fbpx
ادبی خبریں

حرف کار کی ایک یاد گار ملاقات

حرف کار

یو کے میں مقیم باصر کاظمی صاحب، اردو غزل کے منظر نامے پر اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں ۔ ان کی اسلوبی اور حسیاتی جمالیات انھیں ایک اہم غزل گو کے درجے پر فائز کرتی ہے ۔ عابد رشید صاحب شکاگو سے آئے ہوئے ہیں اور وہاں کے ادبی حلقوں میں بہت فعّال اور نمایاں ہیں ۔ ان کی شعری اپج ان کے تخلیقی امکانات کا سراغ دیتی ہے ۔ پرتگال میں مقیم جواد شیخ صاحب نئی غزل کی آبرو ہیں اور ان کے کیسہء تخلیق میں بیش بہا شعری ذخیرہ موجود ہے ۔ ان کے چمن زارِ سخن سے گزرنا مابعد جدید رویوں اور معنوی راہداریوں کے اَسرار سے گزرنے کے مترادف ہے ۔ عمران سیفی صاحب ان دنوں ڈنمارک میں سکونت پذیر ہیں اور نظم و غزل کے عمدہ شاعر ہیں ۔

نامور حرف کار
نامور حرف کار

حرف کار(عالمی) کے روحِ رواں جناب سعود عثمانی نے بیرونِ ملک سے تشریف لائے ہوئے ان چاروں مہمانانِ گرامی کے اعزاز میں ایک غیر رسمی محفل کا انعقاد کیا ۔ آج صبح ساڑھے دس بجے مصالحہ والا ریسٹورنٹ (سابقہ قصر نور ) میں مہمانانِ گرامی کے اعزاز میں ایک پُر لذت اور عالیشان برنچ کا اہتمام کیا گیا ۔ محفل میں حرف کار کے تمام منتظمین محترمہ ڈاکٹر عظمیٰ سلیم، محترمہ صائمہ آفتاب، محترم نوید الرحمن غازی، محترمہ ڈاکٹر عنبرین منیر اور سعود عثمانی شریک ہوئے ۔ ہلکی پھلکی گپ شپ، ادبی چٹکلوں اور مختلف موضوعات پر گفتگو نے محفل کو خوب صورت اور یادگار بنا دیا ۔ آخر میں غیر رسمی طور پر شرکائے محفل سے ان کا کلام سنا گیا ۔ ذیل میں چند منتخب اشعار :

اعمال کو پرکھتی ہے دنیا مآل سے
اچھا نہ ہو ثمر تو ہے گویا شجر خراب

منزل تو اک طرف رہی، اتنا ضرور ہے
اک دوسرے کا ہم نے کیا ہے سفر خراب

کبھی لب بستگی مناسب ہے
اور کبھی عرضِ مدعا ہے ٹھیک

ایک ہی دوست رہ گیا تھا مرا
وہ بھی دُشمن سے جا مِلا ہے ٹھیک

 باصر کاظمی

ہمیں جو صبح کا منظر دکھائی دیتا ہے
کسی کی شام کے اندر دکھائی دیتا ہے

ہم اس لئے بھی نہ نزدیک آسکے عابدٓ
کہ ہم کو دور سے بہتر دکھائی دیتا ہے

یہ کون ہے جو زمیں پر خدا بنا ہوا ہے
ہمارے ساتھ پھر اک اور سانحہ ہوا ہے

وہ کہہ رہا تھا بھلا کر ترا بھلا ہوگا
سنا ہے صرف اسی شخص کا بھلا ہوا ہے

عابد رشید

ایسا مت کہہ کہ یہاں تُو غلطی سے آیا
دل وہ حجرہ ہے جہاں غم بھی خوشی سے آیا

خامشی آئی دریدہ دہنی سے تیری
دیکھنا مجھ کو تری کم نظری سے آیا

فتح مندی کا جو اِک رنگ ہے اُس چہرے پر
سرخروئی سے نہیں ۔۔۔۔۔ دل شکنی سے آیا

ورنہ راہیں تو مری سمت کئی آتی تھیں
اٌس کو عجلت تھی سو بے راہ روی سے آیا

اِس کہانی میں ترا ذکر بھی آیا تو سہی
کیا ہوا جو مری کردار کُشی سے آیا

اب کوئی روک رہا ہو تو میں رک جاتا ہوں
مجھ میں یہ وصف غریب الوطنی سے آیا

موت کا خوف بڑا خوف ہے لیکن جواد
جو مجھے اُسکی توجہ میں کمی سے آیا

جواد شیخ 

زندگی کا پیچھا کرنا ہے مجھے
لوٹ آوں گا اگر زندہ رہا

بس ترا غم دل کے ملبے کے تلے
معجزاتی طور پر زندہ رہا

عمران سیفی 

پڑے ہیں خاک پر لاشے تمھارے
کلیجے کیوں نہیں پھٹتے تمھارے

یہ پانی تو نہیں ہے، آئنہ ہے
دکھاتا ہے ہمیں چہرے تمھارے

کہیں ملتی نہ تم کو خشک مٹی
جنازے یوں ہی رہ جاتے تمھارے

تم اپنی بد نصیبی جانتے ہو؟
تمھارے بھی نہیں اپنے تمھارے

تمھیں کچے گھروں کی بددعا تھی
تمھی پر آ گرے ملبے تمھارے

سبھی کچھ بھولنا ممکن ہے، لیکن
یہ کالے بدنما چہرے تمھارے

بالآخر ایک دن آئے گا وہ بھی
کہ ہوں گے فیصلے میرے تمھارے

سعود عثمانی

غم کا سامان تھا ہمارے بیچ
ڈھیر نقصان تھا ہمارے بیچ

زندگی منہ بسورے پھرتی تھی
خواب ہلکان تھا ہمارے بیچ

ہم نے اس پر کبھی نہ دھیان دیا
ایک امکان تھا ہمارے بیچ

اس تعلق کی لاج رہ جاتی
یہ تو آسان تھا ہمارے بیچ

بس اکٹھے دکھائی دیتے رہے
اور کیا مان تھا ہمارے بیچ

صائمہ آفتاب

یہ ” کُن ” کے پیچھے کوئی بے پناہ طاقت ہے
وگرنہ ایسے کبھی کائنات بنتی نہیں

یہاں تو عجز کی مٹی میں پھول کھلتا ہے
دکھاوے والی عقیدت سے نعت بنتی نہیں

افق کے پار بھڑکتے الاؤ جیسا ہے
یہ آفتاب مرے دل کے گھاؤ جیسا ہے

یہ مشعلوں سے جو روشن ہے نیلگوں خیمہ
یہ دشتِ شب میں ہمارے پڑاؤ جیسا ہے

نوید الرحمان غازی

نہیں کچھ اور تو اپنے قریں پہنچ سکتے
جہاں ہماری پہنچ ہے، وہیں پہنچ سکتے

ہمیں کہیں نہ پہنچنے دیا تساہُل نے
بدن نہ ہوتا تو شاید کہیں پہنچ سکتے

کرن سے تیز ہے رفتار بے خیالی کی
ہماری گَرد کو تارے نہیں پہنچ سکتے

پہنچ میں ہوتی رسائی بھی، نارسائی بھی
کہیں پہنچ نہیں سکتے، کہیں پہنچ سکتے

شاہد ماکلی 

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے