fbpx
آرٹ و انٹر ٹینمنٹخبریں

دی لیجنڈ آف مولا جٹ پر تبصرہ / محمود ظفر اقبال ہاشمی

جس شخص نے بچپن میں اپنے اکلوتے بیٹے کو تلوار، بندوق اور پستول جیسا کوئی کھلونا محض اس وجہ سے لے کر نہ دیا ہو کہ اس کے خیال میں اس سے بچوں کی نفسیات میں تشدد، ہیجان اور ذہنی پراگندگی پیدا ہو سکتی ہے، وہ بھلا تشدد، قتل و غارت اور دشمنی سے بھرپور ورک آف آرٹ کیسے پسند کرسکتا ہے۔۔۔۔مگر کیا کیجیے، فلم تو بس ایک فلم ہوتی ہے، ٹکٹ پر پیسے خرچ کرکے پاپ کارن کھاتے ہوئے دو تین گھنٹے اصل زندگی سے فرار، خواہ اس میں انسانوں کا قتل ہو یا انسانیت کا، بس اسے تیکنیکی طور پر نہایت مہارت کے ساتھ پیش کیا جانا چاہیے!

بلاشبہ پونے تین گھنٹے پر محیط “دی لیجنڈ آف مولا جٹ” بحیثیت ہدایت کار بلال لاشاری کے ہنر کا منہ بولتا ثبوت ہے، اس معیار کی ایکشن فلم کم از کم پاکستان میں پہلے کبھی نہیں بنی، فلم کے ایکشن sequences کسی طرح ہالی ووڈ سے کم نہیں، اس کی عکاسی، تدوین، صوتی اثرات، کاسٹیومز، آرٹ ڈائریکشن، بیک گراؤنڈ موسیقی اور لوکیشن کا انتخاب نہایت اونچے درجے کا ہے، اس کی کہانی تقریباً بے عیب اور مکالمے برجستہ ہیں۔ بلال لاشاری اور ان کی پوری ٹیم ایک شاندار فلم پیش کرنے پر بھرپور مبارک باد کے مستحق ہیں!
مگر مجھے اس فلم کے حوالے سے کچھ شدید اعتراضات بھی ہیں!
اس فلم کی کہانی کو بلال لاشاری نے اپنی perception کے مطابق تبدیل اور پیش کیا ہے مگر یہ پہلی مولا جٹ کے دو خوب صورت عناصر empathy اور انصاف سے یکسر عاری ہے۔ پہلی مولا جٹ فلم میں مولا جٹ کا دشمن کی بہن کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے بہن کہنا اور آخر میں جب مولا جٹ کے ہاتھوں نوری نت کا انجام محض آخری وار کے فاصلے پر تھا تو اسی منہ بولی بہن دارو کی مداخلت پر مولا جٹ کا نوری نت کی جان بخش دینا اور پھر نوری نت کا اپنی ٹانگ خود کاٹ کر انصاف کے تقاضے پورا کرنا۔۔۔دی لیجنڈ آف مولا جٹ میں نوری نت کے ہاتھوں میں رحم کی کوئی لکیر نہیں اور قتل اس کا شوق ہے!
دی لیجنڈ آف مولا جٹ barbarian اور gladiators دَور کی نمائندگی کرتی ہے جب کسی پولیس اور قانون کا تصور نہیں تھا۔ غالباً یہ اس دَور کے جٹ اور نت قبیلے کی کہانی ہے (نت دراصل جٹ قبیلے ہی کی ایک شاخ ہے) جب یہ دونوں راجپوت قبیلے مذہب اسلام کی بندشوں سے آزاد تھے (فلم کے پہلے ہاف میں مولا جٹ کی کثرت مے نوشی سے یہی تاثر اُبھرتا ہے)۔ بلال لاشاری کے ذہن میں یقیناً بین الاقوامی فلمی معیار اور مارکیٹ ہوگی جہاں شاید دی لیجنڈ آف مولا جٹ فلم اس شکل میں قابلِ قبول ٹھہرتی ہے!
مجھے اس فلم کی کاسٹنگ پر شدید اعتراض ہے۔ شدید محنت کے باوجود مرکزی کرداروں (سوائے حمزہ علی عباسی کے) فواد خان، ماہرہ خان، گوہر رشید اور دیگر پنجابی لہجہ اور تلفظ اپنانے میں ناکام رہے، حتی کہ پنجاب سے تعلق رکھنے کے باوجود حمیمہ ملک اور فارس شفیع بھی ٹھیٹھ پنجابی تلفظ قائم رکھنے میں کامیاب نہ ہوسکے!
جس دیسی فلم میں کوئی گانا نہ ہو مجھے وہ بغیر چاند کا آسمان لگتا ہے۔ کم از کم دو ایسے مواقع ایسے تھے جب دو گانے فلم کا حصہ بن سکتے تھے۔ میرے خیال میں ماہرہ اور فواد کا تاروں بھرے آسمان تلے سین اور آخر میں جشن کے سین فلم میں دو بہترین گانوں کی وجہ بن سکتے تھے۔ عین ممکن ہے یہاں بھی بلال لاشاری کے ذہن میں ہالی ووڈ فلم کا معیار تھا مگر کیا کروں، دیسی فلم بین ہوں سو تشنگی رہ گئی!
کیا میرے دیس کی مٹی سے جڑی ایسی کوئی کہانی نہیں جس پر بین الاقوامی معیار کی فلم بنائی جاسکے؟ کوئی ایک ایسی کہانی جو دنیا کو محبت، انسانیت، امن، برداشت، انصاف اور اتحاد کا پیغام دے سکے؟
خون خرابے، عداوت اور تشدد سے بھرپور فلم دی لیجنڈ آف مولا جٹ صرف ایک بار دیکھنے کا لائق ہے، وہ بھی اس لیے کہ مَیں پاکستانی سینما کا عروج پھر سے دیکھنے کا متمنی ہوں۔ کاش کوئی نئی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے اور انہیں نئے دَور کے تقاضوں میں ڈھال کر ہماری کلاسیک فلمیں ہیر رانجھا، آئینہ، بندش، ارمان، نیند اور انتظار بھی بنانے کے متعلق سوچے، کوئی سید نور کی سرگم جیسی منفرد میوزیکل فلم پھر سے بنائے۔ اگر پرانی فلموں کا ری میک نہیں تو کیا ہمارے فلم رائٹرز کے ذہن اتنے بانجھ ہوچکے ہیں کہ وہ بار بار دیکھے جانے کے قابل بالکل نئی فلمی کہانیاں تخلیق نہیں کرسکتے جو آج کے دَور سے مطابقت رکھتی ہوں؟ میرے پاس “دی لیجنڈ آف مولا جٹ” کے لیے دس میں سے پانچ نمبر ہیں!

 

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے