fbpx
تراجمترجمہ ناول

کاملہ شمسی کے مشہور ناول Burnt Shadows کا اردو ترجمہ || مترجم : ڈاکٹر صہبا جمال شاذلی

اردو ترجمہ : ڈاکٹر صہبا جمال شاذلی (نیوزی لینڈ)

جلے ہوے سایے

مصنفہ  :  کاملہ شمسی

مترجم۔  : ڈاکٹر صہبا جمال شاذلی

(زیرِ اشاعت ناول کے اردو ترجمے کا ایک باب)

 

باب۔ ۱

 

ابھی تک انجان دنیا

 

ناگا ساکی ، ۹،اگست ۱۹۴۵

 

بعد میں جو زندہ رہے گا ، وہ اس دن کو ایک سیاہ دن کے طور پر یاد رکھے گا ، لیکن ۹ اگست کی صبح وہ دونوں ، برلن کا کونریڈ وائیس (Konrad Weiss) ، اور اسکول ٹیچر ہیروکو تناکا (Hiroko Tanaka) نے اپنے  گھروں سے باہر قدم نکالا اور دیکھا کہ مکمل طور پر گہرے نیلے آسمان پر اسلحہ بنانے والی فیکٹری کی چمنیوں سے نکلنے والا سفید دھواں کھلتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔

ویسے ، مینامیامیٹ (Minamiyamate)  میں  اپنے گھر سے کونریڈ ان چمنیوں کو دیکھ نہیں پارہا تھا ، البتہ کئی مہینوں سے کثرت سے اس کے خیالات اس فیکٹری کے اطراف گھوم رہے تھے جہاں ہیروکو تناکا اپنے دن خردپیما (micrometers) سے اسٹیل کی موٹائی کی پیمائش کرتے ہوے کیسے جماعتوں کے تصورات اس کے خیالات پر جھپٹ پڑتے ہیں جیسے پرواز کی یادیں ٹوٹے پنکھوں والے پرندوں کے ذہن میں داخل ہوجاتی ہیں۔ اس صبح ، اگر چہ کہ ، کونریڈ  نے اپنے نگران والے لکڑی کے چھوٹے سے گھرکے  سامنے اور پیچھے کے دونوں دروازے کھولے ، اور اس سمت دیکھتے ہوے جدھر سے دھواں نکل رہا تھا اس نے اس منظر کے بارے میں سوچنے کی کوشش بھی نہیں کی کہ فیکٹری میں کیا منظر رہا ہوگا۔ اس دن ہیروکو نے چھٹی لے رکھی تھی ___ پھر بھی منتظم نے اسے بلوالیا جبکہ فیکٹری میں ہر شخص جانتا ھیکہ وہاں پیمائش کے لیے اسٹیل بچا نہیں تھا ۔ تب بھی ناگاساکی کے لوگوں کی اکثریت اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جاپان جنگ جیت لیگا ۔ کونریڈ سوچنے لگتا ہے ، کیسے جبری سپاہیوں کو رات میں بادلوں کا جال بچھانے کے لیے بھیجا گیا ۔ تاکہ انھیں صبح فیکٹری کی چمنیوں سے برسایا جاے تاکہ اس صنعت کا سراب پیدا کیا جا سکے۔

وہ پچھلے برآمدہ کی طرف چلا گیا۔ زمین کے وسیع سبزہ زار پر سبز اور بھورے پتے بکھرے پڑے ہیں ، گویا کہ سارا علاقہ میدان جنگ رہا ہو ، اور جنگی لشکر کے فوجی وہاں لیٹ گیے ہوں ، موت کے وقت ہر چیز سے بے پرواہ سواے  قربت کے۔ اس نے نظریں اٹھا کر ازالیہ میانور(Azalea Manor)  کی طرف جاتے ہوے ڈھلوان کو دیکھا ؛ کاگاواس (Kagawas) قبیلہ کے اپنے ساز و سامان کے ساتھ چلے جانے کے کچھ ہی ہفتوں میں لگتا تھا وہاں سے ہر چیز مکمل طور پر ختم ہوتی جارہی ہے ۔ ایک کھڑکی کا ادھ کھلا دروازہ ، ہوا کی کاری ضرب سے چوکھٹ سے ٹکرا کر دھماکہ دار آواز پیدا کررہا ہے ۔ وہ جانتا ھیکہ اسے کھڑکی کے دروازہ کو بچانا چاہیے ، لیکن اس خاموشی میں گھر سے آنے والی یہ آواز اسے سکون مہیا کر رہی ہے ۔

ازالیہ میانور ۔ ۱۹۳۸ میں جب وہ سلائیڈنگ دروازہ سے گذر کر ، سنگ مرمر کے فرش اور وینیشین آتشدان والے اس عظیم الشان کمرے میں داخل ہوا ، جہاں دیواروں پر لگی تصویروں نے اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کروالی ، بجاے اس جاپانی اور یوروپی آمیزش والے طرز فن تعمیر کے : ساری تصاویر ازالیہ میانور کے اسی فرش پر لی گئی تھیں جہاں جاپانی اور یوروپی واضح طور پر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کوئی تقریب منا رہے تھے۔ اس کو یقین تھا ان تصویروں کے وعدوں پر ، اور وہ اپنے نسبتی بھائی کا غیرمانوس طور پر شکر گذار تھا کہ اسنے کچھ ہفتوں پہلے کہا تھا کہ دہلی کے برٹن منزل (Burton home) میں اس کا خیرمقدم نہیں کیا جائیگا ، کیونکہ ، ‘ ناگاساکی کی جائیداد جارج (George) کی ملکیت تھی ، ایک سنکی سا شخص جو میرا کنوارا چچا تھا، اور کچھ مہینوں قبل اس کی موت ہوچکی تھی۔ کوئی جاپانی مجھے مسلسل ٹیلیگرام بھجوا رہا ہے یہ جاننے کے لیے کہ اس کے چچا کی لاش کا کیا کیا جاے ۔ کیوں نہیں تم کچھ دن وہاں رہ لیتے ؟جتنا عرصہ تم چاہو۔ ‘ کونریڈ ناگاساکی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ سواے اس کے کہ وہ یوروپ نہیں تھا اور یہ وہ جگہ بھی نہیں تھی جہاں جیمس (James) اور الزی (Ilse) رہتے تھے —- اور  بحری سفر کے بعد  جب وہ ارغوانی چھت والے شہر کی بندرگاہ پر اترا جو کسی وسیع سماعت گاہ (amphitheatre) کی طرح دکھائی دے رہا تھا ، اور اسے محسوس ہوا جیسے وہ طلسمی دنیا میں داخل ہوگیا ہو۔ اگلے سات سالوں تک یہ طلسم باقی رہا —— کانچ کی طرح شفاف اور خوبصورت ، موسم سرما کے یخ بستہ پھولوں کی طرح ، موسم گرما میں کھلنے والے نیلے ازالیہ پھولوں کے سمندر کی طرح ، اور سمندر کے کنارے بنی وہ شائستگی اور لطافت سے بھرپور عمارتیں  ——— لیکن جنگ نے سب توڑ دیا۔ یا یہ کہا جاسکتا ھیکہ اس منظر کو مکمل طور پر چھپا دیا گیا۔ پہاڑیوں پر چہل قدمی کے لیے جانے والوں کے لیے تنبیہ دی گئی تھی کہ وہ نیچے بندرگاہ کی طرف نہ دیکھیں جہاں بڑے رازدارانہ انداز میں جنگی جہاز “ موساشی ے“ (Musashi) تیار کیا جا رہا تھا ، اور راہگیروں سے چھپانے کے لیے بڑے بڑے وزنی پردوں سے علاقہ  کو بند کر دیا گیا۔

محض رسمی طور پر ، ہیروکو تناکا یوراکامی (Urakami) میں اپنے گھر کے برآمدے میں کھڑی ایک جیسے ڈھلوانوں کا جائزہ لیتے ہوے سوچنے لگی یہ خاموش صبح حشرات الارض کی آوازوں سے زندہ محسوس ہو رہی ہے ۔ اگر  کوئی اسم صفت اس کو بیان کرپاے کہ کیسے جنگ نے ناگاساکی کو بدل کر رکھ دیا ، اس نے طۓ کیا کہ ، وہ یہی ہوسکتا ہے۔ عملی طور پر ہر چیز کا صفایا یا ان کا مسخ شدہ ہوجانا ۔ کچھ ہی دن پہلے ، ڈھلوانوں پر وہ سبزیوں  کے قطعات سے گذری تو دیکھا تھا کہ زمین میں پراسرار طریقہ سے ہل چلا دیا گیا ہو : جہاں ازالیہ ہوا کرتے تھے وہاں آلو کیوں ؟ کس چیز نے محبت کو گرجانے پر آمادہ کیا ؟ آخر زمین کو کیسے سمجھایا جاے کہ سبزیاں اگانا ، پھولوں کے باغ سے زیادہ کارآمد تھا ، جیسے فیکٹریاں  اسکو لوں سے زیادہ کارآمد تھیں ، اور لڑکوں کا  ہتھیار کی طرح استعمال ہونا ان کے انسان ہونے سے زیادہ اہم تھا ۔

خشک جلد والا ضعیف شخص وہاں سے گذرا تو ہیروکو کے ذہن میں کاغذ کی قندیل کی تصویر ابھری جس پر ایک آدمی کی شکل کا خاکہ بنا تھا۔ وہ حیران ھیکہ اس شخص کو کس طرح دیکھے ، یا کسی اور کو بھی۔  کونریڈ کو ، صرف ایک لاغر اور کمزور انسانی نمونہ اور سب لوگوں کی طرح ہلکے رنگ کے کپڑوں میں ملبوس ، وہ اندازہ لگاتی ہے ، اور مسکراتے ہوے کونریڈ کے داخلہ کا دن یاد کرتی ہے جب اس نے پہلی مرتبہ ہیروکو  کو دیکھا تھا — انھی کپڑوں میں ملبوس جیسے وہ اب پہنتا ہے ، سفید شرٹ اور سرمئی ڈھیلی پتلون جیسے کسان پہنتے ہیں (monpe) —— وہ میری تصویر بنانا چاہتا تھا۔ اور فوری کہہ دیا کہ پوری تصویر نہیں بنائیگا۔ لیکن ،  کاگاواس کے سرسبز وہ شاداب ، اور اچھی طرح دیکھ بھال کیے گیے باغ سے گذرتے ہوے اس نے نمایاں فرق  تشکیل دیا  جب اس نے دس ماہ پہلے کونریڈ کے دل میں یہ خواہش پیدا کی تھی کہ وہ گاڑھے ، چمکدار اور نمایاں رنگ کی بالٹیاں اس پر الٹا دے ، رنگوں کا جھرنا اس کے کندھوں سے ہوتا ہوا پیروں تک بہتا چلا جاے ( نیلے رنگ کا دریا قمیض پر ، نارنگی رنگ کی جھیل پیروں پر ، زمرد اور یاقوتی ندیاں ہاتھوں پر ایک دوسرے کو قطع کرتے ہوے ۔)

“ کاش ، “ اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوے ہیروکونے کہا ۔ “ کاش میں نے جلد تمھاری پوشاک کے اندر چھپے جنون کو دیکھ لیا ہوتا ۔“  کونریڈ نے اس کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ ، معافی اور سرزنش کے ملے جلے تاثرات کے

ساتھ ، کھینچ لیا۔ فوجی پولس کسی بھی لمحہ ان تک پہنچ سکتی تھی۔

ؤہ ٹوٹی پھوٹی جلد والا لاغر آدمی پیچھے مڑ کر اس کی طرف دیکھتا ہے ، اور اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوے شائد اپنی جھریوں کے پیچھے چھپے نوجوان کو ڈھونڈھنے کی کوشش کررہا ہو۔ اس پڑوس کی لڑکی کو — غدار کی بیٹی  کو — گذشتہ کچھ مہینوں میں کئی بار دیکھا — اور ہر مرتبہ ، لگتا تھا کہ وہ بھوک جو ان سب کے اندر دبی ہوئی ہے ، یہ اسی کی سازش ہوسکتی ہے اسے اور زیادہ خوبصورت بنا نے کی : بچپن کے چہرے کی گولائی مکمل طور پر جاچکی تھی ، رخساری تیکھی ہڈیوں کی لطافت اور نفاست لیے ، اور اس کے کچھ ہی اوپر ایک تل  ۔ لیکن کسی طرح اس نے ناگواری کے سارے انداز سے خود کو بچا لیا ، خاص طور پر جب ، جیسے کہ اب ، اپنے منہ کو ایک طرف موڑتے ہوے ، اور ایک چھوٹی سی سلوٹ ابھرتی ہے ، مسکراہٹ کے کنارے سے  بس ایک ملی میٹر پر، گویا کہ ایسی حد مقرر کرنا جو اس وقت نظر آ جاتی  ہے جب آپ اس سے بچ کر نکلنے کی کوشش کرتے ہو۔ بوڑھا سر ہلاتا ہے اپنی اس بیوقوفی کی حرکت پر کہ وہ اس نوجوان عورت کو گھورے جارہا تھا جس کے تعلق سے وہ خاتون قطعی واقف نہیں ، لیکن ساتھ ہی شکرگذار بھی ہے کہ دنیا میں ایسی بھی کوئی چیز ہے جو اس بوڑھے کو بیوقوف بننے پر مجبور کرسکتی ہے۔

حشرات الارض کی تکلیف دہ آوازوں کی جگہ ہوائی سائیرن نے لے لی جو ان دنوں ، کیڑوں کی آوازوں کی طرح ،کافی جانی پہچانی ہو چکی تھی۔ ایک نیا دھماکہ ! (The New Bomb!) بوڑھے نے کچھ سوچا ، پلٹا اور ساری بیوقوفیوں کو بھلا کر،  تیزی سے فضائی حملے سے بچاؤ کے لیے بنی پناہ گاہ کی طرف چل دیا۔ برخلاف اس کے ، ہیروکو کے منہ سے بے صبری کی آواز نکلی ۔ گرمی ویسے ہی اپنے عروج پرہے۔ اور یوراکامی کی  لوگوں کی بھیڑ سے بھری  ان ہوائی حملوں سے بچانے والی پناہ گاہوں میں تو یہ ناقابل برداشت ہوگی ___ خاص طور پر نرم مادے سے بھری ان ٹوپیوں کو پہنے جنھیں وہ مشتبہ سمجھتی تھی لیکن صرف پڑوسی انجمن کے چیرمین کے لکچر سے ،جہاں وہ بچوں کے سامنے ایک کمزور سی مثال قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے، گریز کرنے کے لیے اسے پہننا پڑتا ہے ۔ یہ جھوٹے خطرے کے سائرن ہیں __ یہ تقریباً ہمیشہ ہی جھوٹے سائرن ہیں۔ ویسے جاپان کے کئی شہر ان فضائی حملوں سے متاثر ہوے سواے ناگاساکی کے ۔ کچھ ہی ہفتے پہلے اس نے اپنی حاصل کردہ حکمت و علم کے تحت کونریڈ کے سامنے دہرایا کہ ناگاساکی کسی بھی سنگین نقصان سے محفوظ رہیگا ، کیونکہ یہاں تمام شہروں سے زیادہ عیسائی رہتے ہیں۔ اور کونریڈ نے توجہ اس حقیقت کی طرف دلوائی کہ ڈریزڈن (Dresden) میں ناگاساکی سے کہیں زیادہ عیسائی رہتے ہیں۔ اور پھر اس وقت سے  وہ ان فضائی حملوں کے خطرے کے سائرن کو زیادہ سنجیدگی سے محسوس کرنے لگی ۔ البتہ ، حقیقت میں پناہ گاہ کی گرمی ناقابل برداشت ہوگی۔ کیوں نہ وہ اپنے گھر میں ہی رہے ؟ یقیناً ، شائد وہ جھوٹے سائرن ہوں ۔

کونریڈ کے خیال میں آخر خطرہ کیوں لیا جاے ۔ اس نے گھر سے خطروں سے بچانے والی ٹوپی اٹھائی اور اس پناہ گاہ کی طرف چل دیا جو کاگاواس نے پیچھے والے باغ میں تعمیر کروایا تھا۔ باغ کے بیچوبیچ پہنچ کر رک گیا اور اس دیوار کو دیکھنے لگا جو پڑوسی کے مکان کو جدا کرتی ہے جہاں کے مکین اسے خالی کر کے کہیں جا چکے تھے۔ گذشتہ بارش کے بعد اس نے دیوار کے دوسری طرف دیکھا ہی نہیں کہ ان کے پرندے کیسے ہیں۔ اس نے اپنی  دفائی  ٹوپی گھاس پر پھینکی ، دیوار پر چڑھ کر سر کو بلند کیا اپنے جسم کو نیچے جھکاتے ہوے کہ کہیں کوئی راہگیر یا فوجی پولیس نہ دیکھ لے۔

اگر اس وقت کوئی دیکھ لیتا تو اسے نامعقول اور مضحکہ خیز سمجھے گا ____ جیسے  کوئی  لمبا تڑنگا یوروپی دیوار پر چڑھا کرتب دکھا رہا ہو ، پھیلے ہوے بازو اور پیر ، کٹے ہوے بالوں سے چھپی آنکھیں  اور داڑھی کچھ ایسے رنگ کے ساتھ جو ہیروکو تناکا کے خیال سے ناگاساکی میں غیر متوقع تھا ، پہلی مرتبہ اس نے دیکھا کہ یوروپیوں کے بال بڑھتی عمر کے ساتھ بجاے سرمئی یا خاکی ہونے کے زنگ آلود ہوجاتے ہیں۔ بعد میں اسے پتہ چلا کہ وہ صرف انتیس (۲۹) سال کا تھا __ ہیروکو سے آٹھ (۸) سال بڑا۔

سوکھی گھاس اس کے قدموں کے نیچے کڑکڑائی __ اور اس نے محسوس کیا کہ شائد اس نے ننھے کیڑوں کو کچل دیا ہو ___ جیسے ہی وہ شجر کافور سے ہو کر گذرا جہاں بندھے پرندے ہلکی ہوا میں گھوم رہے تھے۔ ان کی پہلی ملاقات میں ، جب وہ گھر میں ہی تھی ،  ہیروکو نے اپنی ارغوانی بیاضوں کو پرندوں سے مشابہہ کیا تھا۔  اس نے میز سے ایک نوٹ بک اٹھائی ، اسے پھیلایا اور کمرہ کے اندر آہستہ سے گھمانے لگی تھی۔ اس حرکت پذیری کے ذریعہ زندگی کا جو احساس اس نے دلوایا ، کونریڈ کو اپنے الفاظ بے جان محسوس ہونے لگے تھے : وہ سارے جملے جو وہ سالہا سال سے کاغذ پر اتارتا چلا آرہا تھا محض یہ دکھانے کے لیے کہ اس کے یہاں ہونے کا مقصد تھا ، اس خوف سے بھری دنیا سے دوری جو اسے کبھی متاثر نہیں کرپائی ۔

البتہ جرمنی کے مغلوب ہوجانے کے بعد ناگاساکی میں اس کی حیثیت بدل چکی تھی  ___ ایک اتحادی سے وہ ایک مشکوک بن گیا کہ وہ ہمیشہ فوجی پولس کی نگرانی میں ہوگا اور اس کے وہ بے جان الفاظ اتنے طاقتور بن گئے  کہ اسے جیل پہنچانے کے لیے کافی ہونگے۔ جاپان کی شاہی حکومت کے بارے میں اگر کچھ کہا جاے تو : کچھ ہی فاصلہ پر موجود ایک آفاقی دنیا کے بارے میں ، جہاں اب وہ رہتا ہے ،  تحقیق اور مشاہدہ کی ساری نوٹ بکس   غداری کا ثبوت ہیں۔ یوشی واتانابی (Yoshi Watanabe) نے اسے صاف صاف بتا دیا تھا جب جرمنی کا ہتھیار ڈالنے کا وقت قریب آتا محسوس ہو رہا تھا۔” تم اس ناگاساکی کے بارے میں لکھوجو غیر ملکیوں سے بھر چکا تھا۔ اور تم اس بارے میں چاہ اور تمنا کے ساتھ لکھو۔ اور یہ امریکی تسلط کی حوصلہ افزائی کرنے سے صرف ایک قدم دور ہیں۔ “ لہٰذا ، جس رات جرمنی نے ہتھیار ڈال دیے ، کونریڈ نے ایک حرکت پذیر مضبوط دھاتی تار بنایا اور اس کی آٹھ ارغوانی چمڑے کی نوٹ بکس لٹکا دیے۔ اور اس کے گھر سے منسلک خالی گھر کی دیوار پر چڑھ گیا ، اور اس موبائل تار کو درخت سے جوڑ دیا ۔ اور چاندنی رات میں ہوا ان ارغوانی پرندوں کو آڑاتی رہی۔

اسے یقین تھا کہ کوئی بھی اس ویران باغ میں داخل ہو کر پتوں میں غداری کو ڈھونڈھنے  کے بارے میں سوچے گا بھی نہیں ۔ وہ لوگ جو خلاف حکومت سرگرمیوں کو خاک چھان کر بھی تلاش کرنے کے خواہش مند ہوں ، وہ ایک سادہ سے تخیلاتی فعل سے ہمیشہ دھوکہ کھا سکتے ہیں۔

جھکی ہوئی ٹہنی کے نیچے جھک کر ، اس نے ہاتھ بڑھا کر چمڑے کی نوٹ بکس کو پالیا جو بالکل خشک اور بغیر کسی داغ اور دھبوں کے ، اگرچہ کہ رنگ کچھ پھیکا پڑ چکا تھا۔ اس نے تشکرانہ نظروں سے اوپر پتوں کے بنے محافظ سائبان کو دیکھا ، اس سے پہلے کہ وہ ان میں ایک چمڑے کی جلد پر پڑی وہ سفید لکیر دیکھ پاتا : کسی پرندہ کا ، ان ارغوانی دغابازوں پر کیا گیا حقیقی تبصرہ ۔ اس کا چہرہ ایک ایسی مسکراہٹ سے پھیل گیا جو اکثر لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لیے ہوتی ہے جو اسے حسین و جمیل سمجھتے ہیں۔ جیسے ہی وہ درخت سے اترنے  لگا ، وہ  کچھ پریشان سی آواز اس فضائی سائرن کے ساتھ مل کراس کے کانوں سے ٹکرائی  ، وہ اس کی طرف متوجہ ہوگیا۔ کونریڈ سوچنے لگا کہ وہ وہاں بم نہیں گراسکتے ، لہٰذا بغیر عجلت کے وہ واپس ازالیہ میانور (Azalea Manor) کی پناہ گاہ کی طرف چل دیا۔ پچھلے غیرملکی معاہدہ کے تحت جہاں وہ ابھی رہتا ہے ، وہ جگہ اب عدم وجود اور کچرے کے ڈھیر کے سوا کچھ نہیں۔ یوراکامی (Urakami) میں کیسے دس خاندان اس جگہ رہ سکتے ہیں ! ہیروکو نے ازالیہ میانور کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا تھا ، جب وہ پہلی بار ملے تھے۔ اور اپنی بات کو جاری رکھتے ہوے کہا : وہ امیر! نا معقول اور مضحکہ خیز ! اس سے پہلے کہ وہ مڑ کر اس سے پوچھتی کہ وہ اسے کتنی رقم ادا کریگا اس ترجمہ کے کام کے لیے جو کونریڈ نے ہیروکو کو کرنے کے لیے کہا تھا۔

کئی ہفتوں بعد کونریڈ نے ، ہنستے ہوے ، اپنے جرم کے ساتھ کھیلتے ہوے خود کی قیمت لگانے پر   ہیروکو کو مورد الزام ٹھہرایا ۔ بے شک ، اس نے اپنی مخصوص بے تکلفی اور سادگی کے ساتھ کہا ؛ تامل ، شک و شبہ اور فاقہ کشی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ پھر اس نے پوری طرح سے اپنے ہاتھ پھیلاے ، آنکھیں سکیڑ کر بند کرلیں جیسے اس نے   بہت  دھیان سے کسی اور ہی دنیا پر اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہو : جب جنگ ختم ہوجائیگی ، میں بھی بامرؤت ہوجاؤنگی۔ آنکھیں کھولتے ہوے اس نے آہستہ سے پرسکون انداز میں کہا ، ‘میری ماں کی طرح۔‘  اور وہ یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکا کہ اس کی ماں نہ صرف  اس کے کسی جرمن لڑکے سے عشق کو کبھی اپنی منظوری نہ دیتی ، بلکہ اس کا ناگاساکی کی پہاڑیوں پر اس جرمن کے ساتھ چہل قدمی کو بھی پسند نہیں کرتی۔ یہ بات کونریڈ کو بڑا بے چین کردیا کرتی تھی کہ اس کی خوشی کا انحصار ہیروکو کی ماں کی موت پر تھا ، اور اسی وقت اس نے کونریڈ کا ہاتھ تھام لیا ، اور کونریڈ ایک غیر یقینی کیفیت کے تحت سوچنے لگا کہ کوئی بھی شخص ، یہاں تک کہ اس کی قابل احترام ماں ، ضرور ہیروکو سے کہتی کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ ہیروکو نے ایک مرتبہ پوچھا تھا کہ کیوں سماجی طرز عمل کے قوانین جنگ کے زیر اثر نہیں رہے ؟ ماضی کی تو ہر ہر بات گزر چکی ہے ۔

زمین پر پڑی اس حفاظتی ٹوپی کو ٹھوکر مارتے ہوے اس کشادہ پناہ گاہ کی طرف چلا گیا جو ازالیہ میانور باغ کی ڈھلوان پر بنا تھا۔  ہوا ٹھوس اور کچھ کڑواہٹ سے بھری تھی ۔ یہاں تاش کے پتوں کی گڈی رکھی تھی کھیلنے کے لیے ، جہاں وہ ، یوشی وتانابی اور کیکو کاگاوا (Keiko Kagawa) ایک دوسرے کی توجہ ہٹانے میں لگے رہتے تھے ، خاص طور پر فضائی حملوں کے سائرن  بجاے جانے کے ابتدائی دنوں میں جب یہ سائرن  اور انتباہی اعلانات جو صرف خوف و بیزارگی ہی پیدا کیا کرتے تھے ، بہت زیادہ کارآمد ہوا کرتے تھے۔ یہاں ، شاہ بلوط کی کرسی پر بیٹھ کر معزز کاگاوا اپنے اطراف و اکناف کے پڑوسیوں ، خاندانوں اور عملہ کی حرکتوں کا جائیزہ لیا کرتا تھا ، اور یہ فضائی حملوں کے بگل کے ذریعہ پتہ چل گیا کہ وہ ابھی تک گھر کے اندر تھا ؛ یہ وہ جگہ ہے جہاں کونریڈ نے کاگاوا بچوں کے لیے ایک مٹی کا مربع بنا رکھا تھا جہاں وہ پتھر چھپانے کا کھیل (hopscotch) کھیلا کرتے تھے ؛ یہاں خانساماں نے چاول سے بنی شراب کی بوتل (bottle of sake) چھپا رکھی تھی اس امید پر کہ اس جگہ کا پتہ کسی کو نہیں ہوگا ؛ یہاں پر ایک اور شراب کی بوتل چھپی ہوئی تھی جسے ڈھونڈھنے کے لیے کاگاواس کے نوجوان بچے دیر رات گیے ، جب پناہ گاہ خالی ہوتی ، وہاں آیا کرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ کونریڈ اپنے محافظ والے گھر سے انھیں دیکھ سکتا تھا ، جبکہ ان کے والدین ، سات سال کے عرصہ کے بعد بھی مضطرب تھے کہ کیسے مالک مکان سے اپنے رشتوں کو استوار کرنے کی بات شروع کریں جس نے اپنا لمبا ، تڑنگا کمزور جسم موڑ کر ، باغ کے نیچے ،اس چھوٹے سے کمرے  میں بند کرلیا تھا ، جو کاگاوا بچے سمجھتے تھے کہ وہ ایک اتحادی تھا اور وہ اپنی شراب کی پارٹی میں اس کا استقبال کر سکتے تھے اگر وہ ان کے ساتھ شامل ہونا چاہے ۔

تمام کاگاواس سڑک پار کر کے دوسری طرف چلے جاتے اگر وہ اسے اپنی طرف آتا دیکھ لیتے ۔ مالک مکان کی وفاداریوں کے مشکوک ہونے پر فوجی پولس کے سوالوں کا ایک دور ختم ہونے پر ، ان سب کو ازالیہ مانار چھوڑ دینا تھا۔

کونریڈ، معزز کاگاوا کی شاہ بلوط والی کرسی پر بیٹھتا ہے ، اپنی فضائی حملوں سے محافظ ٹوپی گھٹنے پر اچھالتے ہوے ۔ وہ اپنی سوچوں میں اس قدر ڈوبا ہوا تھا کہ اسے کچھ وقت لگا یہ سمجھنے کے لیے کہ پناہ گاہ کے داخلہ پر جو انسانی پیکر ، ہاتھ میں ٹوپی لیے ،  دکھائی دے رہا ہے ، وہ سچ مچ زندہ وجود ہے۔ وہ یوشی واتانابی ہے ۔

کسی کی نجی ملکیت میں داخل ہونے کے لیے ، یوشی نے انگریزی میں پوچھا ، ‘کیا میں اندر آسکتا ہوں ؟ اگر تم منع کردوگے تو بھی میں سمجھ جاؤنگا۔ ‘

کونریڈ نے کوئی جواب نہیں دیا ، لیکن جب یوشی معذرت کرتا  ہوا واپس جانے لگا ، کونریڈ نے آواز دی ، ‘ بیوقوف نہ بنو ، جوشوا (Joshua) ۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ میں کیا محسوس کرونگا اگر کوئی بم تم پر گر پڑے ؟ ‘

یوشی  نے عینک اپنے کانوں پر اٹکاے اور پلکیں جھپکاتا ہوا ، اندر قدم رکھتا  ہے ۔

، یقین سے تو نہیں کہہ سکتا۔ ‘

تاش کے پتوں کی گڈی اٹھا کر وہ نیچے دوزانوں ہو کر بیٹھ گیا ، پتوں کو گڈ مڈ کر کے دس پتے خود کے لیے  چن لیے اور دونوں کے درمیان کی خالی جگہ بھی۔

یوشی واتانابی ایک جاپانی ہے جس کے ٹیلیگرامس کا حوالہ جیمس برٹن (James Burton) نے کونریڈ کو ناگاساکی بھجواتے ہوے دیا تھا۔ اس کے دادا ، شروپ شائر (Shropshire) کے پیٹر فُلر(Peter Fuller) ، جارج برٹن (George Burton) کے بہت قریبی دوست اور پڑوسی تھے۔ جب کونریڈ ناگاساکی پہنچا ، وہ یوشی ہی تھا جو بندرگاہ پر اس کے استقبال کے لیے منتظر تھا۔ یوشی ہی تھا جس نے اسے ازالیہ میانور کا راستہ دکھایا تھا ، یوشی ہی تھا جس نے کونریڈ کے لیے جاپانی ٹیچر کا انتظام کیا تھا ، اور یوشی ہی تھا جس نے کاگاواس کو گلدستہ بنا کر پیش کردیا جب اس نے  خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ نگران کے گھر میں زیادہ آرام دہ محسوس کریگا ، یوشی ہی تھا جس نے کونریڈ کو ، صدی کے موڑ پر ہونے والی ، آفاقی دنیا جو جاپان کے لیے منفرد تھی ،  ناگاساکی کی دلچسپ کہانیاں بتا کراس کے لیے معلومات بہم پہنچائی —- وہاں کے انگریزی اخبار ، وہاں کے بین الاقوامی کلب ، ان کے رابطے ، ان کی باہمی شادیاں یوروپی مرد اور جاپانی خواتین کے بیچ۔  اور جب کونریڈ نے خواہش ظاہر کی اسے کوئی ایسا شخص چاہیے جو جاپانی خطوط کا ترجمہ کرسکے تاکہ وہ اس آفاقی دنیا (cosmopolitan world) کے بارے میں کتاب لکھ سکے ، یہ یوشی ہی تھا جس نے اس کا تعارف اپنے بھتیجے کی جرمن ٹیچرہیروکو تناکا سے کروایا ۔

یہ ان دوستیوں میں سے ایک تھی جو جلد ہی ان کے لیے ناگزیر اور نا ختم ہونے والی دوستی بن گئی تھی۔ اور پھر ، ایک منٹ سے بھی کم عرصہ میں ایک گفتگو کے دوران یہ ختم ہو گئی۔

‘  کونریڈ ، میرے بارے میں جانچ پڑتال بڑھتی چلی گئی۔ میری ماں کا خاندانی نام ‘فُلر ‘ (Fuller) تھا۔ جانتے ہو اس کا کیا مطلب تھا ۔ میں انھیں سوچنے کے لیے مزید کوئی وجہ مہیا نہیں کرسکتا تھا کہ میری وفاداریاں منقسم ہیں۔ جب تک جنگ ختم نہیں ہو جاتی  ، مجھے ناگاساکی میں مغربی دوستوں سے دوری اختیار کرنی ہوگی۔ صرف جنگ کے ختم ہونے تک ۔ اور اس کے بعد ، اس کے بعد ، کونریڈ ، حالات پہلے جیسے ہو جائینگے۔  ‘

‘ اگر تم جرمنی میں ہوتے ، جوشوا ، تو تم اپنے یہودی دوستوں سے کہتے : میں معذرت خواہ ہوں کہ تمھیں اپنے بالا خانہ میں چھپا نہیں سکتا ، لیکن نازی حکومت کے گرجانے کے بعد میرے یہاں دعوت پر آسکتے ہو۔ ‘

‘تم یہاں کیوں ہو ؟ ‘

یوشی ، جس نے اپنے ہاتھ میں کارڈس کا پنکھا بنا رکھا تھا ، سر اٹھا کر دیکھا۔

‘ میں گھر پر تھا جب سائیرن  بجنے لگا تھا۔ اور یہ سب سے قریب ترین پناہ گاہ ہے۔‘  کونریڈ کی چڑھی ہوئی ابرو کو دیکھتے ہوے اس نے بات جاری رکھی ، ‘ میں جانتا ہوں۔ میں ، پچھلے کئی ہفتوں سے اسکول کی پناہ گاہ میں رہ رہا ہوں ۔ لیکن اس نئے بم کے ساتھ …… کھلی فضا میں چند اور لمحات گذار کر کوئی خطرہ نہیں لینا چاہتا تھا۔ ‘

‘ اچھا تو دنیا میں کسی جرمن سے تعلقات رکھنے سے زیادہ بڑے خطرات بھی ہیں ؟ یہ تو بڑی تسلی بخش بات ہے۔ نیا بم کیا ہے ؟ ‘

یوشی نے تاش کے پتے نیچے رکھ دیے۔

‘ تم نے سنا نہیں ؟ ہیروشیما کے بارے میں؟ تین دن پہلے ؟ ‘

‘ تین دن ؟ ان تین دنوں میں تو میری کسی سے بات نہیں ہوئی ۔ ‘

یوراکامی کی پناہ گاہ جہاں ہیروکو رہتی تھی ، لوگوں سے اتنا کھچا کھچا بھرا تھا کہ اس کے لیے ہاتھ اٹھا کر بالوں کی لٹ پر آیا پسینہ بھی صاف کرنا مشکل ہے۔ فضائی حملوں کے سائیرن  کے ابتدائی  دنوں میں پناہ گاہوں میں اس قدر بھیڑ نہیں ہوا کرتی تھی۔ پڑوسی انجمن کے صدر(Chairman of the Neighbourhood) کو آخر کس بات نے اس جنون کے لیے اکسایا کہ راستہ پر چلنے والے ہر انسان کو گھیر کر پناہ گاہ میں پہنچا یا جا رہا تھا ؟ وہ منہ سے سانس چھوڑتی اور اپنا چہرہ تھوڑاسا صد ر کی بیوی کی طرف موڑ دیتی جو تیزی سے اپنا چہرہ ہیروکو  سے دوسری طرف کرلیتی۔ یہ جاننا ناممکن ہے کہ آیا یہ جرم ہے یا حقارت۔

صدر کی بیوی ، ہیروکو کی ماں کی بہت قریبی دوست ہوا کرتی تھی —- وہ یاد کرتی ہے کیسے وہ دونوں “سٹائیرو “ (Sutairu) کے نئے شمارے پر کتنا ہنسا کرتی تھیں ، جس کی اشاعت  جنگ سے کچھ دن پہلے ہی بند کردی گئی تھی : جنگ کے دوران جاپان میں ایسی کوئی اشاعت کی اجازت نہیں تھی جو خواتین کویہ اخلاق سکھاے کہ مغربی لباس کے ساتھ زیرجامہ پہنا جاے۔ ہیروکو کی ماں نے اپنے آخری وقت میں صدر کی بیوی کو بلا کر درخواست کی تھی کہ اس کے شوہر کی اسی سے حفاظت کرواے ۔ جنگ سے گھرے جاپان میں اس وقت جدید خواتین کے لیے نکلنے والے رسالہ کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی تو کسی بت شکن فنکار کا بھلا کیا مقام ہو سکتا تھا۔  صدر کی بیوی نے کافی عرصہ اپنا وعدہ نبھایا، اپنے شوہر کو سمجھاتی رہی کہ متسوئی تناکا (Matsui Tanaka) کا فوج اور سلطان کے خلاف غصہ میں پھٹ پڑنا ایک شوہر کا اپنی بیوی کے غم میں انتہائی بدحواسی کا اظہار تھا ۔ لیکن بہار کے موسم میں پڑوس کے گھر کے پاس سے گذرتے ہوے دیکھا کہ  پندرہ سالہ لڑکے کی موت جو کامی کازی (kamikaze) حملہ میں ہوچکی تھی ، اس کی قربانی کو یادگار بنانے کے لیے چیری بلاسم (cherry blossom) کے پھولوں سے سجایا جا رہا تھا۔ ( دوسری جنگ عظیم کا ایک لڑاکا ہوائی جہاز جس کا جاپانی پائلٹ ، کامی کازی ، اس خود کش حملہ کا حصہ تھا۔) ہیروکو سے بغیر کچھ کہے جو اس کے ساتھ خاموشی سے چل رہی تھی ، متسوئی تناکا نے پھرتی سے اپنی پتلون کی جیب سے دیاسلائی کی ڈبیا نکالی  اور تمام چیری بلاسم کے پھولوں کو آگ لگا دی۔

کچھ ہی لمحوں بعد ، خون سے لہولہان وہ زمین پر پڑا تھا ، اور مرحوم لڑکے کا باپ ان پڑوسیوں سے خود کو چھڑانے کی سخت جد و جہد کررہا تھا جو اسے روک رہے تھے ، اور ہیروکو اپنے باپ پر جھکی ہوئی تھی ، اور اسے صدر کی بیوی اوپر کھینچ رہی تھی۔

‘ تم خود ہی اس کی شکایت کردو،‘ خاتون نے کہا جو اس کی خالہ کی طرح تھی ۔ ‘ یہ مشورہ ہی ہے جو اس وقت  میں تمھیں تحفظ کے طور پر دے سکتی ہوں ۔‘

یقیناً اس نے سنا نہیں — جنگ کے دوران وقوع پذیر ہونے والی تنگ دستی اور مفلسی نے اگر چہ کہ اس کا تذبذب   کھو چکا تھا ،  لیکن وفاداری نہیں —- اور دوسرے دن تین چیزیں واقع ہو گئیں : فوجی پولس نے اس کے باپ کو جیل میں بند کردیا جہاں وہ دوہفتوں سے زیادہ عرصہ تک وہاں رہا ؛ اس اسکول کی پرنسپال نے ، جہاں وہ جرمن پڑھاتی تھی ، اسے ملازمت سے برطرف کردیا ، ان کے اسکول میں کسی غدار کی اولاد کے لیے کوئی جگہ نہیں ، اور یہاں کے طلباء کو کوئی غیر ملکی زبان سیکھنے کی ضرورت نہیں (یہ سب کہتے ہوے پرنسپال نے خود کے جسم کو سکیڑ لیا ، شائد اس نے سوچا وہ جتنی کم جگہ لیگا اتنی ہی کم حقارت کا سامنا کرنا پڑیگا ) ؛ اور جب وہ گھر لوٹی ، تو صدر اس کا انتظار کر رہا تھا یہ کہنے کے لیے کہ اس کا تقرر محکمہ حرب میں اسلحہ کی فیکٹری میں ہوگیا تھا۔

اب وہ صدر کی بیوی کو اشارہ دینا چاہتی ہے کہ اس خاتون نے کافی عرصہ بہت اچھی طرح اس کی  دیکھ بھال کی ہے ؛ لیکن کسی حد تک اب یہ اشارہ اسے ندامت کا احساس کروانے کے لیے ہے۔

کوئی نیا شخص پناہ گاہ میں داخل ہوا اور ہر کوئی پیچھے اور پیچھے دبتے چلے گیے ، گو کہ آہستہ آہستہ معزرت کی گنگناہٹ سنائی دے رہی تھی اس توہین آمیز ذلت والی حرکت کے لیے جہاں وہ تنگی جگہ کی وجہ سے  ایک دوسرے کے اتنے نزدیک ہورہے تھے کہ غیروں کی بغلوں اور جانگھ تک سے چِپکے جارہے تھے۔ ہیروکو کو ذرا سی جگہ دکھائی دی ، جو کسی ضرورت کے تحت نکل آئی تھی نہ کہ عملی طور پر ،  تو وہ دو لڑکوں کے درمیان گھستی چلی گئی۔وہ تیرہ، یا زیادہ سے زیادہ چودہ سال کے۔ ان ناگاساکی لڑکوں کو وہ جانتی ہے۔ ان کو بالکل ٹھیک ٹھیک نہ سہی ، لیکن  ان جیسے لڑکوں کو جانتی ہے۔ اس کا اندازا ہے کہ وہ لمبا لڑکا ،مغرورانہ انداز میں سر کو ایک طرف جھکاے کھڑا ہے ، اس کا مشغلہ لڑکیوں سے عشق کرنا ، یا نوجوان ٹیچرس کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانا ،  ان خیالی کہانیاں کو سنا کر جو وہ US واپس جاتے ہوے سوچے گا ،(جلد ، بہت جلد ، کم سے کم عمر والے پائلیٹ اس لڑکے سے بڑی عمر کے نہیں ہو سکتے)  کہ جس عورت کی طرف اس کا جھکاؤ ہے وہی اس کے بہادرانہ خیالات کی مرکز ہوگی۔

‘ تم جھوٹ کہہ رہے ہو، ‘ اس پستہ قد والے نے سرگوشی کی۔

اور اس دراز قد والے نے سر ہلادیا۔

‘ وہ جو ایک دوسرے کے بہت قریب تھے ان کی ہڈیاں ایک دوسرے کو چھو رہی تھیں ، اس لیے کہ وہ تو صرف ڈھانچے تھے۔ جب دور ہوتے تو انکی جلد چھلی ہوئی ہوتی ، انگوروں کی طرح ۔ اور اب یہ نیا بم (New Bomb) ! امریکی ہمیں ڈھانچے اور انگور بنا کر ہی دم لینگے۔‘

‘ خاموش رہو،‘ ہیروکو نے ایک ٹیچر کے انداز میں کہا۔ ‘ یہ جھوٹی باتیں کرنی بند کرو۔ ‘

‘ وہ سب جھوٹ نہیں ہے ……  ‘ لڑکے نے کچھ کہنا شروع کیا لیکن اس کی چڑھی ہوئی بھنؤوں نے اسے خاموش کروادیا۔

اس کے ایک پرانے طالب علم  — جوزف (Josef) ،  اوہکا (Ohka) ، ایک خود کش راکٹ   ، US کے مالبردار جہاز میں لیجا چکا تھا۔ اس نے ایک مرتبہ ہیروکو کو بتایا تھا کہ اس کی آخری فلائیٹ پر وہ اپنے ساتھ دو تصویریں لے جائیگا — ایک اس کے والدین کی ، چیری کے درخت کے نیچے کھڑے ہوے ، اور دوسری میرنا لاۓ (Myrna Loy) کی۔ میرنا لاۓ کی تصویر جب تم اس امریکی جنگی کو تباہ کروگے ؟ لیکن اسے بات کے اس انداز میں کوئی طنز محسوس نہیں ہوا۔ وہ پڑوس کا لڑکا تھا اور اسی وجہ سے ہیروکو کے باپ نے چیری بلاسم میں آگ لگا دی —- شائد اس نے یہ اپنی بیٹی کے لیے ہی کیا ہو۔ ایک ہی طریقہ جو وہ جانتا تھا یہ بتانے کے لیےکہ وہ اپنی بیٹی کے غم اور غصہ کو سمجھتا تھا ، اس کا بےزبان ہوجانا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کس بات پر زیادہ متعجب ہے — ممکن ھیکہ وہ سچ ہو ، یا یہ حقیقت کہ ایسا پہلے کبھی اس کے ساتھ ہوا نہیں۔ اس کی ماں کی موت کے بعد وہی اس خاموشی کی تشریح کیا کرتی رہی ، جب اس کے باپ کے پاس کہنے لائق کچھ نہیں ہوتا ، یا یہ بیٹی کے ساتھ نئے رشتے قائم کرنے کی نااہلیت ، جبکہ اس کی پیاری بیوی اس کے خیالات کی آواز بننے کے لیے موجود نہیں ہے۔

‘ ڈھانچے یا انگور ؟ ‘ اس دراز قد والے نے سرگوشی کی ۔ وہ بدبودار سانسیں لے رہی تھی۔

باہر ہوا ، درخت اور پہاڑ ہیں۔ خطرہ لیا جاسکتا ہے۔

وہ  راستہ بناتی ہوئی آگے جانے لگی ، اور وہ تمام لوگ جو ہمدرد بن کر مزید لوگوں کو اندر آنے کی اجازت دے رہے تھے ، اس کے باہر جانے پر غصہ کا اظہار کرنے لگے۔

‘ کیا کررہی ہو… جگہ نہیں ہے … پیچھے آجاؤ، پیچھے آجاؤ … ‘ کسی کی کہنی اس کی پسلیوں سے ٹکرائی۔

‘ میرے والد،‘ وہ پکارنے لگی۔ ‘ مجھے میرے والد کو ڈھونڈھنا ہے ۔ ‘

پناہ گاہ کی کچھ خواتین نے اپنے بچوں کو اوپر اٹھا لیا تاکہ ہیروکو کو باہر نکلنے کے لیے راستہ مل جاے۔

ایک آواز سنائی دی ، ‘ اس کا باپ متسوئی تناکا(Matsui Tanaka)  ہے ، ایک غدار، ‘ اور ساری پناہ گاہ میں ناخوشگواری کی لہر سی دوڑ گئی ، زیادہ لوگ اسے جگہ دینے لگے اس انداز میں کہ وہ نہیں چاہتے کہ ہیروکو وہاں  رہے۔

اسے کسی کی پرواہ نہیں ہے ۔ وہ اب باہر ہے ، بہت ساری تازہ ہوا اپنے اندر لیتے ہوے ، جو مقابلتاً زیادہ آرامدہ محسوس کر رہی ہے۔

وہ تیزی سے پناہ گاہ سے باہر نکل گئی ، اور پھر ، اطراف کے خالی پن کو دیکھتے ہوے اپنی رفتار دھیمی کر لی ۔ ایک زرد پتوں والے درخت کے نیچے ٹھہر کر ، ہاتھ اوپر اٹھا لیے ، دھوپ کے بہکتے دھبوں اور درخت کی ٹہنیوں سے ملنے والے سایوں کے متوازی ، جب ٹہنیوں کے جھومنے سے ہوا زمین تک بمشکل پہنچ پا رہی تھی۔ اپنے اوپر کیے ہاتھوں کو جلدی جلدی حرکت دینے لگی — جن پر فیکٹری میں کام کرتے ہوے اور بانس کے نیزوں میں سوراخ بناتے ہوے ، چھالے پڑ چکے تھے۔ یہ تو نہیں تھا جس کا تصور اس نے اپنی عمر کے اکیسویں سال میں کیا تھا۔ اس کی بجاے اس نے تو ٹوکیو کے بارے میں سوچا تھا —- ہیروکو تناکا ایک بڑے شہر میں ، عمدہ کپڑے پہنے کسی جاز کلب (jazz club) میں شراب کے پیالوں پر لپ اسٹک کے نشان چھوڑتے ہوے ، اس کے بال کانوں کے نیچے تک کٹے ہوے — یکہ و تنہا وہ بیس کی دہائی کی ‘جدید لڑکی ‘ کی طرز زندگی کی روح جو تیس کی دہائی میں “ سٹائرو“ نے پیش کیا ہے ، واپس لانا چاہتی ہے۔

لیکن وہ تو ایک طفلانہ خواب تھا۔ یا ، حقیقت میں ادھار لیا ہوا خواب ۔ اسے یاد آیا کیسے اس کی ماں ان دور حاضر کی جدید لڑکیوں کی کہانیوں  پر گہری سانس لیتی اور  ہنسا کرتی تھی ۔ اس کے خیال میں ان کی یہ دنیا اصل میں فرض شناس زندگی سے فرار کے سوا کچھ نہیں۔ وہ جیسے جیسے بڑی ہوتی گئی ، اس کا یقین اپنی ماں پر بڑھتا گیا — کس قدر اس نے اپنی زندگی اپنے شوہر ، بیٹی اور گھر کے لیے وقف کر رکھی تھی —- کبھی اس نے فرار کی خواہش نہیں کی ، صرف اس خیال سے لطف اندوز ہوتی رہتی کہ اس دنیا میں ایسے کسی نظریہ کا وجود ہے۔ اور یہاں ماں اور بیٹی کے خیالات ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ ہیروکو کے لیے کسی چیز کا جاننا اسے حاصل کرنا تھا۔ لیکن ایسی دنیا کی جھلکیاں تو رسالوں میں ہوتی تھیں ، کم از کم اس کی دنیا سے دور جہاں وہ پہنچ سکے اور ان زنگ آلود رنگ کے بالوں کو جڑ سے اپنی گرفت میں لے سکے۔

بہرحال وہ طفلانہ خواب اب ماضی بن چکے ہیں۔ اور اب کونریڈ ہے ۔ جیسے ہی جنگ ختم ہوگی وہ اور کونریڈ ہونگے ۔ جیسے ہی جنگ ختم ہوگی ، کھانے اور ریشم دستیاب ہونگے۔ وہ کبھی دوبارہ سرمئی رنگ نہیں پہنے گی ، استعمال شدہ چاے کی پتی دوبارہ کبھی استعمال نہیں کرینگے ، پھر کبھی بانس کے نیزوں کو نہیں اٹھائینگے ، کبھی فیکٹری میں یا بم سے بچاؤ کے لیے کسی پناہ گاہ میں داخل ہونگے ۔ جیسے ہی جنگ ختم ہوگی ، میں اور کونریڈ بحری جہاز سے بہت دور ایسی دنیا میں چلے جائینگے جہاں کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی۔

جنگ آخر ختم کب ہوگی ؟ جلدی تو بہرحال نہیں ہوگی ۔

وہ ازالیہ میانور سے دور چلا گیا ، تقریباً بھاگتے ہوے۔

یوشی کی آواز وہ سن رہا تھا جو اسے بلا رہا تھا کہ وہ واپس آجاے اور حالات ٹھیک ہونے تک انتظار کرے ، لیکن وہ اگر کچھ سوچ سکتا تھا تو بس یہ کہ اگر دوسرا نیا بم گرتا ہے تو وہ یوراکامی پر ہی گریگا : فیکٹریوں پر ، لوگوں سے بھری ہوئی اس پناہ گاہ پر۔ یہ پناہ گاہیں انھیں نہیں بچا پائینگی ، نہ ہی وہ جو یوشی کہہ رہا تھا۔ اور اگر وہ ہیروکو پر گرتا ہے ، تو اسے اس پر بھی گرنا ہوگا۔

اس نے اپنی رفتار بڑھا دی ، ہیروکو کی یادوں کے ساتھ دوڑتے ہوے : وہ گیٹ جس سے ہوتے ہوے وہ اس کی تلاش میں نکل پڑی تھی جیسے ہی یوشی کے بھتیجے نے اس کا لکھا خط اسے پہنچایا جس میں پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ کچھ خطوط اور ڈائریز کا ، مناسب قیمت پر ، جرمن میں  ترجمہ  کردیگی ؛ اسکول کا میدان جہاں وہ ابتدائی مہینوں میں ملا کرتے تھے ، تراجم کا تبادلہ اور پیسوں کی ادائیگی  ، ان کی ملاقاتوں میں نفع کے ساتھ بڑھتی رہی ؛ پبلک ٹرانسپورٹ کی طرف جا نے والی سڑک پر اس نے کونریڈ کی راشن کے بارے میں  افسردہ شکایت پر  اس نے گاتے ہوے کہا تھا ، ‘ ہاں ،ہمارے پاس کیلے نہیں ہیں ‘ (Yes,We Have No Bananas)، تب اسے پتہ چلا کہ وہ انگلش بھی اتنی ہی روانی سے بولتی تھی جتنی کہ جرمن ؛ چینی کوارٹر (Chinese quarter—چینی مہاجرین کی بستی) پر اس نے پہلی مرتبہ ہیروکو کو بہت زیادہ ہنسنے پر مجبور کردیا ان عجیب سی ترکاریوں کے عجیب سے نام دے کر : ہوا کی مار کھائی پتہ گوبھی (windswept cabbage) ، زمین کی گانٹھیں (knots of earth) ، حجریہ پھول (fossilised flower) ، بڑا لیکن کمزور آلو (lanky potato) ؛ میگانی۔ باشی یا عینک والا پل ،(Megane-Bashi, or Spectacles Bridge) جہاں کھڑے ہوے وہ پانی میں دیکھنے لگتے ، تب ہی ایک چھوٹی سی نقرئی مچھلی (silver fish) اچھل کر کونریڈ کے سینہ کے عکس پر سے اچھل کر ہیروکو کے عکس پر غوطہ لگایا اور وہ ‘اوہ ‘ کہتے ہوے پیچھے ہٹ گئی تقریباً اپنا توازن کھوتے ہوے ، لہٰذا کونریڈ نے اسے اپنے بازو میں سنبھال لیا تاکہ وہ سیدھی کھڑی رہ سکے ۔ اور یہاں — اس نے رفتار کم کردی ؛ ماحول پر سکون دکھائی دے رہا ہے ؛ خطرہ ٹل چکا تھا — آورا(Oura) کے کنارے پر کھڑے اس نے ہیروکو سے کہا کہ ناگاساکی میں اس کے پہلے موسم سرما میں اس منجمد ندی کے ساتھ ساتھ وہ چلتا رہا اور سطح آب کے نیچے مختلف رنگوں کے چھینٹوں کو دیکھتا رہا۔   (ناگاساکی میں قائم آورا کیتھولک چرچ جاپان کا سب سے پرانا چرچ ہے جسے 1865میں تعمیر کیا گیا تھا ، اور ان 26 جاپانیوں کےنام وقف کردیا گیا جنھیں ٹاۓ ٹومی ہائیڈیوشی (Toyotomi Hideyoshi) کے حکم پر ناگاساکی میں پھانسی دے دی گئی تھی۔)

‘ میں دیکھنے کے لیے قریب چلا گیا۔ اور تم سوچ سکتی ہو کہ میں نے کیا دیکھا ؟  ایک عورت کا نام ۔ ہانا (Hana) ۔ کسی نے سرخ سیاہی سے اسے لکھا تھا — وہ کوئی ہنرمند فنکار نے  یا کسی خبطی عاشق نے — جو اس فن سے اچھی طرح واقف تھا کہ پانی پر کیسے رنگوں سے لکھاجاتا ہے اس سے پہلے کہ پانی منجمد ہوجاے اور حروف بھی ایک جگہ جم جائیں ۔ ‘

بجاے اس کے کہ اپنا سر ہلاتی اور برف پر جمے اس نام کی عملی طور پر وضاحت دیتی ، جیسے وہ امید کررہا تھا، وہ غصہ ہو گئی۔

‘ تمھارا پہلا موسم سرما یہاں پر 1938 میں تھا۔ پھر ہم جلدی کیوں نہیں ملے ؟ اتنا سارا وقت برباد ہوگیا۔ ‘

یہ کونریڈ کے لیے پہلا اشارہ تھا کہ وہ —— غیرمعمولی اور حیرت انگیز طور پر —- کم از کم کچھ حد تک تو آگے بڑھی میرے احساسات پر اپنا رد عمل دینے کے لیے۔

وہ پھر متحرک ہوگیا ، مقصدیت نے دہشت اور گھبراہٹ کی جگہ لے لی۔ جرمنی کے مغلوب ہوجانے کے بعد کونریڈ نے ہیروکو سے کہا تھا کہ اس کے لیے محفوظ نہیں ہے کہ وہ  — ایک غدار کی بیٹی  —- اس کے  ساتھ زیادہ وقت  گذارے ۔ اور اب وہ ہفتہ میں دو مرتبہ ، صرف ایک گھنٹہ کے لیے ، ہمیشہ عوامی جگھوں  پر ملتے ، کبھی فوجی پولس ان کا پیچھا کرتی —- اور ایسے موقعوں پر وہ بلند آواز سے ، جاپانی زبان میں جاپان کی شاندار تاریخ کو دہرانے لگتے ، ہیروکو ایسا دکھاوا کرتی جیسے وہ کونریڈ کو معلومات دے رہی ہو۔ کونریڈ نے ہر ہفتہ اپنی لائبریری سے اس کے لیے جرمن اور انگلش کتابیں لا کر دینے کی ذمہ داری بھی ختم کردی تھی ، جبکہ اس کے لیے یہ بہت بڑا خوشی کا موقع ہوا کرتا تھاجب وہ  یٹس (Yeats) ، وا (Waugh) ، مان (Mann) کو جس مسرت کے ساتھ خوش آمدید کہتی؛ یہ تو پتہ نہیں کس کثافت یا طوالت کے ساتھ پڑھتی — شائد کبھی دو مرتبہ پڑھا ہو —- دوسرے ہفتہ کے آتے آتے۔ لیکن اب یہی ‘کتابیں ‘ ان کے درمیان معطل قربتوں کی فہرست میں شامل ہو گئی ہیں۔ اب جب بھی وہ ملتے ، ہیروکو شکایت کرتی کہ دنیا میں اشیاء پر قابو (rationing) جیسا کا تیسا ہے ، لیکن کونریڈ بالکل غیر متزلزل ہے ۔ جنگ کے بعد ، وہ ہمیشہ کہتا رہتا ہے۔ جنگ کے بعد ۔ صاف دکھائی دے رہا ھیکہ یوشی کے خیالات نے اسے کس قدر متاثر کیا ہے ۔

وادی سے گذرتے ہوے اس نے اوپر آسمان کے سامنے کھڑی پتھر سے تعمیر شدہ یوراکامی گرجا گھر (Urakami Cathedral) کی طرف دیکھا —- ابرآلود دنوں میں اس کی اداسی بتاتی ھیکہ بادل کا ہر ٹکڑا جیسے اپنے ابتدائی مراحل میں کسی مجسمہ ساز کے انتظار میں ہے کہ وہ اسے نیچے کھینچ کر ، تراش کر ایک مستحکم شکل دیگا ۔ اور اسے بھی تراش کر مستحکم  بنا دیا گیا —  غیر مادیت اور بے بنیادیت کے دن جا چکے ہیں ، نہیں جانتا کہ وہ جاپان میں کر کیا رہا ہے ، اپنے پیارے ملک سے بھاگا ہوا ، ایک مفرور ، جس نے بہت عرصہ  پہلے کسی کے لیے یا کسی کے خلاف لڑنے کی کوشش کرنی چھوڑ دی تھی۔ وہ مکمل طور پر جانتا ہے کہ وہ یہاں کیوں ہے ، کیوں یہی وہ جگہ ہے جہاں اسے ہونا چاہیے۔

اب وہ ندی اور گرجا گھر سے آگے اس ڈھلوان کی طرف مڑ گیا جس کے بارے میں ہیروکو نے اسے بتایا تھا — چاندی جیسی چھال والے درختوں کو چھیل کر انھیں سیاہ رنگ دیا گیا تاکہ چاندنی رات میں اسے اسٹیل کا مینار سمجھ کر کہیں دشمن آگ نہ لگا دے ( اور سب سے اونچی ٹہنیوں پر کسی نے تارے بنا دیے ہیں۔) اور پڑوس کی وہ ارغوانی چھتیں جو اسے اس کی نوٹ بکس کی یاد دلواتی ہیں ، اور ہر روز فیکٹری سے گھر آتے ہوے وہ اس کے پرندوں کو دیکھا کرتی ، ہر رات وہ ان کے پھیلے ہوے پروں کے نیچے سوجاتی۔

‘ کونریڈ – سین ؟ ‘ (Konrad-san)۔  وہ اپنے گھر کے برآمدہ میں پریشانی سے اس کی طرف دیکھتی کھڑی ہے۔ آخر یہ کیوں یوراکامی آیا ، کیا اس کے پڑوسیوں کو دیکھنے کے لیے ؟

کونریڈ نے مسکراتے ہوے فرضی مایوسی کا اظہار کیا۔ کئی مہینوں پہلے اس نے ہیروکو سے کہا تھا کہ وہ اسے ‘کونریڈ ‘ کہا کرے اور اس نے کہا تھا ، ‘اچھا نام ہے ، لیکن صرف اکیلا نام برہنہ سا لگتا ہے ۔‘ ایک خبیث مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی۔ ‘ ایک دن یہ مسلہ باقی نہیں رہیگا ۔ ‘

‘ تمھارے والد ہیں یہاں ؟ ‘

‘ پہاڑیوں میں چہل قدمی کے لیے گئے ہیں ۔ اندر آجائیں۔‘

اس نے لغزاں دروازہ (sliding door) کو کھولا  اور کونریڈ ، اس کے ساتھ اندر داخل ہونے سے پہلے جوتے چھوڑنے کی جگہ تلاش کرنے لگا ۔ اس کے اندر آنے سے پہلے ہیروکو سیڑھیوں پر چڑھنے لگی۔ اور وہ بمشکل اپنے اطراف دیکھ پایا کہ وہ ایک چھوٹا سا استقبالیہ کمرہ ہے ، جہاں مرکزی توجہ طلب وہ سیاہی ۔ اور ۔ برش ہے جس سے ناگاساکی کے سمندری منظر کی عکاسی میں رنگ بھرے جارہے ہیں —- ہیروکو کے والد کا کام ، اس نے صحیح اندازہ لگایا ، اس کے والد کے بارے میں تشویش ناک ا حساس کے ساتھ ۔  ہیروکو نے ایک بار کہا تھا کہ اس نے دنیا کے اصولوں پر سوال کرنے کا انداز اس نے اس کی ہدایات اور تدریس سے زیادہ اس کی خود کی مثال سے سیکھا ہے ، اور کونریڈ یہ قیاس کیے بغیر نہیں رہ سکا کہ متسوئی تناکا اپنی منقطع پرورش کو اسی لمحہ  ختم کردیگا جب اس کی بیٹی ایک جرمن کا اس سے تعارف کروائیگی ، وہ … کیا؟ … محبت کرتی ہے ؟

اوپر کی منزل پر وہ ایک کمرے میں داخل ہوتا ہے جہاں فرش پر بچھانے والا جاپانی گدا (Futon) لپیٹا ہوا رکھا ہے لیکن ابھی تک وہاں سے ہٹایا نہیں گیا۔ اس نے کوشش کی کہ وہ ہیروکو کے بستر کی طرف نہ دیکھے۔

ہیروکو بالکنی میں کٹہرے پر جھکی کھڑی ہے۔ یہ گھر ویسے توڈھلوان سے بہت اونچائی پر واقع ہے لیکن  تینوں طرف سے مکانوں سے گھرا ہے ، صرف بالکنی سے دور تک درختوں اور پہاڑیوں کو دیکھا جاسکتا ہے ۔ سواے درختوں اور پہاڑیوں کے۔

‘ تم نے کبھی  مجھے بتایا نہیں کہ تم گیلے پتوں سے بھرے سمندر سے صرف ایک غوطہ کی دوری پر رہتی ہو ۔ ‘ اس نے کہا۔

ہیروکو نے اس کی آستین کو چھوا ۔

‘ کیا تم ٹھیک ہو ؟ تم عجیب سے لگ رہے ہو۔ اور تم یہاں ہو ۔ کیوں؟ ‘

ہمیشہ کی طرح ان کی گفتگو جرمن ، انگلش اور جاپانی کے درمیان چلتی رہی۔ ان کا خیال میں وہ ایک خفیہ زبان میں بات کررہے ہوتے ہیں جو پوری طرح سے کسی کی سمجھ میں نہیں آسکتی۔

‘ میں تم سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں ۔ اور جواب کے لیے جنگ کے ختم ہونے تک انتظار نہیں کر سکتا۔ ‘ یہ کہتے ہوے اس نے خود کے وہاں آنے کے مقصد کو واقعیت کا رنگ دے دیا۔ ‘ کیا تم مجھ سے شادی کروگی ؟ ‘

ہیروکو کا ردعمل فوری آیا ۔ اس نے  دونوں ہاتھ اپنے کولہوں پر رکھا اور تن کر کھڑی ہوگئی ۔

‘ تمھاری ہمت کیسے ہوئی ؟ ‘

وہ تھوڑا پیچھے ہٹ گیا۔ وہ کیسے اتنا غلط ہوسکتا ہے ؟

‘ تم ہمت کیسے کرسکتے ہو یہ جانتے ہوے بھی کہ اس کے ساتھ ایک سوال جڑا ہے ؟ گذشتہ ہفتہ جب ہم نے جنگ کے بعد ، ساتھ میں دنیا کی سیر کرنے کے بارے میں بات کی تھی — کس حیثیت سے تم نے سوچا تھا کہ میں تمھارے ساتھ جانے کے لیے تیار ہو جاؤنگی ،  تمھاری بیوی نہ ہوکر ؟ ‘ جملے کا اختتام کونریڈ کے شرٹ میں ہوا جب اس نے ہیروکو کو اپنے قریب کھینچ لیا۔

امن و سکون ، اس نے سوچا۔ یہی امن کا احساس ہے۔

‘ دہلی نہیں ، ‘ کونریڈ کہا۔

وہ بالکنی میں ہی بیٹھے رہے ، انگلیوں کو ایک دوسرے میں الجھاتے ہوے۔

‘ لیکن میں الزی (Ilse) سے ملنا چاہتی ہوں ۔ وہ تمھاری بہن ہے اور مجھے اس سے ملنا چاہیے ۔ ‘

‘ سوتیلی بہن ، ‘ اس نے درست کیا۔ ‘ اور بہت عرصہ ہوگیا جب وہ الزی وائس (Ilse Weiss) ہوا کرتی تھی۔ اور اب وہ صرف الزبتھ برٹن (Elizabeth Burton) ہے۔ اور تم اس سے مل سکوگی — ہمارے ہنی مون پر تو نہیں۔ سچ کہوں تو ایک ہی شخص ہے جس سے  بنگل (Bungle ) پر ملنا چاہیے اور اوہ ! وہ سجاد ہے — اگر وہ ابھی بھی وہیں ہے تو۔ پیارا سا مسلم لڑکا جو جیمس (James) کے یہاں کام کیا کرتا ہے۔ یہ وہی لڑکا ہے جس نے مجھے اسلام میں مکڑی کی کہانی سنائی تھی ، یاد ہے ؟ ‘

ہیروکو نے اپنا سر اس کے کندھے سے ہٹایا۔

‘ بنگلہ ؟ ‘ (Bungalow)

‘ بنگل (Bungle) ، اوہ وہ ایک ذو معنی لفظ ۔ بنگل اوہ! ، سویل لائینس ، دہلی۔ شائد تم صحیح کہہ رہی ہو —- ہمیں جانا چاہیے ۔ اس پتہ سے بھلا کیسے کوئی انکار کر سکتا ہے ؟ ‘

‘ تم سنجیدہ تو نہیں ‘ ، وہ بڑبڑائی۔

‘ یہ نیا شکوہ ہے ۔ ‘ ہیروکو کے ماتھے کو چومتے ہوے کونریڈ نے کہا ۔ الزی نہیں چاہتی کہ ہم وہاں جائیں۔ میں نے کہا تھا تم سے کہ وہ اپنے “ جرمن تعلقات “ پر شرمندہ ہے۔ اور اسی وجہ سے میں نے اور میرے والد نے اس کے ساتھ تعلقات میں تخفیف کردی ۔ اور یہ سب جنگ سے پہلے کی بات ہے۔ اور اب کون جانتا ھیکہ وہ مجھے جانتی بھی ہے یا نہیں ؟ غالباً وہ ہر ایک سے کہتی ھیکہ چہرے کی خصوصیات سے ، خاص طور پر اس کی پیشانی کے لیے ، اس کی ماں کی طرف سے اس کا تعلق انگلو- سیکسون (Anglo – Saxon) نسل سے ہے۔ ‘

‘ او۔کے ،‘ ہیروکو نے کہا ۔ ‘ دہلی نا سہی ۔ نیو یارک کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ ‘

وہ حیران ہے کہ کہیں اس نے نئے بم کے بارے میں سن لیا ہو ۔ اور اس خیال نے اسے ہیروکو سے مزید قریب کردیا۔

اس نے طئے کرلیا کہ اس بات کی طرف توجہ دلوانے کی ضرورت نہیں کہ اگر چہ مطلع ابر آلود ہے پھر بھی جسمانی قربت زیادہ گرمی کا باعث ہو سکتی ہے۔ ہیروکو کا ذہن چھلانگ لگا کر جسمانی قربتوں کی سمت میں آگے بڑھ گیا کہ اس کے لیے تو شادی ضروری ہے۔ اس کو یہ جان کر تعجب ہوا کہ کونریڈ  کی شادی کی راتوں کے بارے میں  معلومات مجھ سے بھی بہت کم واضح ہیں۔ ہیروکو کا تجسس اس سلسلہ میں صرف ایک سرسری تصور ہے۔

‘ تمھارے والد جلد چہل قدمی سے واپس آتے ہونگے ، ‘ کونریڈ نے کہا۔ اور معذرت خواہانہ انداز میں کھڑا ہوگیا، اس کو اپنی طرف کھینچتے ہوے۔ ‘ میں نہیں چاہتا کہ وہ اپنے داماد کو پہلی مرتبہ اس طرح دیکھیں ۔ ‘

‘ رات کے کھانے کے لیے واپس آجاؤ۔ میں تمھاری پسند کے سارے یوراکامی کھانے بناؤنگی ، اور ساتھ ہی میسو۔ ذائقہ والا پانی بھی۔ (miso-flavoured water) ۔ ‘

‘ سننے میں تو بہت اچھا لگتا ہے۔ ‘

وہ اب ہیروکو کی طرف جس طرح سے دیکھا جارہا تھا ، اس نے فوری اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر صاف کیا جو کچھ بھی وہاں چپکا تھا۔ وہ نرمی سے مسکرایا ، اور اسے اپنی بانہوں کے گھیرے میں لیکر پیار کرنے لگا۔

بیشک وہ پہلے بھی اس سے پیار کرچکا ہے۔ کئی بار ۔ لیکن ہمیشہ جلدی جلدی میں کہ کہیں کوئی دیکھ نہ لے۔ لیکن اب یہ کچھ مختلف ہے۔ اس کی زبان کی رطوبت کا احساس ہے۔ انھیں ناگوار محسوس ہونا چاہیے ، لیکن ایسا ہوا نہیں۔ کچھ بھی ہو ، خیر۔ وہ حیران ہے کہ اس کے جسم کا کیا ردعمل ہونا چاہیے ، یہ کیسا احساس کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی اور پھر بھی یہ آشنائی۔

جب وہ ہٹ گیا تو ہیروکو نے کہا ، ‘ رکو، ‘ اور پھر وہ پیچھے کی طرف جھک کر کونریڈ کو لگ کر کھڑی ہوگئی۔

اس نے اپنا سر ہلایا  اس کا مطلب ‘ نہیں ‘ تو بالکل نہیں تھا بلکہ ‘ ابھی نہیں ‘  تھا ۔

‘ رکو۔ ‘

لیکن وہ پیچھے قدم بڑھا چکا ہے۔ اسے شک ھیکہ وہ پوری طرح سے سمجھ نہیں پائی کہ اس کے ناگزیر ہونے میں صرف ایک سانس کی دوری کا فاصلہ ہے۔

‘ میں رات کے کھانے پر آؤنگا۔ ‘ اس کے چہرے سے نظریں ہٹاے بغیر وہ پیچھے قدم بڑھاتا رہا۔

اسی طرح سے وہ سیڑھیوں سے نیچے جانے لگا ، اور وہ اپنی ہنسی روک نہیں سکی۔ لگ رہا تھا جیسے وہ کسی فلم کی ریل میں ہو جو اتفاق سے الٹی چلنے لگ گئی ہو ۔

‘ کہاں جارہے ہو؟ ‘

‘ میں نہیں جانتا … یوراکامی گرجا ! ‘

‘ اوہ ۔ کیا یہ وہی جگہ ہے جہاں ہم شادی کرنے جارہے ہیں ؟ ‘ آواز میں ناراضگی صاف طور پر موجود ہے۔

‘ بالکل نہیں ۔ تم کیتھولک بھی نہیں۔ ‘

‘ مسلہ وہ نہیں ہے ۔ میں پہاڑ پر شادی کرنا چاہتی ہوں ، نیچے سمندر کی طرف دیکھتے ہوے۔ ‘

‘ اور میں تمھاری طرف دیکھتا رہونگا۔ ‘ اس کا مسکرا کر کہنا شہوانیت سے زیادہ جذباتیت کا تاثر دے رہا ہے۔

اس کا یہ روپ بالکل نیا ہے ، اور وہ اپنی امید اور توقع کی سمجھ پرحیران ھیکہ وہ اس کے بیہودہ تبصرہ کا جواب ہوا میں تھپڑ لگا نے جیسا ہے۔

وہ برآمدہ میں الٹا ہی چلتا رہا۔

‘ تو پھر تم کیتھڈ رل کیوں جارہے ہو ؟ ‘

‘ فاد ر اسانو (Father Asano) نے کہا تھا کہ وہ مجھے کچھ کتابیں دینگے۔ ویسے مجھے کتابیں تو نہیں چاہیے ، لیکن وہ چونکہ ان چند لوگوں میں سے ہے جو اب بھی مجھ سے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں ، اور میں ان کے اس جذبہ کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتا ۔ ‘

‘ ہم ان سب لوگوں کو پیچھے چھوڑ دینگے ، کونریڈ ۔ ہم ایک جزیرہ تلاش کر لینگے جہاں صرف ہم دونوں رہینگے۔‘

پہلی مرتبہ اس نے کونریڈ کو بغیر اعزازی القاب کے مخاطب کیا ۔ وہ کچھ قدم آگے آیا ، ہیروکو کا بوسہ لے لیا ، یہ خیال کیے بغیر کہ پڑوسی دیکھ سکتے ہیں ۔

جب وہ جا چکا ، ہیروکو سیڑھیوں سے دوڑتی اوپر چلی گئی تا کہ کھڑکی سے اسے ڈھلوان سے نیچے جاتا ہوا دیکھے ، لیکن گھر کے زاویہ نے اسے اس کی اجازت ہی نہیں دی۔ اچانک ہی بہت حیرانی کے ساتھ اسے جیسے اپنے جسم سے آگاہی ہوئی ہو۔ عجیب سے بھاری پن اور ہلکے پن کی آمیزش —- اس کے اعضاء خوشی کے احساس سے بھر گیے ہوں ، تھک جانے کے باوجود ایسا احساس ہو رہا ہے جیسے اسے پر لگ گئے ہوں اور پوری طرح سے اسے زمین سے اڑا لیجا نے کے لیے تیار ہیں ۔

کمرے کے کونہ میں ایک صندوق رکھا ہے جس میں اس کے باپ نے اپنی بیوی کی بہت قیمتی یادیں محفوظ رکھی ہیں۔ اس نے صندوق کو کھولا اور دیکھا کہ اس میں ایک ریشمی چوغہ (silk kimono) جو تہہ کر کے سیپی کے نیچے رکھا ہے ، اور خطوط سے بھرا ایک لفافہ ۔

ہیروکو اس چوغہ کو صندوق سے باہر نکالتی ہے اور ہوا میں اچھالتی ہے۔ اور ریشم خود ہی پھیل جاتا ہے ، اور جو مربع کی شکل میں اوپر گیا تھا ، وہ مستطیل کی شکل میں نیچے آ گیا ؛ وہ دوبارہ اسے اوپر اچھالتی ہے اور اس بار چھت پر لگے لیمپ سے ٹکرایا ، لیمپ کے خول کو چھوتے ہوے آہستہ آہستہ اس کے منتظر ہاتھوں میں گر جاتا ہے۔ اور ہیروکو پورے کپڑے کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیتی ہے جیسے کسی آبشار میں گھر گئی ہو اور سوچتی ھیکہ جیسے اس نے کونریڈ کو اپنی گرفت میں لے لیا ہو، برہنہ ۔

 

وہ اپنا کام پر پہنا جانے والا سرمئی ڈریس (grey monpe) اور شرٹ  جو کبھی چمکتا ہوا سفید ہوا کرتا تھا ، اور اب کئی باردھلنے کے بعد اپنا رنگ کھو چکا ہے ،  نکال دیتی ہے۔ پھر سارے ہی کپڑے نکال دیتی ہے ۔ اس کے جسم کے اندر ایک عجیب سا احساس ہونے لگا جو وہ سمجھ نہیں پارہی ہے ، لیکن چاہتی ھیکہ وہ احساس جاری رہے۔ زیر جامہ کا خیال کیے بغیر اس نے چوغہ کی آستین میں ہاتھ ڈالا ، اور ریشم کی برقی لہروں نے اس کی جلد کو چھو لیا ہو ۔

کونریڈ یوراکامی کی وادی میں چلا جا رہا تھا ، اس کا دل اندر ہی اندر تہہ در تہہ لپٹتا جا رہا ہو ۔

ہیروکو باہر برآمدہ میں چلی آئی ۔ وہ پوری کی پوری ، گردن سے پیروں تک ریشم کا سفید ستون دکھائی دے رہی ہے۔ جس کے پیچھے تین سارس تیزی سے اپنے شکار پر جھپٹنے کے لیے نیچے چلے آرہے ہیں۔ وہ باہر پہاڑیوں کی طرف دیکھے جارہی ہے ، آج صبح کے بعد سے تو اسے ہر چیز پہلے سے زیادہ خوبصورت دکھائی دے رہی ہے۔ ناگاساکی اتنا خوبصورت پہلے کبھی دکھائی نہیں دیا۔ اس نے گردن پلٹا کر دیکھا یوراکامی گرجا کے مینار دکھائی دیے جنھیں کونریڈ دیکھا کرتا ہے جب بھی بادلوں کے درمیان خلا دکھائی دیتا۔ سورج کی روشنی ان کے درمیان سے گذرتے ہوے ان بادلوں کو ایک دوسرے سے  مزید دور  کر رہی ہے۔

ہیروکو۔

اور پھر ساری دنیا سفید ہوگئی۔

 

__________________

 

روشنی مادی ہے۔ اس نے ہیروکو کو آگے کی طرف پھینک دیا ، اس کے جسم کو بے ڈھنگے انداز میں پھیلاتے ہوے ۔

جب وہ زمین  پر گری تو دھول اس کے منہ ، اور ناک میں چلی گئی اور زمین کی گرمی سے وہ جلنے لگی ۔ اس کا پہلا رد عمل خوف تھا کہ اس کے گرنے سے اس کی ماں کا ریشمی چوغہ پھٹ گیا۔ وہ خود کو زمیں سے اٹھاتی ہے اور نیچے دیکھتی ہے۔  چوغہ پر غلاظت لگ گئی ہے لیکن وہ پھٹا نہیں ہے۔ پھر بھی کچھ غلط تو ہوا ہے۔ وہ کھڑی ہوگئی۔ ہوا اچانک گرم ہو گئی اور اس  کا احساس اسے اپنی جلد پر محسوس ہونے لگا۔ وہ اپنی پیٹھ پر بھی اس گرمی کو محسوس کرنے لگی۔ وہ اپنے ہاتھ کو کندھے کے پیچھے سے ڈال کر جہاں بھی ریشم لگا ہو ، سہلانے لگی۔ وہ ہاتھ کو مزید نیچے پہنچاتی ہے جہاں اس کا ہاتھ ایسی جگہ کو چھو لیتا ہے جو نا ریشم تھا اور نہ ہی جلد بلکہ شائد دونوں ۔ اس کو لگ رہا ہے اس احساس کا تعلق ضرور اس جلن سے ہے جو اس نے گرتے ہوے محسوس کیا ہے۔ اب کوئی احساس نہیں ہے۔ اس جگہ کو جو نہ جلد ہے اور نا ہی ریشم ، اس نے تھپتھپایا ۔ فی الحال کوئی احساس نہیں ہے۔

اس کی پڑوسن برآمدہ میں چلی آئی ۔

‘ یہ کیسی آواز تھی ؟ ‘  اس نے پوچھا ۔

ہیروکو  صرف چوغہ کے پھٹ جانے کے بارے میں سوچ رہی ہے ، اور یہ کہ اسے فوری اندر جا کر کپڑے تبدیل کرنے چاہیے ۔ ہیروکو اس پڑوسن کی چیخ کو سنتی ہے جب وہ مڑ کر گھر کے اندر داخل ہونے لگتی ہے۔  ہیروکو اپنی پیٹھ پر انگلیاں پھیراتی رہی ، سیڑھیوں سے نیچے جاتے ہوے ، جہاں سے کچھ ہی دیر پہلے وہ کونریڈ کے پیچھے بھاگی تھی۔ کبھی کچھ احساس ہوتا ہے ، کبھی نہیں ہوتا ہے ، جلد یا کچھ اور۔ جہاں جلد وہاں احساس ہے ۔ جہاں کچھ ہے ، وہاں کچھ نہیں۔ اس کی انگلیوں میں کپڑے کا ٹکڑا اٹک گیا،  کسی کے ساتھ چپکا ہوا ۔ ٹکڑا کس چیز کا ہے —- جلد کا یا ریشم کا ؟ وہ اب چوغہ کے بارے میں نہیں سوچنا چاہتی ۔ وہ اس کے کندھوں سے گر پڑا ، لیکن زمین کو چھوا نہیں ۔ کوئی چیز تھی جس نے ابھی بھی اس کو باندھے رکھا ۔

کتنی عجیب بات ہے ، وہ سوچنے لگی ، ایسے ہی لاپرواہی سے اپنے جسم کے اطراف ، سینہ کے نیچے ، چوغہ کی آستینوں کو لپیٹتے ہوے ۔

وہ کھڑکی کے پاس چلی گئی جہاں سے وہ کونریڈ کی ایک جھلک دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی جب وہ ڈھلوان پر نیچے دیکھتے ہوے ، راستہ تلاش کرتے ہوے چلا جا رہا  تھا۔ گھر ، درخت ، باہر لوگوں کا مجمع ، ایک دوسرے سے استفسار کرتے ہوے ، اپنے سروں کو ہلاتے ہوے ، باہر کی ہوا میں سانس لیتے ہوے۔

پھر۔

ہیروکو کھڑکی سے ہٹ جاتی ہے یہ خیال کیے بغیر کہ وہ تقریباً برہنہ ہے۔  اس کی آنکھوں میں کچھ مسلہ ہے۔ وہ ڈھلوان کے نیچے تک تو دیکھ سکتی ہیں ، لیکن اس کے آگے نہیں ۔ بجاے اس کے ، نئے مناظر کی ایجاد کرتی ہیں ۔ آگ ، دھواں ، اور دھویں کے ذریعہ کچھ بھی نہیں۔ دھویں سے ہو کر زمین جو اسے واپس آنے کے راستے کا احساس ہوا کرتی تھی ، وہاں اب کوئی احساسات نہیں ہیں ۔ اپنی پیٹھ پر وہ کسی قسم کے لمس کو محسوس کرتی ہے۔ اس کی انگلیاں تو اس کی پیٹھ کو محسوس کررہی ہیں لیکن اس کی پیٹھ  انگلیوں کے لمس کو نہیں محسوس کر پا رہی ہے۔ جلے ہوے ریشم نے گوشت کو جھلسا دیا ہے۔ کیسے ممکن ہے یہ ؟ یوراکامی وادی اس کے گوشت کی طرح بن چکی ہے۔ اس کا گوشت یوراکامی وادی بن چکا ہے۔ وہ اپنا انگوٹھا اس جگہ پر پھراتی ہے جو کبھی جلد ہوا کرتی تھی ۔ وہاں  ایک بے جان ، درد کے ساتھ ابھاربن چکا ہے ۔

سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ مردہ گوشت کا لمس ۔ بوُ — اس نے وہ جگہ تلاش کرلی کہ یہ بوُ کہاں سے آرہی ہے —- اس مردہ گوشت سے۔ آگ کی آواز —- کون جانتا تھا آگ غصہ میں اتنی زور سے دھاڑتی ہے ، اتنی جلدی دوڑنے لگتی ہے ؟ وہ تو اب ڈھلوان کی طرف دوڑی چلی جارہی ہے ؛ جلد ہی شائد اس کو بھی پکڑ لے ۔ صرف اس کی پیٹھ نہیں بلکہ وہ ساری کی ساری یوراکامی کی وادی بن جائیگی۔  کوئلہ سے ہیرا  —- وہ مختصراً خود کو ہیرا سمجھنے لگی ، پورا ناگاساکی ایک ہیرا جو زمین کو کاٹ رہا ہو ، جس کے ذریعہ دوزخ میں گرتے ہوے ۔ وہ مزید آگے کی طرف جھکنے لگی ،  اور دوبارہ دھویں سے یوراکامی گرجا کے میناروں کو دیکھنے لگتی ہے ، تب ہی وہ پڑوسن کے چیخنے کی آواز سنتی ہے۔

ہیروکو نیچے دیکھتی ہے ، ایک کیڑا رینگتا ہوا ان کے گھر کے طرف  پر آ رہا ہے۔ اب وہ سمجھ گئی۔ زمین کھل چکی ہے ، اور دوزخ نے اگلنا شروع کردیا ہے۔ پڑوسن کی بیٹی بانس کا نیزہ ہاتھ میں لیے اس رینگنے والے کیڑے کی طرف دوڑ رہی ہے  —- اس کی گرفت صحیح نہیں ۔ وہ کیڑا اپنا سر اٹھاتا ہے ، اور لڑکی کے ہاتھ سے نیزہ گرجاتا ہے ، اور وہ ہیروکو کے والد کا نام لیکر پکارنے لگتی ہے۔ وہ کیوں مد د کے لیے انھیں پکار رہی ہے ؟ ہیروکو تعجب کرتی ہے ، جب لڑکی وظیفہ کرنے لگتی ہے ، ‘ تناکا – سین ، تناکا -سین ، ‘ دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرہ کو تھامے  کیڑے کو گھورتے ہوے ۔

روشنی صرف آگ سے آرہی ہے۔ اس کی پڑوسن ، کہیں قریب سے ، ہیروکو کو آواز دے رہی ہے ۔ پڑوسن گھر کے اندر ہے ، اس کے نقش پا سیڑھیوں پر ہیں۔ یوراکامی گرجا کہاں ہے ؟ ہیروکو اپنے ہاتھوں سے ہوا میں مار کے اس کو صاف کرنے کی کوشش کرتی ہے جس نے گرجا کے میناروں کو اس کی بینائی سے چھپا رکھا ہے ۔ گرجا کہاں ہے ؟ کونریڈ کہاں ہے ؟

وہ گر کیوں رہی ہے ؟

______________________

 

 

ترجمہ نگار کا تعارف:

ڈاکٹر صہبا جمال شاذلی ہندوستان کے صوبہ مہاراشٹرا کے شہر ناندیڑ میں ساری تعلیم و تربیت ہوتی رہی۔ ۱۹۷۴ میں پیوپلس کالج ، ناندیڑ سے ایم۔ اے ( انگلش لیٹریچر) کیا۔

۱۹۹۷ء میں کاکتیا یونیورسٹی ، ورنگل، تلنگانہ اسٹیٹ سےPhD  کی ڈگری حاصل کی۔ حیدرآباد سے شائع ہونے والے اخبار ، سیاست ،میں اکثر آپ کے  مضامین چھپتے رہے۔ 1997ء سے نیوزی لینڈ میں مقیم ہیں۔

ڈاکٹر صہبا جمال شاذلی کی مطبوعہ کتابیں

  1. عکسِ ادب، (عالمی ادب سے 33 منتخب افسانوں کے اردو تراجم)، نیوزی لینڈ میں 2021ء میں شایع ہوئی۔
  2. کانچ کا زندان (ناول)، سلویا پلاتھ کے ناول The bell Jar کا اردو ترجمہ ، 2022ء میں سٹی بک پوائنٹ، کراچی پاکستان نے شایع کیا۔
  3. عورت کتھا (عالمی ادب سے خواتین ادیبوں کے افسانوں کے اردو تراجم) اس منتخبات میں آپ کے کیے چار افسانوں کے  تراجم شایع ہوئے۔
  4. کیتھرائن مینسفیلڈ کے بہترین افسانے، 2023ء میں سٹی بک پوائنٹ، کراچی سے شایع ہوئی۔
  5. جلے ہوئے سایے (ناول)، کاملہ شمسی کے مشہور ناول Burnt Shadows  کا اردو ترجمہ،پبلیشر : سٹی بک پوائنٹ، کراچی۔  ابھی اشاعت کے مراحل میں ہے، نومبر 2023 تک اشاعت کی امید ہے۔

آپ سے اس ای میل کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

sjshazli@yahoo.com

 

 

 

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے