پاکستان میں مشہور ٹی وی شخصیت اور کراچی سے پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت کراچی میں وفات پا گئے ہیں۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے ذریعے اُنھیں طبیعت کی خرابی پر ہسپتال لے جایا گیا اور ڈاکٹروں کے مطابق جب وہ ہسپتال لائے گےوہ مردہ حالت میں تھے۔ پولیس اس خبر کے بعد گھر پہنچی۔ اس موقع پر حکام کا کہنا تھا اُن کی موت کی یقینی وجہ فی الحال نہیں بتائی جا سکتی اور تعین کے لیے پوسٹ مارٹم کروایا جائے گا۔ میت کو کراچی کے جناح ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
چھیپا کے اہلکار نے نجی ٹی وی چینل سے بات کی جنھوں نے عامر لیاقت کو ابتدائی طبی امداد فراہم کی اس نے کہا کہ ’جس وقت میں اندر پہنچا عامر لیاقت صوفے پر پڑے ہوئے تھے، اور ان کی حالت ناساز تھی لیکن سانسیں چل رہی تھیں۔‘ انھوں نے کہا ’تقریباً ایک بجے کا وقت تھا، انھیں جناح ہسپتال لے کر جا رہے تھے کہ راستے میں ہی کال آئی کہ انھیں آغا خان ہسپتال لے جایا جائے۔اور یہ بات بھی یاد رہے کہ موصوف حالیہ دنوں میں ہی اپنی تیسری شادی کے حوالے سے پیدا ہونے والےمشہور تنازعے کی زد میں تھے، پھر انھوں نے ملک چھوڑنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ ان کی وفات کی وجہ سے قومی اسمبلی کا آج ہونے والا اجلاس کل شام پانچ بجے تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کے اعلیٰ حکومتی حکام نے بھی انکی وفات پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
عامر لیاقت کا سیاسی سفر
اس صدی کے شروع میں مذہبی ٹی وی کے پروگرام ’عالم آن لائن‘ سے شہرت پانے والے ڈاکٹر عامر لیاقت نے 2018 میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا اورجیت کر قومی اسمبلی میں ایم این اے نشست حاصل کی تھی۔
عامر لیاقت نے 2002 کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست حاصل کی اور وہ پرویز مشرف کے دور حکومت میں مذہبی امور کا وزیر رہے۔
جولائی 2007 میں انہوں نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا ، یہ استعفیٰ اس وقت سامنے آیا جب انھوں نے انڈیاکے ایک مصنف سلمان رشدی کو نبی ﷺ کی شان میں گستاخی پر ٹی وی پروگرام میں ’واجب القتل‘ قرار دیا ۔ اس کے بعد اگلے سال یعنی 2008 میں ایم کیو ایم نے عامر لیاقت کو پارٹی سے نکالنے کرنے کا اعلان کیا تھا۔
عامر لیاقت نے ایک بہت لمبے عرصے تک سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی اور پھر 2016 میں موصوف ایم کیو ایم کے سربراہ کی متنازع تقریر سے چند روز قبل دوبارہ سرگرم ہوئے۔
22-اگست 2016 جب کو رینجرز نے ڈاکٹر فاروق ستار اور خواجہ اظہار الحسن کو حراست میں لے لیا تو عامر لیاقت کو بھی اسی روز گرفتار کیا تھا پھر رہائی کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کی پہلی پریس کانفرنس میں بھی وہ موجود تھے لیکن پھر بعد میں دوبارہ غیر متحرک ہو گئے تھے۔
ان کی تحریک انصاف میں شمولیت کی خبریں 2017 میں سامنے آئی بعد میں وہ پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔ عین شمولیت کے وقت بھی عامر لیاقت کو پی ٹی آئی کے حامیوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
2018 میں عامر لیاقت نے عمران خ ساتھ ایک پریس کانفرنس میں پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا تو انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’میرا آخری مقام پی ٹی آئی ہے‘ پھر وہ 2018 کے انتخابات میں متحرک ہوئے اور این اے 245 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
عامر لیاقت پاکستانی میڈیا میں کیسے آئے؟
عامر لیاقت پاکست ہر بڑے نیوز چینل سے وابستہ رہے اور پروگرام زیادہ تر تنازعات سے بھرپور رہے جس کےبہت ذیادہ اثرات سیاسی کریئر پر بھی پڑے۔
جنگ پبلیکیشن نے جب اپنے نیوز چینل جیو کا آغاز کیا تو عامر لیاقت بھی بطور نیوز کاسٹر سامنے آئےاور اس کے بعد انھوں نے عالم آن لائن کے عنوان سے ایک مذہبی پروگرام شروع کیا۔
انھوں نے احمدی کمیونٹی کو غیر مسلم قرار دیتے ہوئے ان کا قتل جائز قرار دیا تھا، اور پھر سندھ میں احمدی کمیونٹی کے دو افراد ہلاک ہوئے، اس بیان پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی شدید تنقید کی تھی۔
جہاد اور خودکش حملوں کے حوالے سےبھی متنازع بیانات پر کافی مذہبی حلقے ان سے نالاں تھے۔ 2005 میں بھی جب وہ جامعہ بنوریہ کے استاد کی ہلاکت پر تعزیت کے لیے پہنچے تھے تو طلبہ نے اُنھیں یرغمال بنا لیا تھا۔
رمضان کی نشریات کے دوران وہ کچھ میڈیا مالکان کے ہاں، ہاٹ کیک تصور کیے جاتے تھے۔ جیو پرخصوصی رمضان ٹرانسمیشن کے پروگرام میں انھوں نے چھیپا فاؤنڈیشن کے سربراہ رمضان صاحب سے لاوارث بچہ لے کر ایک جوڑے کو دیا تو بھی انھیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
انعام گھر پروگرام میں بھی انکے بعض جملے اور حرکات وسکنات کو ناپسندیدگی سے دیکھا جاتا تھا، پاکستان الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی نے 2016 میں اس پروگرام کو تین روز کے لیے بند کر دیا تھا۔
بول چینل میں ’ایسا نہیں چلے گا‘ پروگرام میں بھی انھوں نے انسانی حقوق کی صحافیوں ،تنظیموں اور بلاگرز پر ذاتی حملے کیے، پیمرا نے شہریوں کی شکایات پر یہ پروگرام بھی بند کر دیا اور پھر انھیں عوام سے معذرت کی ہدایت جاری کی تھی ۔