fbpx
خبریں
Trending

اسرائیل فلسطین تنازع اور بچوں کے دو ناول

الیزبتھ لیرڈ ایک برطانوی بچوں کی مصنفہ ہیں، وہ ایتھوپیا کی لوک کہانیاں کو جمع کرکے شائع کرنے کی وجہ سے بھی جانی جاتی ہیں۔ ان کی کتابوں کے تراجم 20 سے زیادہ زبانوں میں ہو چکے ہیں۔

ان کا فلسطینی مصنفہ پروفیسر سونیا نمر کے ساتھ مشترکہ ایک ناول ”لٹل پیس آف گراؤنڈ“ (A Little Piece of Ground) جو 2003ء میں شائع ہوا۔ ایک بارہ سالہ پناہ گزین بچے کی کہانی ہے۔ جو مقبوضہ مغربی کنارے جس کو ویسٹ بینک کہا جاتا ہے، اس کی کہانی اس 12 سالہ بچے کی زبانی بیان کی گئی ہے۔ ناول انگریزی میں لکھا گیا تھا جو عربی، جاپانی اور کئی یورپی زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔

اس ناول کو برطانیہ میں سی آئی ایل آئی پی کارنیگی تمغے کے لیے نامزد کیا گیا تھا اور آئی بی بی وائی 2004ء کی

کتاب کا سرورق
کتاب کا سرورق

اعزازی فہرست (ہانر لسٹ) میں شامل کیا گیا تھا۔ جب کہ اس ناول کو ہیمپشائر بک ایوارڈ ملا اور یہ سدرن اسکولز بک ایوارڈ کے لیے بھی نامزد ہوا۔

یہ کہانی لبنانی خانہ جنگی کے دوران لبنان میں مصنفہ الیزبتھ لیرڈ کے ذاتی مشاہدات کے بعد لکھی گئی ہے، اس ناول نے اسرائیل فلسطینی تعلقات کی تصویر کشی کے حوالے سے کچھ تنازعات کو بھی جنم دیا۔

ناول اس کو ہم اردو میں ”زمین کا ایک ٹکڑا“ کہہ سکتے ہیں۔ نوجوان قارئین کو آج ہماری دنیا کو درپیش بدترین تنازعات میں سے ایک کے بارے میں مزید گہرائی سے سمجھنے میں مدد کرتا ہے۔

اسرائیلی فوجیوں پر ایک خودکش حملہ ہوتا ہے، اور وہ رام اللہ کا محاصرہ کر لیتے ہیں۔ ناول کا مرکزی کردار 12 سالہ کریم ابودی اور اس کا خاندان، کرفیو کے باعث رام اللہ شہر کے اپنے گھر میں محصور ہو جاتے ہیں۔

کریم فٹ بال کھیلنے کا شوق رکھتا ہے۔ فٹ بال کی شدید خواہش رکھتا ہے، لیکن کرفیو کے باعث یہ خواہش پوری نہیں کر پا رہا۔ آخر کار کرفیو ختم ہوتا ہے۔ تو وہ اسکول جاتا ہے تب معلوم ہوتا ہے کہ اس کا اسکول بھی تباہ ہو چکا ہے۔۔ ۔۔ بہ ہرحال دوبارہ کرفیو لگ جاتا ہے، کریم اور اس کے بھائی بہنوں کی یہی زندگی ہے۔ مگر اب کی بار مرکزی کردار جو ہے، اسرائیلی فوجی اسی کو ڈھونڈ رہے ہیں اور وہ اپنی جان بچا رہا ہے۔۔ ۔۔

اس نے بچپن ہی سے دیکھا کہ اس کی عمر کے بچوں کو بھی بڑی عمر کے مردوں کی طرح مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔

پھر وہ اور اس کے چند دوست مل کر فٹ بال کھیلنے کے لیے ایک جگہ ڈھونڈتے ہیں وہاں ہی قریب ایک تباہ شدہ عمارت میں ایک پرانی کار کھڑی ہے وہ اس کو بھی حاصل کر لیتے ہیں، یوں زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا اور وہ خراب کار ہی ان کی کل کائنات قرار پاتا ہے، وہی ان کی زندگی ہے، وہی ان کی خوشی اور سکون کا ایک چھوٹا ٹکڑا ہے لیکن۔۔ ۔۔

عرب ورلڈ بک نامی ویب سائٹ نے ناول کے متعلق لکھا ہے کہ ”جیسے تمام چھوٹے بچوں کو این فرینک کی کہانی پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اسی طرح انھیں لیرڈ کی اس کتاب کو پڑھنے کی ترغیب دی جانی چاہیے، جس میں قبضے اور جبر کے تحت فلسطینی بچے کی زندگی کو دکھایا گیا ہے۔

(اس سے ایک سال بعد 2004ء میں، اسرائیل سے بچوں کے لیے ناول، رئیل ٹائم (Real Time: A Novel) پنینا موید کاس نے لکھا جو ہولو کاسٹ کے تناظر میں ملک اسرائیل کے قیام کو درست قرار دیتا ہے، یہودیوں کا اپنا ایک وطن، کیوں ہونا چاہیے یہ اس ناول کا مرکزی خیال ہے۔ مصنفہ یورپی ہیں۔ امریکا میں پلی بڑھی اور امریکا و اسرائیل کے ہائی اسکولوں میں انگریزی کی تدریس کرتی رہی ہیں، 2005ء میں مصنفہ کو نیشنل جیوش بک ایوارڈ ملا)۔

جب کہ اسی سال 2004 میں ڈیبورا ایلس نے فلسطینی ا

ور اسرائیلی بچوں کے ساتھ بات چیت کی جس کو بعد میں کتابی صورت میں اس نے شائع کیا اس کتاب کا نام ”تھری وشز’ فلسطینئن اینڈ اسرائیلی چلڈرن اسپیک“ تھا۔

اس میں ایک فلسطینی بچی مونا کا بیان کہ ”(اسرائیل کی) لڑائی معصوم فلسطینیوں کے ساتھ ہے۔ جن کے پاس کچھ نہیں ہے اور مقابل اسرائیلی فوجی جن کے پاس سب کچھ ہے۔ کاش تمام اسرائیلی میرا ملک چھوڑ دیں۔ میں کسی اسرائیلی بچے کو نہیں جانتا اور میں نہیں جاننا چاہتا۔ کیوں کہ وہ اپنے والدین کی طرح ہی عقائد رکھتے ہیں۔ وہ مانتے ہیں کہ میں ان جیسا اچھا نہیں ہوں، وہ میرے جیسے نہیں ہیں، میں بالکل نہیں جانتا وہ مجھ سے کیسے مختلف ہیں، لیکن وہ مجھ سے مختلف ہیں“۔ صفحہ 47.

13 سالہ اسرائیلی بچی میرو کا بیان ہے کہ ”میں کسی فلسطینی بچے کو نہیں جانتی۔ وہ میری بستی کے باہر چاروں طرف ہیں، لیکن میں ان میں سے کسی کو نہیں جانتی۔ میرے پاس ان سے ملنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ وہ خطرناک ہیں ان کو موقع ملا تو وہ مجھے گولی مار دیں گے۔ اسرائیلی فوج انھیں ہم سے دور رکھتی ہے۔“ صفحہ 67-68.

بظاہر یہ تینوں کتابیں کی اب ماضی کا قصہ ہیں۔ لیکن ہر فلسطین اسرائیل لڑائی کے بعد ایسے بیانیوں کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دیکھتے ہیں۔ اب کی بار بچوں کے لیے عبرانی، عربی اور انگریزی میں کیا کچھ لکھا جاتا ہے۔

اردو میں بچوں کے کئی رسائل نے فلسطین نمبر شائع کیے، کہانیاں، مضامین، نظمیں اور تراجم بھی ہوئے۔ مگر نوجوانوں کے لیے، فلسطین پر غالباََ ایک ہی ناول صاعقہ علی نوری نے لکھا ہے۔ جو اشاعت کے مراحل میں ہے۔ (اس پر تبصرہ کتاب شائع ہونے کے بعد)۔

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے