fbpx
تراجمترجمہ افسانہ

کیوبن سپر ہیرو (افسانہ)، مصنف: خورخے انریکے لیج (کیوبا)

اردو قالب: محمد فیصل (کراچی)

کیوبن سپر ہیرو

خورخے انریکے لیج (Jorge Enrique Lage)، پیدائش: 1979ء (ہوانا)، اگرچہ بائیو سائنسز میں اعلیٰ ڈگری کے حامل ہیں تاہم انھوں نے ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے۔ وہ ایک ادبی جریدے اور پبلشنگ ہاؤس کےمدیر و منتظم ہیں۔ سائنس فکشن ان کی پسندیدہ صنف ہے۔

ذیل میں خورخے انریکےلیج کا ہسپانوی زبان میں لکھا  افسانہ Epílogo con superhéroe y Fidel   کا اردو ترجمہ بعنوان "کیوبن سپر ہیرو” پیش کیا جارہا ہے۔ جس کا اردو ترجمہ انگریزی ترجمے Epilogue with Superhero and Fidel کے ذریعے  محمد فیصل (کراچی)  نے کیا ہے۔

Cuba in Splinters: Eleven Stories from the New Cuba ("کیوبن سپر ہیرو” کا انگریزی ترجمہ اس کتاب میں شایع ہوا۔)

کیوبن سپر ہیرو (افسانہ)

گاڑی فراٹے بھرتی شہر سے باہر نکل آئی۔ ہائی وے پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ دور دور تک ویرانی کا راج تھا۔ کبھی کبھار کوئی فیکٹری نظر آجاتی وگرنہ سڑک کے دونوں طرف کچھ نہ تھا۔ میں نےکار کا ریڈیو چلایا تو ایک سٹیشن سے گانے نشر ہو رہے تھے۔ سفر کے آخری چند میل موسیقی سے محظوظ ہوتا رہا۔

اب میں سڑک سے اُتر کر کچے راستے پر ہوتا ہوا اپنی منزل تک پہنچ گیا۔ میں نے اگلی سیٹ پر پڑا وہ نقشہ اٹھایا جس کے مطابق میں ٹھیک اس جگہ پہنچ گیا جہاں ایک Xبنا ہوا تھا۔گاڑی جس عمارت کے سامنے آکر رُکی وہ کبھی ایک گودام تھا۔ اس کی بیرونی دیواروں پرگولیوں کے نشان تھے۔ باہر چند ایک درخت تھے جب کہ ایک طرف کچرے کا ڈھیر پڑا تھا۔ میں ٹیڑھے میڑھے دروازے سے داخل ہوا۔ چھت سے زنجیریں لٹک رہی تھیں۔ ٹوٹی کھڑکیوں سے روشی کی شعاعیں داخل ہو رہی تھیں۔ ایک آواز آئی۔

"ادھر آجاؤ!”

میں آواز کی سمت بڑھا۔ وہ ٹائروں پر براجمان تھا۔ اس کے ہاتھ میں اسی طرح کا نقشہ تھا جس کے سہارے میں یہاںپہنچا تھا۔ میں نے استفسار کیا

’’ویلاخکو!‘‘

اس نے جواب نہ دیا۔ خاموشی سے ماچس جلائی اور کاغذ کو آگ لگادی۔اس نے بس اتنا کہا۔

’’میں اس نام کے کسی آدمی کو نہیں جانتا‘‘!

اب میں نے پہلے سے طے شدہ لفظ دہرائے۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔ اس نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

’’تم یقین نہیں کرو گے کہ میری تلاش میں کون نہیں ہے۔ میں امریکی یا کیوبن ایجنسیوں کی بات نہیں کر رہا۔ انھوں نے مجھے پکڑنے کے لیے مجھ جیسوں سے رابطہ کیا ہوا ہے۔ ایک بولیوین ہے جو اپنی انگلیوں سے لیزر شعاعیں نکال سکتا ہے۔ سلواڈور سے تعلق رکھنے والا خطرناک آدمی جو مختلف چیزوں سے توانائی کشید کرکے کسی بم کی طرح تباہی پھیلا سکتا ہے۔

ایک لڑکا تو ایساہے کہ جس کےپر ہیں، اس کی طاقتیں ابھی تک مخفی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک گروہ ایسا بھی ہے جو مجھے اپنے ساتھ شامل کرنا چاہتا ہے۔ اس گروپ کا لیڈر کیپٹن ایڈاہوہے۔ اس گروپ کاایک رکن منہ سے آگ نکال سکتا ہے۔ ایک ٹیلی پیتھی کر سکتا ہے ۔ وہ دنیا کو بچانے کے مشن پر نکلے ہیں۔ ‘‘

ویلاخکو نے اک سگریٹ سلگائی اور پوچھا۔

’’کیا تم تیار ہو؟‘‘

میں نے فوراََ اس کے کالر پر چھوٹا مائیک لگایا، کیمرہ صحیح زاویے پر رکھا اور ریکارڈنگ شروع کردی۔

اسے ٹھیک سے یاد نہیں کہ یہ طاقت اسے کیسے کب ملی، مگر اسے اس بات کا یقین تھا کہ اس کا کچھ نہ کچھ تعلق روس میں ہونے والے حادثے سے ضرور ہے۔ کیوبا میں اس نے وزارتِ داخلہ کی اکادمی میں اپنی تربیت اعلیٰ نمبروں سے مکمل کی۔اس نے سپیشل سروسز گروپ میں شمولیت اختیار کی اور تربیت کے دوران پہلی پوزیشن حاصل کی۔

اس کی قابلیت اور ریکارڈ دیکھتے ہوئے اسے روس میں اعلیٰ تربیت کے لیے بھیجا گیا۔ روس میں اسے دوردراز ویرانے میں واقع کسی جگہ بھیجا گیا۔ پہلے تو اسے لگا کہ اسے کسی خلائی سٹیشن پر بھیجا گیا ہے مگر ایک آدھ دن میں اسے اندازہ ہوگیا کہ یہ عمارت زمین پر ہی ہے، البتہ اس کی ساخت عام فوجی عمارتوں سے ہٹ کر تھی۔ کئی ہفتے گزر گئے اس کی تربیت شروع نہ ہوئی۔ روسی اسے اس عمارت میں بھیجنے کے بعد بھول چکے تھے۔ اس عمارت میں وہ اکیلا غیر ملکی تھا۔

روسی فوجی اس سے اشاروں میں بات کرتے یا بس اسے دیکھ کر مسکرا دیتے۔ وہاں اس کے صرف دو کام تھے۔ تاش کھیلنا اور ووڈکا پینا۔ ہفتے میں ایک یا دوبار وہ باقی فوجیوں کے ساتھ مل کر کچھ سامان وصول کرتے یا کچھ ڈبوں میں بند کرکے ایک جگہ رکھ آتے۔کسی کو کچھ اندازہ نہ تھا کہ وہ کیا کررہے ہیں؟

ایک دن وہ حادثہ رونما ہوا جس کے بعد سب بدل گیا۔ اس دن وہ تہ خانے میں واقع اپنے کمرے میں سورہا تھا کہ اس کی آنکھ کھُل گئی۔ وہ دھماکہ تھا یا گیس وغیرہ لیک ہو رہی تھی یا کوئی کیمیکل پھیل رہا تھا۔ کسی کو کچھ اندازہ نہ ہوسکا۔ وہ باہر نکلا۔ عمارت میں الارم کی آواز گونج رہی تھی۔چاروں طرف ابتری کا عالم تھا۔

چند سپاہی ایک طرف بھاگے ، وہ بھی انھی کے ساتھ لپکا۔ ایک دروازہ کھولتے ہی اسے شدید گرمی کا احساس ہوا اوروہ بے ہوش ہو گیا۔ اس کی آنکھ کھُلی تو اس نے خود ایک ہوائی جہاز میں پایا۔ جہاز کی منزل ماسکو تھی۔ پائیلٹ نے اسے مسکرا کر دیکھا۔ ماسکو پہنچ کر ایک ہسپتال میں اس کا معائنہ کیا گیا۔ کچھ دنوں بعد اسے کیوبا بھیج دیا گیا۔

جب وہ واپس پہنچا تو متعلقہ وزارت کو سمجھ نہ آئی کہ اس کا کیا کریں۔ اسے ایک ماہ چھٹی دی گئی، اس کے بعد اس چھٹی میں اضافہ کردیا گیاا ور آخر چار ماہ بعد اسے وزیر دفاع کے ذاتی محافظ کی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔اس نے اپنے فرائض اتنی عمدگی سے سر انجام دیے کہ جلد ہی اسے صدر محترم کا ذاتی محافظ مقرر کردیا گیا۔ اس تقرری کے بعد ہی اس نے اپنی طاقت دریافت کی۔

’’اس طاقت کےاستعمال کے دوران تم کیا محسوس کرتے ہو؟‘‘

’’کچھ بھی نہیں، یہ بس ایسے ہی ہے جیسے آپ اپنے ہاتھ یا پیر کو حرکت دیتے ہیں۔ آپ اپنی مرضی سے اسے جہاں چاہے موڑ دیں‘‘۔

’’مگر جب تم نے پہلی بار یہ طاقت استعمال کی تو۔۔۔۔‘‘

مجھے کچھ خاص فرق محسوس نہ ہوا۔

اس پر یہ راز عیاں ہوا کہ وہ وقت روک سکتا ہے۔ وقت ، جس کو وہ اتنی آسانی سے روک لیتا تھا جیسے اپنے جسم کے کسی حصے کو حرکت دینا۔ شروع میں تو وہ بے مقصد وقت روک لیتا، مگر جلد ہی اس نے اپنی طاقت پر اختیار حاصل کر لیا۔ اس کے لیے وقت روکنا ایسا ہی تھا جیسے سانس لینا۔وقت روکنے کا مطلب یہ تھا کہ ہر چیز، ہر جان دار اوربے جان چیز ساکت ہو جاتی۔ گھڑیاں، گاڑیاں۔انسان، جانور، پرندے، درخت سے گرتا پتا، بارش، ہوا ۔ویلاخکو کےسواہر شے رُک جاتی۔ وہ جدھر چاہتا چلا جاتا۔

حقیقت ایک تصویر کا روپ دھار لیتی اور وہ جیسے اس تصویر میں داخل ہوجاتا۔ وہ مختلف چیزوں کو ہاتھ لگا سکتا تھا، کسی بھی عمارت میں داخل ہو سکتا تھا، غرض وہ جو چاہتا کر سکتا تھا۔ یہ وقفہ اس کی طاقت کامرکز تھا اور وہ بالکل ایک آقا کی طرح جب چاہتا رکنے کا بٹن دبا دیتا اور جب چاہتااسے رواں کر دیتا۔

اس نے اپنی اس صلاحیت کو کام یابی سے چھپائے رکھا مگر ایک دن یہ راز کھُل ہی گیا۔یہ سن 91 کی بات تھی۔ صدرِ محترم ایک مجمع سے خطاب کر رہے تھے۔ ویلاخکو ان سے چند قدم کے فاصلے پر چوکنا کھڑا تھا۔ تقریر ختم ہوئی۔ صدر کچھ قدم پیچھے ہٹے۔ ویلاخکو آگے بڑھا ۔ اس نے مجمع میں کچھ غیر معمولی حرکات محسوس کیں۔ اس کی چھٹی حس نے کسی گڑ بڑ کا اشارہ کیا اور اس نے فوراً  صدر محترم کا بازو پکڑا اور وقت روک دیا۔ ہر چیز ساکت ہوگئی۔

لوگ تالیاں بجاتے بجاتے جیسے جم سے گئے۔ یہ سب کچھ اتنی جلدی میں ہوا کہ ویلاخکو خود پر قابو نہ رکھ پایا۔ منجمد مجمعے میں اس نے غور سے اس جگہ دیکھا جہاں اسے گڑبڑ محسوس ہوئی، مگر وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ اچانک اسے صدر کی آواز سنائی دی

’’یہ تم نے کیا ہے؟‘‘

وہ اُچھل کر مڑا۔

’’کیا صدر محترم؟‘‘

’’وقت روکنا۔‘‘

’’میں ۔۔وہ۔۔۔جی۔۔۔‘‘

اس نے یہ کہا اور وقت رواں کر دیا۔ کچھ وزرا صدر کی طرف بڑھے اور وہ پیچھے ہٹ گیا۔ اس کے دماغ میں آندھیاں چل رہی تھیں۔ صدر نے یہ کیسے جان لیا؟ کیا ان کے پاس بھی کچھ طاقتیں ہیں؟ پھر اس نے ٹھنڈے دماغ سے غور کیا تو اسے یاد آیا کہ جب اس نے وقت روکا تو اس کا ہاتھ صدر کے بازو پر تھا۔ تو اس طرح انھیں پتا چلا۔ ہائے بد قسمتی۔

حسب توقع صدر نے اسے اپنے دفتر طلب کیا۔

’’مجھے اپنےشعبدے کے بارے میں بتاؤ‘‘!

اس نے سب کچھ بتادیا۔ اس نے حلفاََ یہ بھی کہا کہ اس نے کسی برے مقصد کے لیے اپنی طاقت کبھی استعمال نہیں کی۔وہ وقت صرف اس وقت روکتا تھا جب تھکاوٹ اس کی برداشت سے باہر ہو جاتی اور وہ کچھ دیر اپنی نیند پوری کرنا چاہ رہا ہوتاتھا۔ اس نے یہ وضاحت بھی کی کہ اس نے اپنی طاقت برائی کے کسی کام میں استعمال نہیں کی اور نہ ہی کسی کو اس یہ راز پتا ہے۔ صدرِ محترم وہ پہلے انسان ہیں جنھیں اس کی اس صلاحیت کا پتا چلا ہے۔ ویلاخکو اب تک یہ بھی نہ جان پایا تھا کہ کسی اور کو چھونے سےکیا ہوتا ہے۔

صدر محترم سکون سے اس کی باتیں سنتے رہے۔ وہ چپ ہوا تو بولے

’’ویسا دوبارہ کرو‘‘!

ولاخکو نے ان کے بازو پر نرمی سے ہاتھ رکھا ۔ دونوں محل کے عقبی حصے تک گئے ۔صدر بچوں کی سی حیرت اور خوشی کے تاثرات لیے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔

’’اور اب تم جب چاہو وقت کو اپنی قید سے آزاد کرسکتے ہو‘‘۔

’’جی۔۔ نہیں۔۔ جب آپ کہیں جناب!‘‘

صدر محترم دیر تک سوئمنگ پول دیکھتے رہو۔

’’یہ تو وقت سے اضافی وقت کشید کرنا ہے!‘‘

٭

ویلاخکو آہستگی سے بات کر رہا تھا۔ اس کی آواز میں اداسی تھی۔ بات کرتے کرتے وہ لمبے وقفے لے رہا تھااور مجھے کیمرہ روکنے کا کہہ رہ تھا۔

’’تم یہ یاد رکھو کہ میں تمھیں ہر چیز نہیں بتائوں گا‘‘۔

میں نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ آج وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرسکتا ہے۔ اس نے صرف سرہلایا ۔ اس کا چہرہ پتھرا یا ہوا تھااور وہ اپنی عمر سے زیادہ بوڑھا لگ رہا تھا۔

’’مستقبل کا سوچو، نئی کیوبن نسل کا سوچو۔ انھیں سچ جاننے کا حق ہے‘‘۔

’’نہیں ، کچھ باتیں تو میرے ساتھ ہی قبر میں جائیں گی۔ کچھ راز ایسے ہیں جو میں کسی کو بھی نہیں بتا سکتا۔ میں اپنی تمام ناکامیوں سے سبق سیکھتا ہوں اور اپنی ذمہ داریوں سے بھی آگاہ ہوں۔ آج کی نسل ہمارے دکھ کیا جانے۔ مجھے ان کی کوئی پروا نہیں۔‘‘

٭

ایک دن صدر نے کہا کہ یہ جوان جس کا نام انھیں یاد نہیں ترقی کا اہل ہے۔ اسے فوری ترقی دے دی گئی۔اسے میجر بنا دیا گیا۔ وہ اب صدر سے مزید قریب ہوگیا تھا۔ اس کی ایک اضافی مگرخفیہ ذمہ داری تھی صدر کے حکم پر وقت روکنا۔انھوں نے آپس میں اس کام کےلیے ایک اشارہ طے کیا۔

جیسے ہی صدر اشارہ کرتے ویلاخکو وقت روک دیتا۔ اسے تو ٹھیک سے یاد بھی نہیں تھا کہ اس نے صدر کے لیے کتنی مرتبہ وقت روکا تھا۔ کئی بار تقریروں کے درمیان یا کسی میٹنگ کے دوران، وہ سوچنے یا کچھ کاغذات کا مطالعہ کرنے کے لیے وقت رکواتے۔

کئی بار وہ دفتری اوقات کے بعد اسے طلب کرتے اور وقت رکوا کر اپنی نیند پوری کرتے۔ اس طرح وہ عام حالات میں سونے کے بجائے مطالعہ کرتے۔اسے صدر کی اصل شخصیت نظر آئی۔ان کی عادتیں، ان کا مزاج، ان کے شعبدے اور ان کی حسِ مزاح۔

ایک دن صدر محترم نے اسے ایک پیکٹ تھمایا۔ اس میں ایک خاص کپڑے کا بنا ہوا لباس ، جوتے اور نقاب تھا۔

’’آج سے یہ تمھاری یونی فارم ہے۔ اسے پہنو!‘‘

ویلاخکو جلدی سے باتھ روم گیا اور نیا لباس پہن آیا۔ پورا لباس نیلا تھا مگر اس کی پیٹی سرخ رنگ کی تھی۔ جوتے سفید رنگ کے تھے اور نقاب سے اس کا آدھا چہرہ چھپ چکا تھا۔ وردی تنگ تھی مگر اس وجہ سے اس کے بازوئوں کی مچھلیاں واضح ہو رہی تھیں۔ وہ خود کو احمق محسوس کررہا تھا۔ نقاب میںآنکھوں کے لیے بیضوی سوراخ بنے ہوئے تھے۔ اس نے صدر کو دیکھا، ان کے چہرے پر اطمینان تھا۔

’’یہ میں نے خود ڈیزائن کیا ہے۔ ہمارے پرچم کے رنگوں سے مزین۔ یہ تمھارے لیے فخر کی بات ہے‘‘۔

جلد ہی ایک چھوٹی سے تقریب منعقد کی گئی جس میں صدر نے اسے ایک تمغہ عنایت کیا۔ صدر نے اسے تمغہ دیتے ہوئے کہا۔

’’ایکسٹرا مین، اضافی وقت مہیا کرنے والا ایکسٹرا ٹائم مین۔ میرا خاص محافظ جس میں اضافی خصوصیات ہیں۔ آج کے بعد تم اسی نام سے پکارے جائو گے اور ہر وقت یہی لباس پہنے رکھو گے۔‘‘

’’پھر تو سبھی مجھے اس لباس میں دیکھ لیں گے۔‘‘

’’کوئی بات نہیں، یہ تم پر جچ رہا ہے‘‘۔

’’معاف کیجیے گا، صدر محترم! میری بات کا برا مت مانیے گا مگرکیا لوگوں کو یہ عجیب نہیں لگے گا؟ وہ مجھ سے سوال بھی پوچھیں گے، وہ پتا نہیں کیا سوچیں گے؟‘‘

’’وہ کچھ بھی نہیں سوچیں گے۔ وہ تمھیں دیکھیں گے ہی نہیں۔ تم ہمیشہ میرے قریب رہو گے مگر وہ تمھاری موجودگی محسوس نہیں کریں گے‘‘۔

