اسلام آباد، پاکستان – پاکستان کے الیکشن کمیشن (ای سی پی) نے ایک متفقہ فیصلے میں، سابق وزیر اعظم عمران خان کو "کرپٹ طرز عمل” کا مجرم کہا اور انہیں پارلیمنٹ کے لیے نااہل قرار دے دیا۔
خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پارٹی نے جمعہ کے اس فیصلے کو فوری طور پر مسترد کر دیا اور حامیوں سے سڑکوں پر آنے کی اپیل کر دی۔
پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم میں شامل فیصل فرید چوہدری نے میڈیا کو بتایا کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے سے پہلے تفصیلی فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے ایسا فیصلہ سنانے کے لیے کمیشن کے دائرہ کار پر سوال اٹھانے کی بات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس فیصلے کو ان کے دائرہ اختیار، اور مینڈیٹ کو چیلنج کریں گے۔
خان کے خلاف مقدمہ اس سال اگست میں پی ایم ایل این کے رکن کی جانب سے دائر کیا گیا تھا، اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ سابق وزیر اعظم نے توشہ خانہ سے غیر ملکی رہنماوں کے بھیجے گئے تحفے خریدے تھے مگر اثاثے ظاہر نہیں کیے تھے۔ یہ بات کمیشن کو جمع کرائے گئے اعلامیوں میں کہی گئی۔
ایک رہنماء نے ای سی پی کے فیصلے کو "شرمناک” اور پاکستانی عوام کے "منہ پر طمانچہ” قرار دیا۔
"یہ فیصلہ صرف عمران خان پر کیا گیا حملہ نہیں بلکہ یہ پاکستان کے آئین اور پاکستان کے عوام پر حملہ ہے”
خان، جنہیں اپریل میں پارلیمانی عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا، نے کمیشن پر تعصب کا الزام لگایا ہے۔
اپنی حکومت کے جانے کے بعد، خان ملک بھر میں ریلیاں نکالیں، اور قبل از وقت انتخابات کروانے کا کہہ کر رہے ہیں۔ ان کے بیانیے سے انہیں بڑی حمایت حاصل ہوئی ہے۔
نااہلی کا دورانیہ فوری طور پر واضح نہیں ہے۔ کمیشن کے سابق وفاقی سیکرٹری کنور دلشاد نے ایک نجی میڈیا چینل الجزیرہ کو بتایا ہے کہ ان کی رائے کے مطابق، اس فیصلے کا مطلب ہے کہ عمران خان کو "وقتی طور پر نااہل قرار دیا ہے"۔
"میرا خیال ہے کہ یہ فیصلہ پارلیمانی اجلاس کے لیے ہے، جو اگست 2023 تک چلے گا، اور وہ حال ہی میں ہونے اولے ضمنی انتخابات میں کامیابی ملنے کے باوجود اسمبلی میں نہیں بیٹھ سکیں گے”
دلشاد نے اور یہ کہا ہے کہ کمیشن کے پاس وسیع مینڈی ہوتا ہے، جو اس ادارے کو بدعنوانی سے متعلق کسی بھی کیس کی سماعت کرنے اور متعلقہ قصوروار کے فیصلے کی صورت میں اسکو ٹرائل کورٹ میں بھیجنے کی اجازت دیتا ہے۔
توشہ خانہ تنازعہ
توشہ خانہ کا تنازع گزشتہ سال اس وقت کھڑا ہوا جب یہ انکشاف ہوا کہ خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے توشہ خانہ سے تحائف خریدے اور بعد میں انہیں مارکیٹ میں بھی پر فروخت کیا۔
پی ٹی آئی، جو اس وقت حکومت کرنے والی پارٹی تھی، نے ابتدائی طور پر خان کو دیے گئے تحائف کی تفصیلات ظاہر کرنے سے ہچکچاہٹ کا اظہار کیا تھا، اور دعویٰ کیا تھا کہ اس سے پاکستان کے خارجہ تعلقات کو ممکنہ طور پر خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
توشہ خانہ ایک سرکاری محکمہ ہے جو 1970 کی دہائی میں اسلام آباد میں بنایا گیا تھا، جو حکمرانوں، سیاست دانوں، سرکاری اہلکاروں اور عہدیداروں کو مختلف سربراہان مملکت اور دیگر غیر ملکی معززین کی طرف سے دیے گئے تحائف کو جمع کرتا ہے۔
توشہ خانہ کے قوانین میں کہا گیا ہے کہ تمام تحائف محکمہ کو جمع کرائے جائیں۔ تاہم، اسکو بعد میں خریدا جا سکتا ہے. اگرچہ تحائف کی فروخت بالکل غیر قانونی نہیں ہے، لیکن بہت سے لوگ اس عمل کو اخلاقی طور پر ٹھیک نہیں سمجھتے۔
خان کے خلاف مقدمے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عمران خان کو ان کے وزیر اعظم کے عہدہ کے پر مختلف اشیاء پر مشتمل کل 58 ڈبے ملے تھے۔
پی ایم ایل این کے کارکن اور درخواست گزار محسن نواز رانجھا نے یہ کہا کہ عمران خان کو قانونی طور پر ہر ہر مالی سال کے اختتام پر اپنے، اپنی اہلیہ اور اپنے زیر کفالت افراد کے اثاثے الیکشن کمیشن کو ظاہر کرنے کی چاہیئے۔
ریفرنس میں یہ بھی کہا گیا کہ ایسا کرنے میں ناکامی نے خان کو "بے ایمان” قرار دیا اور اس طرح انہیں پاکستانی آئین کے تحت تاحیات پارلیمانی سیاست میں حصہ لینے سے نااہل قرار دیا۔
خان پر یہ بھی الزام تھا کہ انہوں نے توشہ خانہ سے خریدے گئے تحائف کو "جان بوجھ کر” چھپایا، لیکن بعد میں کمیشن کو تفصیلات بتائے بغیر، ان تحائف کو فروخت کرنے کا اعتراف کیا
پانچ سال پہلے ایک بڑے تاریخی فیصلے میں، سپریم کورٹ نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف اور پی ایل ایم این کے سربراہ کو "بے ایمان” قرار دے دیا تھا، جس پر انہیں عہدے سے ہٹایا گیا اور انکو تاحیات پارلیمانی سیاست کرنے سے روک دیا گیا تھا۔
لاہور میں مقیم ایک سیاسی تجزیہ کار مہمل سرفراز نے بھی کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے نے خان صاحب کو سیاسی طور پر بے حد نقصان پہنچایا ہے۔
"ان کی شہرت ایک ایماندار آدمی کی رہی لیکن اب ‘کرپٹ پریکٹس‘ کا ٹیگ ہمیشہ ان کے ساتھ ہی رہے گا۔
مہمل سرفراز نے کہا ہے کہ "جب نواز شریف کو بھی نااہل کیا گیا تھا تو پی ٹی آئی والوں نے جشن منایا تھا کیونکہ اس کا انہیں فائدہ پہنچا۔
"اب یہ سوال بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا خان پارٹی سربراہ بھی رہ سکتے ہیں یا پھر نہیں، کیونکہ نواز شریف کو بھی ان کی نااہلی کے بعد اپنی پارٹی کی قیادت جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
ای سی پی نے فیصلے میں اس کیس کو ٹرائل کورٹ میں بھیج دیا تاہم، اگر خان صاحب عدالت میں اس طرح بدعنوان طریقوں کا مجرم پایا جاتا ہے اور ثابت ہو جاتا ہے تو اسے تین سال تک کی قید بھی ہو سکتی ہے۔