fbpx
تراجمترجمہ افسانہ

ڈی ایچ لارنس کا افسانہ "دوسرا بہترین” (Second Best)

مترجم : فوزیہ مقبول (لاہور)

"اف ،میں تھک گئی !”فرانسس نے بہت واضح طور پہ کہا اور اسی لمحے وہ جھاڑیوں کی باڑ کے قریب گھاس پر دھڑام سے گر گئی ۔عینی تھوڑی دیر کے لیے حیران ہوئی مگر چوں کہ وہ اپنی پیاری فرانسس کی عجیب حرکات کی عادی تھی اس لیے کہنے لگی :”کیا تم کل کی طرح لیور پول کے مبارک سفر سے واپسی پہ ہمیشہ اسی طرح نہیں تھکی ہوتی؟”اور وہ بھی اپنی بہن کے پہلو میں نیچے گر سی گئی ۔عینی چودہ سال کی تھی اور ایک عقل مند اور نوجوان جسم کی مالک تھی۔وہ بہت خوب صورت ہونے کے ساتھ ساتھ عقل سلیم سے پوری طرح لبریز تھی۔ فرانسس اس سے کہیں بڑی تھی ،تقریبا تئیس سال کی ، مگر وہ بہت من موجی اور کبھی ٹک کے نہ بیٹھنے والی تھی ۔وہ پورے خاندان میں سے سب سے خوب صورت اور ہوش یار لڑکی تھی ۔اس نے اپنے لباس سے بد حواسی اور مایوس کن انداز سے صحنی گھاس کے تکمے اتارے۔اس کا خوب صورت چہرہ اس کے سیاہ بالوں کے حلقے میں تھا ،اس کی گرمی سے سانولائی اور ناشپاتی کی طرح سرخ سرخ جلد پر ماسک کی طرح سکون ہی سکون تھا مگر اس کے ہلکے بھوے رنگ کے ہاتھ بدحواسی سے تکمے اتارتے تھے۔

  ڈی ایچ لارنس (مصنف)                      

"یہ صرف سفر کی تھکاوٹ نہیں” اس نے عینی کی موٹی عقل پہ ماتم کرتے ہوئے کہا ۔عینی نے سوالیہ نظروں سے اپنی پیاری بہن کی طرف دیکھا ۔نوجوان لڑکی اپنی خود اعتمادی سے سیدھے سبھاو سے اس سنکی لڑکی کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔ اچانک اس نے فرانسس کی نظروں کو خود پہ پوری طرح جمے پایا ۔اسے محسوس ہوا کہ دو گہری اور تیز آنکھیں اسے مسابقت کی دعوت دے رہی تھیں ،وہ دبک گئی ۔فرانسس اپنے اسی طرح کے زبردست اور واضح تاثرات کے لیے مشہور تھی جو لوگوں کو اپنی جارحیت اور اچانک پن سے مایوس کرتے ہیں ۔

"بات کیا ہے ،بے چاری ،بوڑھی بطخ ؟” عینی نے اپنی بہن کے نازک ،سرکش وجود کو اپنی بانہوں میں سمیٹتے ہوئے کہا ۔فرانسس ایسے ہنسی کہ اس کا جسم ہلنے لگا اور پھر اس نے مضبوط جسم کی مالک اپنی بہن کے ابھرتے ہوئے سینے پہ آرام کے لیے اپنا سر ٹکا دیا۔

"وہ بس میں تھوڑا تھک گئی ہوں۔”  وہ دھیمے مگر آنسووں سے لبریز لہجے میں بولی ۔ "ہاں ہاں ،تم تھکی ہوئی ہو ،تو اب تم کیا چاہتی ہو؟” عینی نے شاد ہوتے ہوئے کہا ۔فرانسس کے لیے یہ صرف ایک لطیفہ تھا کہ عینی اس سے بڑی بہن یا قریب قریب ماں کا کردار ادا کرے۔مگر عینی جو اپنی آزردہ نو عمری میں تھی، اس کے لیے مرد بہت بڑے کتے تھے ،جب کہ فرانسس تئیس سال کی عمر تک بہت کچھ جھیل چکی تھی ۔

ابھی صبح ہی کا وقت تھا۔چراگاہ کی ہر چیز کے ساتھ اس کا سایہ بھی تھا ،اور پہاڑی حصہ بہت خاموشی سے گرمی خارج کرتا تھا۔ بھوری گھاس آگ پکڑنے کے قریب تھی اور بلوط کے پتے گہرے بھورے رنگ کے تھے۔ ان سیاہی مائل پتوں کے درمیان دور کہیں گاوں کے چھوٹے چھوٹے سرخ اور نارنجی رنگ کے گھر نظر آتے تھے ۔

ندی کے راستے پہ چراگاہ سے کچھ ہی قدم دور بید کے درخت ہیرے کی طرح کےچمکدار تاثر سے لرزاں تھے ۔

ہوا کا ایک جھونکا آیا۔ عینی پہلے کی طرح اپنی نارمل حالت میں بیٹھ گئی۔  اس نے اپنے گھٹنے پھیلائے اور اس نے مٹھی بھر فندق اپنی گود میں رکھے، جو سفیدی مائل ، پتہ دار تھے مگر ان کا ایک حصہ دھوپ میں پکنے کی وجہ سےبھورے اور گلابی رنگ کے درمیان کےرنگ کا تھا ۔ان کو وہ توڑنا اور کھانا شروع ہو گئی ۔جب کہ فرانسس جھکے سر کے ساتھ تلخی سے کچھ سوچنے لگی ۔

"سنو ،تم ٹام سامیڈلی کو جانتی ہو ؟ ” نوجوان لڑکی خول میں سے دانے کو نکالتے ہوئے شروع ہو گئی ۔ "ہاں میں جانتی ہوں ،” فرانسس نے طنز کے ساتھ جواب دیا۔ "اس نے مجھے ایک جنگلی خرگوش دیا تھا جو اس نے کہیں سے پکڑا تھا تا کہ میں اسے اپنے پالتو خرگوش کے ساتھ رکھ سکوں اور وہ اب بھی زندہ ہے۔ ” "بہت اچھی بات ہے "،فرانسس نے بڑے طنز بھرے اور الگ تھلگ لگنے کے انداز میں کہا ۔ "ہاں ایسا ہی ہے ,اس کا خیال تھا کہ وہ مجھے آلٹرن کی بڑی ضیافت پہ ساتھ لے کے جائے گا لیکن وہ مجھے کبھی لے کے نہیں گیا ۔دیکھو وہ اپنے ساتھ گرجے کی ایک ملازمہ کو  لے گیا ۔ میں نے اسے دیکھا تھا ۔

"اسے ایسا ہی کرنا چاہیے تھا "،فرانسس نے کہا ۔

"نہیں اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا !اور میں نے اسے یہ کہا بھی تھا اور میں اسے یہ بھی بتایا تھا کہ میں تمھیں بتاوں گی ۔اور میں نے تمھیں بتا دیا ۔”

ٹک کی آواز آتی اور جھٹ سے فندق کا دانہ اس کے دانتوں کے درمیان ہوتا۔وہ دانے کو چھلکے سے الگ کرتی تھی اور اسے بڑی خوش اسلوبی سے کھاتی تھی۔

"اس سے کوئی نہیں فرق پڑتا ،” فرانسس نے کہا ۔

"ہاں فرق تو نہیں پڑتا ،مگر میں اس بات پہ غصے سے پاگل ہو گئی تھی ۔”

"کیوں ؟”

"بس میں تھی ؛اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ملازمہ کے ساتھ جائے۔ ”

"اس کا پورا حق ہے ” فرانسس نے بڑا کورا ، سرد مہراور ہٹ بھراجواب دیا ۔

"نہیں اسے یہ حق نہیں ہے ۔اس لیے کہ اس نے مجھ سے ساتھ لے جانے کا وعدہ کیا تھا۔” فرانسس نے لطف اور سکون بھرا بھرپور قہقہہ لگایا۔

"اوہو میں تو بھول ہی گئی ،” اس نے مزید کہا، "اس نے کیا کہا تھا جب تم نے اسے مجھے یہ سب بتانے کا وعدہ کیا تھا؟”

"وہ ہنسا تھا اور اس نے کہا تھا کہ وہ اس بات کا بالکل بھی برا نہیں مانے گی ۔”

"اور وہ واقعی برا نہیں منائے گی۔ ” فرانسس نے سوں سوں کرتے ہوئے کہا ۔

اب ہر طرف خاموشی تھی ۔ چراگاہ اپنے خشک ،سنہرے سروں کے گوکھرووں ،بے آواز کانسی کے ڈھیروں ، دھوپ سے چمکتے ہوئے بھورے رنگ کے بھوسی کے رتموں کے ساتھ بہت قابل دید نظر آتی تھی ۔ندی کے پار اس طرف جنگل کے ساتھ زراعت کے بہت وسیع چوکور ساخت کی ہیئتیں شروع ہو جاتی تھیں ؛جو کی ٹھونٹھوں کی سفید بساط ،گندم کے چوکور قطعے،چراگاہ کے خاکی ٹکڑے،ہل چلانے کے بعد چھوڑی گئی زمین کی سرخ لمبی پٹیاں اور چھوٹا سا گاوں ،پہاڑوں کی طرف جاتے ہوئے دور دراز راستے پہ ،جہاں چیک دار ساختیں چھوٹی سے چھوٹی ہوتی گئی تھیں ، کسی آرائشی سامان کی طرح گہرے رنگ کا نظر آتا تھا ۔وہاں بہت دور گرمی کے سیاہی مائل بھورے رنگ میں صرف جو کی ٹھونٹھیں کے سفید ٹکڑے بہت دور بہت دور سےدکھائی دیتے تھے ۔

"ارے سنو ،دیکھو یہاں خرگوش کا بل ہے ” عینی اچانک چلائی ۔ "کیا ہمیں خرگوش کو باہر آتے دیکھنا  چاہیے ؟ تمھیں پتہ ہے کہ ہمیں بالکل بھی بے صبرا نہیں ہونا چاہیے ۔”

دونوں لڑکیاں بالکل ساکت ہو کے بیٹھ گئیں ۔فرانسس نے اپنے ارد گرد کی چیزوں پہ نظر دوڑائی ۔ان کے اندراس کے لیے ایک مخصوص، غیر دوستانہ سا تاثر تھا :ارغوانی رنگ کی چھال پہ سبزی مائل شبدر کی گوندنیوں کا وزن ؛پیلے ہوتے جنگلی سیبوں کی چمک، جو کہ چراگاہ کے آسمان پہ بہت بلندی پہ خوشوں کی شکل میں لگے تھے؛جنگلی گلابوں کے تڑمڑے بے جان پتے جو چراگاہ کی زمین پہ گرے پڑے تھے :یہ سب اسے بہت اجنبی لگا ۔تب اسے کچھ حرکت سی دکھائی دی۔ایک چھچھوندر بڑی خاموشی سے گرم سرخ زمین پہ ناک رگڑتے ہوئے ادھر ادھر گھوم رہا تھا ۔وہ بالکل چپٹا اور سایے کی طرح سیاہ تھا ۔وہ بہت تیزی مگر خاموشی کے ساتھ،بالکل خوشگواری کے احساس کے جن کی طرح ،ادھر ادھر گھوم رہا تھا ۔فرانسس اس چھوٹے سے جانور کو مارنے کے لیے حسب عادت عینی کو پکارنے لگی ۔مگر اسےآج غم کی غنودگی کچھ زیادہ تھی ۔وہ اس جنگلی جانور کو ہاتھ پاوں چلاتے ،سونگھتے،چیزوں کو دریافت کرنے کے لیے چھوتے،اندھے پن سے بھاگتے،دھوپ اور گرمی کو محسوس کرنے اور عجیب چیزوں کو اس کی ناک اور پیٹ سے رگڑ کھانے کی سرخوشی سے لطف اندوز ہوتے دیکھتی رہی۔اسے اس چھوٹی سی مخلوق پہ بہت زیادہ رحم آیا۔

"اے ہمارے قیمتی سکے ،دیکھو تو یہاں ایک چھچھوندر ہے ۔”

عینی اپنے قدموں پہ کھڑے ہوئے اس سیاہ ،ارد گرد سے بیگانہ جنگلی جانور کو دیکھتی رہی۔فرانسس کے ماتھے پہ فکر مندی سے بل پڑ گئے ۔

 

 

"اس سے بھاگا نہیں جاتا ،ہے نا ؟” نوجوان لڑکی نے نرمی سے کہا ۔تب وہ چپکے سے اس جانور تک پہنچی۔ چھچھوندر ٹٹولتے ہوئے دور چلا گیا تھا ۔ایک ہی لمحے میں عینی نے اپنا پاوں بڑی آہستگی سے اس پہ رکھ دیا ۔ فرانسس جوتے کے تلوے کے نیچےہاتھ پاوں مارتے جانور کو جدو جہد کرتے ،تیرنے کے انداز سے چلتے ننھے گلابی ہاتھوں کو ،اس کی آگے کو ابھری ہوئی بل کھاتی اور مروڑے کھاتی ہوئی ناک کو دیکھ سکتی تھی ۔

"یہ جھری میں جانا چاہتا ہے ،” ہڈیوں والے جسم کی مالک لڑکی نے پراسرایت کے جوش میں ماتھے پہ تیوریاں ڈالتے ہوئے کہا ۔پھر وہ اپنے شکنجے کو دیکھنے کے لیے جھک گئی ۔فرانسس اب جوتے کے تلوے کے کنارے سے پرے اس جانور کے مخملیں کندھوں کے ابھار،اندھے چہرے کے قابل رحم انداز سے ادھر ادھر مڑنےاور پاگلوں کی طرح چلتے ہوئے چپٹے گلابی ہاتھوں کو دیکھ سکتی تھی ۔

"اسے مار ڈالو” اس نے اپنا چہرہ دوسری طرف کرتے ہوئے کہا ۔

"اوہ نہیں میں اسے نہیں ماروں گی ،”عینی پیچھے ہوتے ہوئے ہنسی ۔”تم اسے مار سکتی ہو تو مار دو ۔”

"مجھے بالکل پسند نہیں "فرانسس نے بڑی شدت سے کہا ۔

کئی دفعہ ادھر ادھر ہاتھ مارنے کے بعد عینی اس جانور کو اس کی گدی سے پکڑنے میں کامیاب ہو گئی ۔جانور نے اپنا سر پیچھے گرا لیا،اس نے لمبی اندھی تھوتھنی اس طرف سے اس طرف گھمائی تو ایک مخصوص بیضوی زاویے سے کناروں پہ چھوٹے چھوٹے گلابی دانتوں  سمیت اس کا منہ کھلا ہوا تھا ۔اندھا پاگلوں کی طرح سے ہلتا منہ کھلا تھا اور اینٹھا بھی ہوا تھا ۔جسم جو کہ بھاری اور بھدا تھا ،بمشکل حرکت کرتے ہوئے لٹکا ہوا تھا ۔

"کتنا تیز چھوٹا سا جانور ہے "عینی نے ادھر ادھر مڑتے ہوئے اور اس کے دانتوں کے وار سے بچتے ہوئے غور کیا۔

"تم اس کا کیا کرو گی؟”فرانسس نے بڑی تیزی سے پوچھا ۔

"اسے مار ڈالنا ہے -دیکھو یہ کتنا نقصان کرتے ہیں ۔میں اسے گھر لے جاوں گی دایہ جی یا کسی اور سے کہوں گی کہ اسے مارڈالیں ۔میں اسے بالکل نہیں چھوڑ ں گی ۔”

اس نے بڑے اناڑی پن سے اپنی جیب کے رومال میں اس جانور کو لپیٹا اور اپنی بہن کے پاس نیچے بیٹھ گئی ۔اس وقت دونوں کے درمیان خاموشی کا ایک وقفہ تھا اس دوران میں عینی چھچھوندر کے ساتھ نبرد آزما ہوتی رہی ۔

"تم نے اس بار جمی کے بارے میں زیادہ باتیں نہیں کیں۔ کیا تم اس سے لیور پول میں اکثر نہیں ملتی رہی؟” عینی نے اچانک ہی پوچھ لیا ۔

"بس ایک بار یا دو بار ” فرانسس نے اسے اس طرح جواب دیا کہ عینی کو اندازہ نہ ہوپائے کہ اس کا یہ سوال اسے کس قدر چبھا ہے ۔

"اور کیا تم اب اس کے لیے نرم جذبات نہیں رکھتی ؟”

"مجھے یہ سوچنا چاہیے کہ میں ایسے جذبات نہیں رکھتی اس لیے کہ وہ منگنی شدہ ہے۔”

"منگنی شدہ ؟جمی برآس!میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ منگنی کر چکا ہے ۔”

"کیوں نہیں،ہر کسی کی طرح اس کا بھی یہ حق ہے ؟” فرانسس بولی ۔

عینی چھچھوندر کو ٹٹول رہی تھی۔

"ہاں ایسا ہے ،” اس نے تفصیل سے جواب دیا ؛مگر میں نے جمی کے بارے میں ایسا کبھی نہیں سوچا تھا۔

"کیوں نہیں ؟” فرانسس بولی ۔

"میں نہیں جانتی – یہ چھچھوندر ،یہ کبھی بھی سکون سے نہیں بیٹھے گا !- اس کی منگنی کس سے ہوئی؟”

"مجھے کیا پتہ؟”

"مجھے لگا تمھیں پتہ ہو گا ؛تم اسے کافی عرصے سے جانتی ہو نا ۔میرا خیال ہے کہ اس نے سوچا ہو گا کہ اسے اب منگنی کر لینی چاہیے اس لیے کہ وہ کیمیا کے مضمون میں ڈاکٹری کر چکا ہے ۔”

فرانسس نہ چاہتے ہوئے بھی ہنسی۔

"اس بات کا اس سے کیا تعلق ہے بھلا ؟” اس نے پوچھا۔

"میرا خیال ہے کہ اس کا تھوڑا بہت تو تعلق ہے ہی ۔وہ اب کسی کو محسوس کرنا چاہتا ہو گا، اس لیے اس نے منگنی کر لی ۔ارے ،رکو ؛اندر چلو !”

مگر اس بار چھچھوندر واضح طور پہ ہلنے جلنے میں کامیاب ہو گیا ۔ اس نے ہاتھ پاوں مارے اور پاگلوں کی طرح ادھر ادھر مڑا ، اپنا رکا ہوا سر ادھر ادھر ہلایا ،اس کا منہ چھوٹے سے نیزے کی طرح کھلا تھا اور اس کے جھریوں زدہ ہاتھ پھیلے ہوئے تھے ۔

"خود بخود اندر چلے جاو”،عینی اسے اپنی شہادت کی انگلی سے چھیڑتے ہوئے اسے دوبارہ رومال کے اندر لے جانے کی کوشش کرتے ہوئے چلائی ۔اچانک وہ اس کی انگلی کی طرف بجلی کی سی تیزی سے مڑا ۔

"آہ !اس نے مجھے کاٹ لیا ۔” وہ چلائی ۔

اس نے اس چھچھوندر کو فرش پہ گرا دیا ۔

وہ اندھا جانور بدحواس ہو گیا اور ادھر ادھر بھاگنے لگا ۔فرانسس کو لگا کہ اس کی چیخ نکل جائے گی ۔اسے توقع تھی کہ وہ بجلی کی سی تیزی سے ایک چوہے کی طرح بھاگ جائے گا ،مگر وہ اندھوں کی طرح ادھر ادھر گھوم رہا تھا ؛وہ اسے بھاگ جانے کے لیے کہنے کے لیے چلانا چاہتی تھی۔عینی نے غصے میں اچانک ہی اپنی بہن کی عصا اٹھائی ۔ایک ہی وار میں چھچھوندر مر چکا تھا۔فرانسس حیران اور ہکا بکا تھی ۔ایک لمحے میں بے چارہ جانور اس گرمی میں ہلچل مچائے ہوئے تھا اور دوسرے ہی لمحے وہ ایک ننھے سے تھیلے کی طرح پڑا تھا، بالکل ساکت اور سیاہ-کوئی بھی ہل جل نہیں تھی،معمولی سی جنبش بھی نہیں تھی ۔

"یہ مر چکا ہے ۔” فرانسس نے رکے ہوئے سانس کے ساتھ کہا۔عینی نے اپنی انگلی اپنے منہ سے باہر نکالی اور اس پہ موجود چھوٹے سے سوراخ کو دیکھا اور کہا :”ہاں وہ مر چکا ہے ،اور میں اس بات پہ خوش ہوں ۔یہ جو چھچھوندر ہیں  نا یہ چھوٹی چھوٹی سی پریشانیاں ہیں۔ ”

اس کے ساتھ ہی اس کا سارا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا ۔ اس نے مرے ہوئے جانور کو اٹھایا۔

"اس کی جلد کتنی پیاری ہے،” اس نے اپنی شہادت کی انگلی کو اس پہ مارتے ہوئے اور پھر اپنی گردن کے ساتھ اسے لگاتے ہوئے پورا لطف لیا ۔

"رکو ،” فرانسس نے تیزی سے کہا ۔ "تمھارے سکرٹ پہ اس کا خون لگ جائے گا !”

چھچھوندر کی چھوٹی سے تھوتھنی پہ یاقوتی رنگ کا ایک قطرہ گرنے کو تیار تھا ۔عینی نے اسے ہلا ہلا کر جنگلی سنبل کی طرف پھینک دیا ۔فرانسس اچانک سے پر سکون اور مضبوط ہو گئی ۔

"میرا خیال ہے کہ انھیں مار ڈالنا چاہیے ،”اس نے کہا اور اس کے غم میں ایک اداس کرنے والی لاتعلقی شامل ہونے میں کامیاب ہو گئی ۔جگمگاتے جنگلی سیب اور بید کے درخت کی چمک اب اسے معمولی اور ناقابل توجہ لگنے لگی ۔اس کے اندر جیسے کچھ مر گیا تھا ،اس لیے ان چیزوں نے اس کی نظر میں اپنا مقام کھو دیا تھا ۔وہ اپنی خاموش اداسی میں ضرورت سے زیادہ ہی لاتعلق اور پرسکون تھی ۔اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے وہ ندی کے راستے پہ چلنے لگی ۔

"سنو ،میرا انتظار کرو ،” عینی اس کے پیچھے دوڑتی ہوئی چلائی ۔

فرانسس ندی کے پل پہ کھڑی ہو گئ اور سرخ گارے کو جو مویشیوں کے پایوں سے کفچوں میں بدل چکا تھا دیکھنے لگی ۔پانی کی کوئی بھی نالی نہیں بچی تھی مگر پھر بھی ہر چیز سرسبزو شا داب تھی۔وہ عینی کا اتنا کم خیال کیوں رکھتی ہے ، حال آں کہ وہ اس کی دیوانی ہے !اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔وہ سب ہی کا خیال کیوں نہیں کرتی ؟وہ نہیں جانتی تھی ، بس اتنا جانتی تھی کہ اپنی لاتعلقی اور الگ تھلگ رہنے کی عادت میں وہ ایک ہٹ بھرا غرور محسوس کرتی تھی ۔

وہ دونوں ایک کھیت میں داخل ہوئیں جہاں جو کے گٹھے قطار میں پڑے تھے اور مکئی کی سیدھی سنہری بالیاں بہت بڑی تعداد میں زمین پر پڑی تھیں ۔بھوسا شدید موسم گرما کے باعث سنہری ہو چکا تھا اس لیے وہ پورا رقبہ چمکتے ہوئے سفید رنگ کا نظر آتا تھا ۔اس سے اگلا کھیت دوسری فصل کے بیجوں کے لیے بہت نرم اور اچھا تھا ،پتلے ادھر ادھر بکھرے ہوئے سہ شاخے جس کے ہلکے گلابی گمڑے تھے گہرے رنگ کے سبزے میں آرام سے کھڑے تھے ۔اس کی بو ہلکی اور بیمار کر دینے والی تھی ۔دونوں لڑکیاں آگے پیچھے چلتی ہوئی آئیں ،فرانسس آگے تھی ۔در وازے کے پاس ہی ایک نوجوان مویشیوں کے شام کے چارے لیے درانتی سے گھاس کاٹ رہا تھا ۔جیسے ہی اس نے ان دونوں لڑکیوں کو آتے دیکھا اس نے کام کرنا بند کر دیا اور وہ بے مقصد سے انداز میں ان کا انتظار کرنے لگا ۔فرانسس سفید ململ میں ملبوس تھی اور وہ بڑی شان سے مگر بھول بھلیوں میں کھوئی اپنے ارد گرد سے بیگانہ چلی آتی تھی۔ فرانسس کے خیالات کے الجھاو سے عاری ،سادہ اور بے ہنگم قدم اٹھانے نے اسے بد حواس کر دیا ۔وہ دور بہت دور رہنے والے جمی سےپچھلے پانچ سال سے محبت کرتی آئی تھی جس کے بدلے میں اسے اس کی طرف سے صرف ادھورے اقدامات ہی ملے تھے ۔ٹام نے اسے بس تھوڑا سا ہی متاثر کیا تھا ۔ٹام درمیانے قدو قامت کا ایک توانا آدمی تھا ۔ اس کا ملائم سفید رنگ کی جلد والا چہرہ دھوپ سےجل کر بھورا ہونے کی بجائے سرخ ہو گیا تھا ،اور یہ سرخی مائل رنگت اس کی نرمی اور اچھی حس مزاح والے حلیے کو اور بھی بہتر بناتی تھی ۔فرانسس سے صرف ایک سال بڑا ہونے کی وجہ سے وہ اس سے بہت پہلے ہی عشق کا اظہار کر چکا ہوتا اگر وہ ذرا سی بھی مائل ہوتی ۔اسی لیے وہ بہت سی لڑکیوں سے باتیں کرنے کے نا گوار راستے پر بھی خوشی خوشی چلتا رہا ،مگر وہ ہمیشہ خود کو کسی بھی قسم کی پریشانی کا شکار ہونے سے بچاتا رہا تھا ۔جیسے ہی وہ دونوں لڑکیاں اس کے قریب پہنچیں اس نے اپنے پاجامے کو شعوری طور پہ تھوڑا سا جھٹکا ۔فرانسس بڑی نازک اور نادر تھی ،جس کے لیےوہ اپنی رگوں میں ایک عجیب مگر لطف آگیں ہیجان محسوس کرتا تھا ۔فرانسس نے اسے ہلکا سا دم گھنٹے کے احساس سے دو چار کیا۔اس صبح فرانسس نے اسے معمول سے زیادہ متاثر کیا ۔وہ سفید لباس میں ملبوس تھی ۔تاہم،در حقیقت، وہ اپنی ذہنی رو میں اس بات کو بالکل بھی جان نہیں پایا۔اس کے محسوسات کبھی بھی احساس اور لگن سے بھرپور نہیں ہوئے تھے ۔فرانسس کو پتہ تھا کہ وہ کیا کرنے جا رہی ہے ۔ وہ جب بھی ٹام پہ اپنی محبت ظاہر کرے گی وہ اسی وقت اس سے پیار کرنے کو تیار ہو جائے گا ۔اب جب وہ جمی کو حاصل نہیں کر سکتی تھی اور اسے اس کی بالکل پروا نہ تھی ۔اب بھی اسے کچھ نہ کچھ تو مل جائے گا ۔اگر وہ جمی جیسا بہترین حاصل نہیں کر سکتی جس کے بارے میں اس کی رائے تھی کہ وہ ایک خود پسند انسان ہے ،تو وہ دوسرا بہترین ٹام تو حاصل کر ہی سکتی ہے ۔وہ قدرے بے پروائی سے آگے بڑھنے لگی ۔

"تو تم واپس آ گئی !” ٹام نے کہا ۔اس نے محسوس کیا کہ اس کی آواز میں کچھ بے یقینی کی کیفیت ہے ۔

"نہیں ” وہ ہنسی ، "میں ابھی تک لیور پول ہی میں ہوں ،” اور اس کی قربت کے دھیمے لب و لہجے سے اس کے اندر ایک آگ سی لگ گئی جس میں وہ جلنے لگا ۔

"یہ تم نہیں ہو ؟” اس نے پوچھا۔

اس کا دل منظوری کے لیے بلیوں اچھلنے لگا ۔اس نے اس کی آنکھوں میں دیکھا اور اگلے ہی لمحے وہ اس کے ساتھ تھی۔

"کیوں ،تمھیں کیا لگتا ہے ؟” وہ کھلکھلائی ۔

اس نے اپنی ہیٹ دھیان بٹانے کے لیے اپنے سر سے ذرا سی اٹھائی ۔وہ اس کو ،اس کے انوکھے انداز کو ،اس کے مزاح کو ،اس کی ناسمجھی کو اور حتی کہ اس کی تساہل سے بھرپور مردانگی کو بھی پسند کرتی تھی ۔

"یہ دیکھو ،ٹام سامیڈلی”، عینی نے اچانک کچھ دکھایا۔

"چھچھوندر !کیا یہ تمھیں مردہ حالت میں ملا ہے ؟” اس نے پوچھا ۔

"نہیں ،اس نے مجھے کاٹا تھا ،” عینی نے کہا ۔

” اوہ ،اور اس وجہ سے تمھیں شدید غصہ آگیا اور تم نے اس پہ نکال دیا ،ایسا ہی ہوا ہے نا ؟”

"نہیں ایسا نہیں ہوا ،”عینی نے اسے تیزی سے ڈانٹا ۔”

"نشتر زبان!”

"اوہ، اس میں مسٔلہ کیا ہے ؟”

"میں تمھارا اتنا کھلا بولنا برداشت نہیں کر سکتی۔”

"تم نہیں کر سکتی ؟”

اس نے فرانسس کی جانب نظر دوڑائی ۔

"تمھاری زبان اتنی اچھی نہیں ہے۔ ”  فرانسس نے کہا ۔ اسے اصل میں اس بات کی پروا نہیں تھی ۔ اس کی بیہودہ انداز گفتگو اصولی طور پہ اس کے لیے نا موافق تھا ؛اس لیے کہ جمی ایک مہذب انسان تھا ۔لیکن ٹام کے انداز گفتگو سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔

"میرا جی چاہتا ہے کہ تم اچھی گفتگو کرو "، اس نے مزید کہا ۔

کیا واقعی تم چاہتی ہو ؟” اس نے اپنی ہیٹ کو جھکاتے ہوئے جواب دیا اور اسے ذرا سی حرکت دی ۔

"اور تم جانتے ہو کہ تم اکثر ایسی ہی گفتگو کرتے ہو ،” وہ مسکرائی۔

"مجھے ایسی گفتگو کرنے کی کوشش کرنا ہو گی "، اس نے شدید عاشقانہ انداز سے کہا ۔

"کیا”اس نے بڑی آب وتاب سے پوچھا ۔

"یہی کہ تم سے اچھا اچھا بولوں ،” اس نے کہا ۔فرانسس کا رنگ سرخ ہو گیا اس نے اپنا سر جھکادیا اور بڑی خوش دلی سے مسکرائی ،ایسے جیسے اسے یہ بے ڈھنگا سا اشارہ پسند آیا ہو ۔

"سنو،جو تم کہہ رہے ہو اب اس بات کا خیال رکھنا "، عینی نوجوان آدمی کو ایک تنبیہی تھپکی دیتے ہوئے چلائی ۔

"تمھیں اس چھچھوندر کو اتنی زیادہ ضربیں نہیں لگانی چاہیے تھیں "، اس نےاپنے بازو کو مسلتے ہوئے اسے چھیڑا کیوں کہ اسے یہ سکون تھا کہ اب وہ محفوظ ہے ۔

"نہیں ،وہ تو ایک ہی ضرب میں مر گیا "، فرانسس نے بے پروائی سے جواب دیا جو اس کے لیے قابل نفرت بات تھی۔ "اچھا تو تم ضرب لگانے میں اتنی اچھی نہیں ہو ،ہمم؟”اس نے فرانسس کی طرف مڑتے ہوئے کہا ۔

"مجھے نہیں پتہ ، ہاں اگر مجھے غصہ ہو تو ۔۔۔” اس نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔

"نہیں نا ؟” اس نے پوری توجہ کے ساتھ جواب دیا ۔

"میں اس سے بھی زیادہ زور سے مارتی، اگر ضروری ہوتا تو ” اس نے مزید کہا ۔

وہ اس میں آنے والے اس فرق کو محسوس کرنے میں کچھ تاخیر کر رہا تھا ۔

"اور کیا تم نہیں سمجھتی کہ یہ ضروری تھا "، اس نے اندیشے بھرے انداز سے پوچھا ۔

"اچھا تو یہ ضروری تھا ؟” اس نے بات اسے تواتر سے اور سرد مہری سے دیکھتے ہوئے کہی ۔

"میرا خیال ہے کہ یہ ضروری تھا "، اس نے اس یہ بات کہیں دور دیکھتےہوئے مگر مضبوطی سے اپنے قدموں پہ کھڑے رہ کے کہی ۔

وہ فورا مسکرائی ۔

"لیکن میرے نزدیک یہ ضروری نہیں تھا ،” اس نے تھوڑی حقارت سے کہا۔

"ہاں ،یہ بالکل سچ ہے ،” اس نے جواب دیا ۔

وہ اپنا جسم ہلاتے ہوئے ہنسی ۔

"میں جانتی ہوں کہ ایسا ہی ہے ،” اس نے کہا ؛اور پھر اس کے بعد ایک بے ڈھنگا سا وقفہ تھا ۔

"تو پھر تم یہ کیوں چاہو گے کہ میں چھچھوندروں کو ماروں ؟” اس نے تھوڑی دیر کے بعد آزمائشی انداز سے پوچھا ۔

"وہ ہمیں بہت نقصان پہنچاتے ہیں ،” اس نے اپنی جگہ پہ مضبوطی سے قدم جمائے ہوئے غصے میں جواب دیا ۔

"اچھا ،جب بھی مجھے چھچھوندر نظر آیا تو میں اس بات کا خیال رکھوں گی ،” اس نے یقینی انداز سے وعدہ کیا ۔ان دونوں کی نظریں ملیں اور وہ اس کی آنکھوں میں ڈوب گئی ،اس کا غرور مشکل میں پڑ گیا ۔ٹام نے خود کو کچھ بے چین ،فاتح اور حیرت زدہ پایا ایسے جیسے تقدیر اس پہ مہربان ہو گئی ہو۔وہ یہاں سے رخصت ہوتے ہوئے مسکرائی۔

"اچھا ” عینی نے کہا جیسے ہی وہ دونوں بہنیں گندم کی بالیوں میں سے گزریں ۔ "مجھے یقین ہے کہ مجھے بالکل نہیں پتہ کہ تم دونوں کس بات پہ الجھ رہے تھے ۔”

"کیا تم واقعی نہیں جانتی ؟” فرانسس بڑے معنی خیز انداز سے مسکرائی ۔

"نہیں میں نہیں جانتی ،لیکن اتنا جانتی ہوں کہ میرے حساب سے ،ٹام سامیڈلی ہر طرح سے جمی سے کہیں بہتر ہے۔ وہ زیادہ مناسب اور زیادہ اچھا ہے ۔”

"غالبا وہ ایسا ہی ہے ،” فرانسس نے سرد مہری سے جواب دیا ۔

اور اگلے ہی دن ایک پراسراراور مسلسل تلاش کے بعد اسے ایک اور چھچھوندر گرمی میں کھیلتا ہوا مل گیا ۔اس نے اسے مار دیا اور شام میں جب ٹام رات کا کھانا کھانے کے بعد دروازے پہ آیا ۔وہ اسے اس کے پاس لے گئی ۔

"یہ دیکھو !” اس نے کہا ۔

"کیا تم نے اسے پکڑا ؟” اس نے مخملیں مردہ جانور کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے اور اس کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے کہا ۔اس نے یہ دراصل اپنے ہیجان کو چھپانے کے لیے کیا ۔

"کیا تم یہ سوچتے تھے کہ میں یہ نہیں کر سکتی "، اس نے اپنا چہرہ اس کے چہرے کے قریب لاتے ہوئے کہا ۔

"نہیں ،میں نہیں جانتا تھا ۔”

وہ اس کے چہرے کے بالکل قریب ہنسی ،ایک عجیب چھوٹی سی ہنسی جو اپنے ساتھ اس کا اپناسانس ،اس کی اپنی بے بے چینی ،اس کے آنسو اور اس کی چاہت کی بے پروائی بھی اپنے ساتھ کھینچ لے گئی ۔وہ خوف زدہ سا اور پریشان نظر آیا ۔فرانسس نے اپنا ہاتھ اس کے بازو پہ رکھا ۔

"کیا تم میرے ساتھ باہر جاؤ گی ؟” اس نے  بہت مشکل سے  اور گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔

فرانسس نے اپنا چہرہ دوسری طرف پھیر لیا مگر ہنستے ہوئے اس کا جسم لرز رہا تھا ۔ٹام کے خون کی گردش

بہت تیز ہو گئی اور اس پہ حاوی ہونے لگی ۔اس نے اس کیفیت سے بچنے کی کوشش کی ۔مگر اسے شکست ہو گئی اور وہ اس رو میں بہتا چلا گیا ۔اس کی دل کش، نازک گردن دیکھ کر اس کے اندر فرانسس کے لیے شدید پیار اور نرمی کا احساس جاگا ۔

"ہمیں تمھاری ماں کو بتانا پڑے گا ۔” اس نے یہ کہا۔ وہ اس کے لیے اپنی محبت کی اذیت سہتا اس سے مقاوم کھڑا رہا ۔

"ہاں ،” فرانسس نے مری ہوئی آواز میں جواب دیا مگر اس مردنی میں کہیں خوشی کا جوش بھی جاگزیں تھا ۔

 

ترجمہ نگار کا تعارف:

فوزیہ مقبول

فوزیہ مقبول کا تعلق لاہور سے ہے۔ وہ ضلع شیخوپورہ کے ایک قصبے فاروق آباد میں پیدا ہوئیں ۔ابتدائی تعلیم لاہور ہی سے حاصل کی ۔ اسلامیہ کالج کوپر روڈ لاہور سے ایف اے اور بی اے کیا ۔اس کے بعد وہ اوریئنٹل کالج پنجاب یونیورسٹی جیسے تاریخی ادارے سے وابستہ ہوئیں انھوں نے یہیں سے ایم اے اردو اور ایم فل اردو کیا اور یہیں سے پی ایچ ڈی اردو کی۔ان کو شعرو شاعری سے بے حد لگاؤ ہے ۔اس کے علاوہ ترجمہ میں خاص دل چسپی رکھتی ہیں۔  وہ آج کل لاہور کے ایک گورنمنٹ کالج میں بہ حیثیت اسسٹنٹ پروفیسر اردو خدمات سر انجام دے رہی ہیں ۔وہ ایک اچھی مقررہ بھی ہیں اور لکھنے لکھانے سے بھی گہرا شغف ہے ۔

ان کے مضامین اور تراجم مختلف ادبی رسائل کا حصہ بنتے رہے ہیں۔

آپ سے اس ای میل کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

fouziamaqbool110@gmail.com

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے