسل کشی کے مقدمے پر ایمرجنسی اقدامات پر فیصلہ آج (بروز جمعہ) سنائے گی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بدھ کو عالمی عدالت انصاف کے بیان میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل کے خلاف نسل کشی کیس میں ایمرجنسی اقدامات کا حکم جاری کرنے کے حوالے سے فیصلہ 26 جنوری کو سنایا جائے گا۔
غزہ پر کئی ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت کے بعد اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا یہ مقدمہ جنوبی افریقہ نے دائر کیا تھا، جس کی سماعت کا آغاز 11 جنوری کو ہوا تھا۔
ابتدائی سماعت میں جنوبی افریقہ کے نمائندوں کو دلائل کا موقع فراہم کیا گیا، جس کے دوران اسرائیل پر اقوام متحدہ کے نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا گیا کہ حماس کی سات اکتوبر کی کارروائی بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کا جواز پیش نہیں کر سکتی۔
عالمی عدالت انصاف میں اس کیس کی سماعت دو روز تک جاری رہی، جس کے دوسرے دن اسرائیل کو بھی دفاع کا موقع فراہم کیا گیا کہ وہ اپنا موقف پیش کرے۔
اسرائیل نے خلاف نسل کشی کے مقدمے کو ’انتہائی مسخ شدہ‘ اور ’بدخواہی‘ پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ فلسطینی عوام کو تباہ کرنے کی کوشش نہیں کر رہا۔
دوسری جانب اسرائیل اور اس کے اتحادی امریکہ نے اس مقدمے کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا اور عالمی عدالت میں مضبوط دفاع کا عزم ظاہر کیا۔
کیس سے جڑے کچھ اہم سوالات
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس مرحلے پر عالمی عدالت انصاف صرف یہ فیصلہ کرے گی کہ آیا اسرائیل پر ہنگامی احکامات (عدالت کی اصطلاح میں عارضی اقدامات) نافذ کیے جا سکتے ہیں یا نہیں۔
اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے یا نہیں، اس بارے میں فیصلہ طریقہ کار کے دوسرے مرحلے کے لیے ہو گا اور اس میں برسوں لگ سکتے ہیں۔
یونیورسٹی آف ساؤتھ آسٹریلیا میں بین الاقوامی قانون کی لیکچرر جولیٹ میکانٹائر نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس مرحلے پر جنوبی افریقہ کو یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اسرائیل نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے، انہیں صرف یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ نسل کشی کا ممکنہ خطرہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ’یہاں تک کہ اگر عدالت اسرائیل کے خلاف فیصلہ دیتی ہے تو بھی اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نسل کشی کا ممکنہ خطرہ ہے۔ یہ نہیں کہ نسل کشی ہو رہی ہے۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت سے کہا ہے کہ وہ اسرائیل پر نو احکامات نافذ کرے، جس میں فوری طور پر فوجی سرگرمیاں معطل کرنا اور مزید انسانی رسائی کو ممکن بنانا شامل ہے۔
عدالت تمام نو احکامات کا حکم دے سکتی ہے یا ان میں سے کوئی بھی نہیں یا مکمل طور پر مختلف احکامات بھی صادر کر سکتی ہے۔
لیڈن یونیورسٹی میں عوامی بین الاقوامی قانون کی اسسٹنٹ پروفیسر سیسلی روز نے کہا: ’ایسا لگتا ہے کہ عدالت جنوبی افریقہ کی طرف سے استدعا کی گئیں کچھ درخواستوں کو منظور کر لے گی۔ اسرائیل نے سماعتوں کے دوران دلیل دی کہ جنگ بندی غیر حقیقی ہے کیونکہ عدالت صرف ایک فریق کو حکم دے سکتی ہے جیسا کہ حماس اس عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں ہے۔‘
ایک اور ماہر قانون میک انٹائر نے کہا: ’عدالت جنگ بندی کا حکم دے سکتی ہے، لیکن میری رائے میں زیادہ امکان یہ ہے کہ اسرائیل سے ایسے اقدامات کا کہا جائے تاکہ مناسب خوراک، پانی اور انسانی امداد تک رسائی کو یقینی بنایا جا سکے۔‘
اہم بات یہ ہے کہ آیا اسرائیل عالمی عدالت کے کسی ممکنہ فیصلے کی پاسداری کرے گا۔ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو پہلے ہی اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ عدالت کے پابند نہیں ہیں۔
تاہم میک انٹائر نے کہا کہ اسرائیل کے ردعمل سے قطع نظر اس فیصلے کے اہم اثرات مرتب ہوں گے۔
ان کے بقول: ’اگر عدالت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ نسل کشی کا ’خطرہ‘ ہے تو اس سے دوسرے ممالک کے لیے اسرائیل کی حمایت جاری رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ عالمی برادری اسرائیل کی فوجی یا دیگر حمایت واپس لے سکتی ہیں۔‘
رکن ممالک عالمی عدالت انصاف کے احکام پابند ہیں لیکن اس کے پاس ان کو نافذ کرنے کی طاقت نہیں ہے اور کچھ ریاستیں انہیں مکمل طور پر نظر انداز کرتی ہیں، مثال کے طور پر روس نے یوکرین پر حملے روکنے کا حکم نظر انداز کر دیا تھا۔
آخر میں اس کا ایک علامتی پہلو بھی ہے جس کے پیش نظر اسرائیل اخلاقی حمایت کھو سکتا ہے۔
عالمی عدالت میں شامل جج کون ہیں؟
عالمی عدالت انصاف کی ویب سائٹ کے مطابق اس کے حالیہ ججوں کی تعداد 15 ہے، تاہم اس مقدمے کی سماعت کے لیے جنوبی افریقہ اور اسرائیل نے خصوصی طور پر ایک ایک اضافی جج مقرر کیا ہے۔ دونوں جج غیر معمولی ذاتی تاریخ کے ساتھ اپنے ممالک میں ممتاز شخصیات ہیں۔
یہ عدالت سادہ اکثریت سے فیصلہ کرتی ہے جس پر قانونی طور پر عمل درآمد کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن عدالت کے پاس اپنے فیصلے پر عمل درآمد کروانے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔
ڈیگانگ موسینیکے
76 سالہ ڈیگانگ موسینیکے جنوبی افریقہ کے سب سے سینیئر ریٹائرڈ ججوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے نسلی امتیاز کے خلاف لڑائی لڑی اور ملک میں جمہوریت کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔
انہیں 15 سال کی عمر میں نسلی امتیاز کے خلاف احتجاج کرنے پر قید کیا گیا تھا۔ انہوں نے 10 سال جنوبی افریقہ کی بدنام زمانہ روبن آئی لینڈ جیل میں گزارے جہاں ان کی نیلسن منڈیلا سے دوستی ہوئی۔
موسینیکے نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہتے ہوئے یونیورسٹی کی ڈگری کے لیے تعلیم حاصل کی اور رہائی کے بعد وکیل کے طور پر کام کیا۔
بعد میں منڈیلا نے ان سے کہا کہ وہ جنوبی افریقہ کے عبوری آئین کا مسودہ تیار کرنے اور ملک میں پہلے جمہوری انتخابات کی نگرانی میں مدد کریں۔
یونیورسٹی آف پریٹوریا میں بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے پروفیسر فرانز ولجوئن کے مطابق موسینیکے ’منصفانہ سوچ اور مقدمے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کی شہرت کے مالک ہیں اور کیس میں حقائق کی پیروی کرتے ہیں۔‘
انہیں 2002 میں جنوبی افریقہ کی آئینی عدالت میں تعینات کیا گیا۔ 2005 میں انہیں ڈپٹی چیف جسٹس مقرر کیا گیا اور وہ 2016 میں ریٹائرمنٹ تک اس عہدے پر فائز رہے۔
اہرون براک
87 سالہ براک 1936 میں لتھوینیا میں پیدا ہوئے۔ وہ ہولوکاسٹ میں بچ جانے والی شخصیت ہیں اور اسرائیل کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔
وہ دوسری عالمی جنگ کے دوران وسطی لیتھوینیا کے شہر کوونو (کونس) میں یہودی بستی میں زندہ بچ جانے والے چند بچوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے اپنے بچ جانے کو معجزہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اس واقعے کے بعد سے مجھے کبھی موت سے ڈر نہیں لگا۔‘
براک کو ان کی والدہ نے یہودی بستی سے باہر نکالا اور ایک بیگ میں بند کر دیا، جس میں وردی رکھی جاتی ہے۔ یہ بیگ اسی بستی میں تیار کیا گیا تھا۔
وہ اسرائیل بننے سے ایک سال قبل 1947 میں اس وقت کے برطانوی مینڈیٹ والے فلسطین منتقل ہو گئے۔
1975 اور 1978 کے درمیان براک اسرائیل کے اٹارنی جنرل کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔
1978 میں انہیں سپریم کورٹ میں مقرر کیا گیا اور 1995 سے 2006 تک وہ چیف جسٹس کے طور پر خدمات انجام دینے کے بعد ریٹائر ہو گئے۔
براک کو سپریم کورٹ کی فعالیت کے چیمپیئن کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ اسرائیل کے وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کے سخت ناقد رہے ہیں، جن کی عدالتی اصلاحات نے گذشتہ سال عوام کو بری طرح تقسیم کر دیا۔
جون ای ڈونوگو
عالمی عدالت کے دیگر ججوں میں اس کی صدر جون ای ڈونوگو شامل ہیں، جن کا تعلق امریکہ سے ہے۔ وہ نو ستمبر 2010 سے عدالت کی رکن ہیں۔
کریل گیورگیان
نائب صدر کریل گیورگیان کا تعلق روسی فیڈریشن کے ساتھ ہے۔ وہ چھ فروری 2015 سے عدالت کے جج ہیں اور آٹھ فروری 2021 کو نائب صدر بنے۔
پیٹر ٹامکا
عدالت کے جج پیٹر ٹامکا سلوواکیہ کے شہری ہیں۔ وہ دوبارہ انتخاب کے بعد چھ فروری 2003 سے عدالت کے رکن ہیں۔ 2012 سے 2015 تک وہ اس عدالت کے صدر رہے۔ قبل ازیں 2009 سے 2012 تک نائب صدر رہ چکے ہیں۔
رونی ابراہم
جج رونی ابراہم کا تعلق فرانس سے ہے۔ وہ 2018 سے عدالت کا حصہ ہیں۔
محمد بنونا
جج محمد بنونا مراکش کے شہری ہیں۔ وہ 2015 میں دوبارہ انتخاب کے بعد عدالت کا حصہ ہیں۔
عبدالقوی احمد یوسف
جج عبدالقوی احمد یوسف صومالیہ کے شہری ہیں۔ وہ فروری 2018 میں دوبارہ منتخب ہونے کے بعد عدالت کا حصہ ہیں۔
ژیو ہانکن
خاتون جج ژیو ہانکن چینی شہری ہیں۔ وہ 2021 میں دوبارہ عدالت کا حصہ بنیں۔
جولیا سبوتندے
خاتون جج جولیا سبوتندے کا تعلق یوگینڈا سے ہے۔ وہ 2021 میں دوبارہ عدالت کا حصہ بنیں۔
دل ویر بھنڈاری
جج دل ویر بھنڈاری انڈین شہری ہیں۔ وہ 2018 میں دوسری بار عدالت کا حصہ بنے۔
پیٹرک لپٹن رابن سن
جج پیٹرک لپٹن رابن سن کا تعلق جميئکا سے ہے۔ وہ 2015 سے عدالت کے رکن ہیں۔
نواف سلام
جج نواف سلام لبنانی ہیں۔ وہ 2018 سے عدالت کا حصہ ہیں۔
ایوساوا یوجی
عدالت میں شامل جج ایوساوا یوجی کا تعلق جاپان سے ہے۔ وہ 2021 میں دوبارہ عدالت کا حصہ بنے۔
جارج نولتے
عالمی عدالت انصاف کے جج جارج نولتے جرمن شہری ہیں۔ وہ 2021 سے عدالت کے جج ہیں۔
ہیلری چارلز ورتھ
خاتون جج ہیلری چارلز ورتھ آسٹریلوی شہری ہیں۔ وہ 2021 سے جج ہیں۔
لیونارڈو نیمر کالڈیرا برانٹ
جج لیونارڈو نیمر کالڈیرا برانٹ برازیل کے شہری ہیں، وہ نومبر 2022 میں عالمی عدالت انصاف کا حصہ بنے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