صدر محترم دونوں ہاتھ مسلتے ، مسکراتے ہوئے بولے

’’یاد رکھنا! میرے پاس بھی کچھ خاص طاقتیں ہیں!‘‘

صدر صاحب ٹھیک ہی کہہ رہے تھے ۔ وہ ہمیشہ ہی ٹھیک ہوتے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے انھوں نے ویلاخکو کو غیر مرئی لبادہ پہنا دیا تھا۔ وہ ہرجگہ ان کے ساتھ ہوتا۔ وہ ان کی گاڑی میں کہیں جارہے ہوتے، صدر صاحب اشارہ کرتے اور ویلاخکو اپنی طاقت استعمال میں لے آتا۔ صدر صاحب منجمد ہوانا میں گھومتے پھرتے۔ ویلاخکو ان سے چند قدم پیچھے رہتا۔

صدر محترم کو یہ چہل قدمی بے حد پسند تھی۔ وہ مجسمہ بنے لوگوں کے پاس جاتے۔ انھیں قریب سے دیکھتے۔ وہ کسی بھی گلی کے کونے پر کھڑے ہوجاتے اور ہر شے کا بغور جائزہ لیتے۔ ان کے چہرے پر ایسا سکون ہوتا جیسے وہ کسی عجائب گھر کی سیر پر نکلے ہوں۔ وہ گھروں میں بھی داخل ہو جاتے، دکانوں میں ، خالی اور پُر ہجوم شراب خانوں میں گھومتے ۔

کچھ دیر کسی بنچ پر بیٹھتے اور دوبارہ چلنا شروع کر دیتے۔وہ کتنی ہی دیر یہ کرتے رہتے۔آخر تھک ہار کر ویلاخکو کو اشارہ کرتے اور وہ انھیں گاڑی میں واپس لے آتا۔ جیسے ہی ویلاخکو وقت رواں کرتا ان کا سفر شروع ہو جاتا۔بعض اوقات صدر محترم ایک دن میں کئی مرتبہ وقت اس کی خدمات حاصل کرتے۔ ویلاخکو نے نہ جانے کتنے گھنٹے صدر محترم کو ہوانا شہر میں گھومتے دیکھا تھا۔ ان کی ان چہل قدمیوں کا کوئی وقت مقرر نہ تھا۔ وہ کسی بھی وقت ویلاخکو کو اشارہ کرتے اور وقت کی روانی سے اضافی وقت مستعار لے لیتے۔

٭

’’تم اپنی وردی کب اتارتے تھے؟ ‘‘

’’جب میں ڈیوٹی کے بعد گھر جاتا یا جب کام سے چھٹی مل جاتی۔‘‘

’’تمھیں کتنی چھٹیاں ملتی تھیں؟‘‘

’’بہت کم۔ بس یوں سمجھو کہ میں ہمہ وقت ایکسٹرا مین بنا گھومتا رہتا۔‘‘

ویلاخکو نے توقف کیا اور پھر بولا۔

’’سچی بات تو یہ ہے کہ میں اس معمول کا عادی ہو گیا تھا۔‘‘

’’تم نے یہ وردی کسی کو نہیں دکھائی؟‘‘

’’ہوں! بات یہ ہے کہ میں نے شاد ی ہی نہیں کی ۔ وقت کی کمی کے باعث کسی ہم سائے سے بھی بات چیت نہیں ہے۔ صدارتی محل کے عملے کے علاوہ میر اکوئی دوست بھی نہیں ہے تو پھر کس کو یہ وردی دکھاتا؟ہاں لوگ مجھے یہ وردی پہنے صدر صاحب کے ساتھ دیکھتے تو تھے مگر انھیں کیا احکام ملے ، یہ میں نہیں بتا سکتا۔ ایک بات جو میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہم انسان کتنے کم نظر ہوتے ہیں۔ نظروں کے سامنے کی چیز نہیں دیکھتے، کیوں کہ ہمیں سایوں میں دیکھنے کی عادت ہی نہیں۔

مگر لوگ دیکھتے بھی تھے اور باتیں بھی کرتے تھے۔ صدر کے ساتھ پھرنے والا پُر اسرار محافظ، اس کی مختلف وردی، نقاب میں چھپا چہرہ، بہت سی آنکھوں میں چبھنے لگا۔ لوگوں کا اشتیاق بڑھنے لگا لہٰذا کہانیاں بھی بننے لگیں۔ کچھ لوگ اس معمے کے مختلف پُرزے جوڑنے لگے۔ لوگوں کا تو کام ہی یہی ہے، حقیقت تک پہنچنے کے لیے کہانیاں بنانا اور انھیں پھیلانا‘‘۔

ویلاخکو بولتے بولتے رکا اور بولا۔

’’اب میرے پاس بتانے کو کچھ نہیں ہے۔‘‘

٭

میں بھی کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا۔ آخر کار چپ توڑتے ہوئے بولا۔

’’تمھاری جان کیسے چھوٹی؟‘‘

صدر محترم اچانک بے حد بیمار ہو گئے۔عنان حکومت ان کے بھائی نے سنبھال لی۔ محافظوں کا دستہ تبدیل کر دیا گیا۔ چند ہفتوں بعد مجھے نئے صدر کے دفتر میں طلب کیا گیا

’’بیٹھ جائو میجر ویلاخکو! یا تمھیں ایکسٹرا مین کہا جائے؟‘‘

نئے صدر نے اسے سپاٹ لہجے میں مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

’’میجر ویلاخکو عرف ایکسٹرا مین! تمھیں ملازمت سے برخاست کیا جارہا ہے۔‘‘

’’میں سمجھا نہیں صدر محترم‘‘!

’’تمھیں بغیر پنشن فوری برخاست کیا جارہا ہے۔‘‘

’’اب میں کیا کروں گا؟‘‘

’’یہ تمھارا مسئلہ ہے۔ یہ تو تمھیں اپنی طاقتیں استعمال کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔ وقت ایک کھلونا نہیں ہے ویلاخکو۔سابق صدر نے تمھارے متعلق شکوک کا اظہار کیا ہےاور تمھیں ہمارے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ اور تمھیں تو پتا ہی ہے وہ کبھی غلط نہیں ہوتے۔‘‘

ویلاخکو گنگ بیٹھا رہا۔

’’تو تمھیں اور کچھ نہیں کہنا۔ اوکے ، تم جاسکتے ہو۔ مگر اپنا یونی فارم اور میڈل واپس کرتے جانا۔‘‘

ویلاخکو دروازے کی طرف بڑھا ، مگر مڑااور بولا۔

’’میں بے حد شرمندہ ہوں مگر صدر محترم کیا آپ میری ایک درخواست قبول کریں گے؟‘‘

’’کیا!‘‘

’’آپ سابق صدر کو میرا ایک پیغام دے سکتے ہیں؟‘‘

صدر محترم نے جواب نہ دیا۔ وہ اس کی طرف دیکھتے رہے۔ ویلاخکو اسے ہاں سمجھا اور بولا۔

’’انھیں میری طرف سے جلد صحت یابی کی خواہشات اوریہ کہیے گا کہ اصل سپر ہیرو وہ ہیں۔‘‘

ویلاخکو یہ کہہ کر وہاں سے چلا آیا اور گم نامی میں زندگی بسر کرنے لگا۔ اسے جلد ہی احساس ہو گیا کہ اس کی مستقل نگرانی کی جارہی ہے۔ وہ اس کی ہر حرکت پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ نگرانی کرنے والوں نے خود کو چھپانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ صرف وقت روک کر ہی وہ اس نگرانی سے پیچھا چھڑاتا تھا۔

وہ ہنستا کہ اصل میں تو وہ اُن کی نگرانی کر رہا ہے۔جلد ہی وہ تنگ پڑ گیا۔ آخر کب تو وہ وقت روک کر زندگی گزارتا ۔ اسے اندازہ نہ تھا کہ اس طاقت کی اتنی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ تنہائی اور نگرانی۔شروع میں تو اس کا اندازہ تھا کہ جلد ہی نگرانی کرنے والے مطمئن ہو جائیں گے مگر وقت کے ساتھ نگرانی میں اضافہ شروع ہو گیا۔ اس کے فون کی گھنٹی بجتی ، وہ ہیلو کہتا تو دوسری طرف سے رونگ نمبر کہہ کر فون بند کر دیاجاتا۔ وہ خوف زدہ ہوتا گیا۔ اسے یہ احساس ہونے لگا کہ کہیں وہ اسے قید نہ کر لیں۔

اس نے ایک فیصلہ کیا اور ہوانا سے برطانیہ کی پرواز کا معمول دیکھ کر وقت روکا اور ائیر پورٹ پہنچا۔وہاں جا کر جہاز کے دروازے بند ہو نے سے پہلے وقت دوبارہ روکا اور سوار ہو کرسامان والے خانوں میں چھپ گیا۔ برطانیہ پہنچ کر اس نے وقت دوبارہ روکا اور ائیر پورٹ سے باہر نکل آیا۔ چند ہفتوں بعد وہ اسی طرح امریکہ پہنچ گیا اور تب سے اب تک وہ پورے امریکہ کا سفر کرچکا تھا۔اسے یہی محسوس ہوتا کہ اس کی نگرانی کرنے والے اسے دھر لیں گے۔ اس کے پاس دنیا جہان کا وقت تھااور آج میں اس کے سامنے بیٹھا تھا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم نے اسے تلاش کرلیا تھا، اس نے خود رابطہ کیا تھا۔

٭

ویلاخکو نے سگریٹ کا کش لیا اور بولا۔

’’انٹرویو ختم۔ اب میں اجازت چاہوں گا، امید ہے ہم دوبارہ کبھی نہیں ملیں گے۔‘‘

’’بالکل۔ ہماری یہی بات ہوئی تھی۔ ‘‘

میں نے یہ کہہ کر اس کے کالر سے مائیک نکالا اور اپنے کیمرے کی طرف بڑھا۔ کیمرہ سمیٹ کر مڑا تو دیکھا کہ ویلاخکو غائب تھا۔ مجھے یاد نہیںمیں کب تک وہاں کھڑا رہا۔گاڑی میں بیٹھ کر میں نے اپنے اخبار کے مالک کو اپنی کام یابی کی اطلاع دی ۔ کار سٹارٹ کرتے مجھے پتا نہیں کیا ہوا کہ میرا ہاتھ کانپ گیا۔ دل میں خیال ابھرا کہ کہیں ویلاخکو نے گاڑی میں کچھ گڑبڑ نہ کر دی ہو۔ جیسے ہی میں اگنیشن گھمائوں کار دھماکے سے پھٹ نہ جائے۔ میں نے ہمت جمع کی اور چابی گھمائی، کچھ بھی نہ ہوا۔ انجن جاگا اور میں تیزی سے اپنے دفتر کی جانب روانہ ہو گیا۔

 

مترجم کا تعارف:

 

محمد فیصل (پیدائش: 24 ستمبر 1980ء) کا تعلق کراچی سے ہے۔ اردو و انگریزی فکشن اور شاعری میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ نمایاں تراجم کی کتابوں میں رابرٹ لوئس اسٹیونسن کا ناول Strange Case of Dr Jekyll and Mr Hyde کا اردو ترجمہ بعنوان "ہم زاد”،  "برازیل کی منتخب  کہانیاں”،  "کیوبا کی منتخب کہانیاں”، "دنیا کی سیر (پانچ براعظموں کی منتخب لوک کہانیاں)” شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کی کہانیاں اور ناول بھی ترجمہ کیے ہیں۔  اکادمی ادبیات پاکستان کے مشہور سلسلے "پاکستانی ادب کے معمار” کے لیے "صغیر ملال :شخصیت  اور فن ” تحریر کی ہے۔  اس کے علاوہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے لیے متعدد کتابیں تصنیف و تالیف کرچکے ہیں۔ اردو تراجم اور تخلیق و تالیف یہ سلسلہ جاری ہے۔

آپ سے اس ای میل کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

faisal7288@gmail.com

 

 

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے