پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنے رہنماؤں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل اور ملک میں مسلح افواج کی تعیناتی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔ پارٹی نے پیر کو ایک درخواست دائر کی، جس میں فوج کو عام شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کی اجازت دینے کے قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کے فیصلے کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیا۔ پی ٹی آئی نے ملک میں مسلح افواج کی تعیناتی کو بھی چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ یہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔
درخواست پی ٹی آئی کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل عمر ایوب خان نے دائر کی تھی۔ درخواست میں استدلال کیا گیا ہے کہ این ایس سی کا شہریوں کے فوجی ٹرائل کی اجازت دینے کا فیصلہ غیر آئینی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ این ایس سی کوئی آئینی ادارہ نہیں ہے اور وہ ایسے فیصلے نہیں کر سکتا جس سے آئین کی خلاف ورزی ہو۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملک میں مسلح افواج کی تعیناتی آئین کی خلاف ورزی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کی رضامندی سے ہی مسلح افواج کو ملک میں تعینات کیا جا سکتا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حکومت کو مسلح افواج کی تعیناتی کے لیے پارلیمنٹ کی رضامندی حاصل نہیں ہے۔
یہ درخواست آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت دائر کی گئی ہے، جو سپریم کورٹ کو عوامی اہمیت کے حامل کسی بھی معاملے کا ازخود نوٹس لینے کی اجازت دیتی ہے۔ درخواست چیف جسٹس آف پاکستان کے نام دائر کی گئی ہے۔
پی ٹی آئی کا سپریم کورٹ میں جانا حکومت کے ساتھ پارٹی کی محاذ آرائی میں ایک بڑا اضافہ ہے۔ پی ٹی آئی اپریل میں اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد سے حکومت کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ پارٹی نے حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ امریکہ کی "کٹھ پتلی” ہے اور عمران خان کی حکومت گرانے کی سازش کر رہی ہے۔
حکومت نے پی ٹی آئی کے الزامات کی تردید کی ہے۔ حکومت نے کہا ہے کہ وہ جمہوریت کے لیے پرعزم ہے اور وہ آئین کی خلاف ورزی کرنے والی پی ٹی آئی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گی۔
توقع ہے کہ سپریم کورٹ پی ٹی آئی کی درخواست پر جلد سماعت کرے گی۔ امکان ہے کہ عدالت دونوں فریقین کے دلائل سنے گی اور پھر فیصلہ جاری کرے گی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے پاکستان کی سیاسی صورتحال پر بڑا اثر پڑ سکتا ہے۔