آج جگر مراد آبادی کا یومِ وفات ہے۔
جگر کا نام علی سکندر تھا۔ یو پی کے شہر مرادآباد میں 6 اپریل 1898ء کو پیدا ہوئے ۔ 9 ستمبر 1960ء کو گونڈہ میں انتقال ہوا .گونڈہ میں ایک رہائشی کالونی کا نام آپ کے نام پر ’’جگر گنج ‘‘ رکھا گیا ہے .وہاں آپ کے نام پر جگر میموریل انٹر کالج بھی ہے۔
جگر مراد آبادی کے کچھہ شعر ۔۔۔
ہجر سے شاد، وصل سے ناشاد
کیا طبیعت جگر نے پائی ہے
.
جہلِ خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساں، بڑھ گئے سائے
ضبط محبت شرط محبت
جی ہے کہ ظالم امڈا آئے
۔
بے جگر سُونا پڑا تھا مدتوں سے میکدہ
پھر وہ دریا نوش رندِ تشنہ کام آ ہی گیا
۔
عشق وہ تشنہ کام ہے کہ جسے
زہر کا گھونٹ بھی ہے آبِ حیات
۔
ہائے وہ دردِ دل کہ جگر
کچھہ نہیں کھلتا جس کا سبب
۔۔
زمانے پر قیامت بن کے چھا جا
بنا بیٹھا ہے طوفاں در نفس کیا
۔
لہو آتا نہیں کھنچ کر مژہ تک
نہ آئے گی بہار اب کے برس کیا؟
۔۔
چھیڑا تھا جسے پہلے پہل تیری نظر نے
اب تک ہے، وہ اک نغمۂ بے ساز و صدا یاد
۔
شورشِ درد، الاماں! گردشِ دہر، الحذر!
بہکے ہوئے سے قافلے ، سہمی ہوئی سی رہ گذر
۔
تکلم میں بے ربط سا اک تسلسل
خموشی میں حسنِ بیاں اول اول
۔
لاکھہ رنگیں بیانیوں پہ مری
ایک سادہ جواب کا عالم
۔
وہ سماں آج بھی ہے یاد جگر
ہاں مگر جیسے خواب کا عالم
۔
میرا کمالِ شعر بس اتنا ہے اے جگر
وہ مجھ پہ چھا گئے میں زمانے پہ چھا گیا
۔
تجھے اے جگر! ہوا کیا کہ بہت دنوں سے پیارے
نہ بیانِ عشق و مستی نہ حدیثِ دلبرانہ
۔
کیا کشش حسن بے پناہ میں ہے
جو قدم ہے اُسی کی راہ میں ہے
۔
مے کدہ میں نہ خانقاہ میں ہے
جو تجلی دلِ تباہ میں ہے
۔
کسی صورت نمودِ سوزِ پنہانی نہیں جاتی
بُجھا جاتا ہے دل چہرے کی تابانی نہیں جاتی
۔
اگر شامل نہ در پردہ کسی کی آرزو ہوتی
تو پھر اے زندگی! ظالم نہ میں ہوتا نہ تو ہوتی
۔
شکن کاش پڑ جائے اپنی جبیں پر!
پریشاں بہت ہیں ستم ڈھانے والے
۔
آئے تھے دل کی پیاس بجھانے کے واسطے
اک آگ سی وہ اور لگا کر چلے گئے
۔
ان سے ملنے کو تو کیا کہیے جگر
خود سے ملنے کو زمانہ چاہیے
۔
پھر جی یہ چاہتا ہے کہ بیٹھے رہیں جگر!
اُن کی نظر سے بھی انہیں پنہاں کیے ہوئے
۔
طنزا” وہ دیکھتے ہیں مگر دیکھتے تو ہیں
یہ کام تو کیا دلِ ناکردہ کار نے
۔
شرما گئے ، لجا گئے، دامن چھڑا گئے
اے عشق! مرحبا! وہ یہاں تک تو آ گئے
۔
خیر ہے زاہد، یہ کیسا انقلاب آیا کہ آج
تیرے ہرانداز میں اک کیفِ رندانہ بھی ہے
۔
ننگِ مے خانہ تھا میں ساقی نے یہ کیا کر دیا؟
پینے والے کہہ اُٹھے "یا پیرِ میخانہ” مجھے
۔
یہ ہوائیں، یہ گھٹائیں، یہ فضائیں، یہ بہار
محتسب آج تو شغلِ مے و پیمانہ سہی
۔
جنوں کے سخت مراحل بھی تیری یاد کے ساتھ
حسین حسیں نظر آئے جواں جواں گزرے
۔
مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا
ٹوٹ کر دل اُسی سے ملتا ہے