شاید ہی دنیا میں کوئی مصنف اتنی تیزی سے یک دَم اُبھر کر سامنے آیا ہو جتنی تیزی سے نائجیریا کا ادیب چِنوا اَچیبے (Chinua Achebe) اپنے پہلے ناول Things Fall Apartکے ۱۹۵۸ء میں شائع ہوتے ہی اُبھر کر سامنے آگیا۔ اَچیبے کا روایتی اِگبو (Igbo) دیہی اور وِکٹوریّن نو آبادیوں کے ٹکراؤ کا ادبی برتاؤ بہ ایں ہمہ فنکارانہ اور سیاسی کامیابی تھی جس نے عمومی افریقی ادب اور نوآبادیت اور اُس کے مابعد اثرات پر دنیا کی آنکھیں کھول دیں۔ اُس کے بعد کے آنے والے ناولوں، مختصر افسانوں، شاعری اور مضامین نے اَچیبے کی شہرت کو چار چاند لگا دیے اور اُس کی حیثیت کو مستحکم کیا۔ اُس کا کام اجتماعی طور پر بالخصوص نائیجیریا اور عمومی طور پر صحرائے افریقا کی انیسویں صدی سے بدلتی ہوئی صُورتِ حال کا کھوج لگانے اور اُسے سمجھنے کی کامیاب سعی ہے۔
ذیل میں چِنوا اَچیبے کا افسانہ Civil Peace کا ترجمہ’’زمانۂِ امن‘‘ پیش کیا جارہا ہے۔ یہ افسانہ مابعد جنگ کے اثرات کو بیان کرتے ہوے بتاتا ہے کہ جنگ کے بعد بھی عام شہریوں کی جان و مال محفوظ نہیں تھے اور جرائم پیشہ لوگ سینہ ٹھونک کر جرم کرتے تھے جس کی بڑی وجہ لوگوں کی اپنی بزدلی بھی تھی۔
* * * *
جوناتھن اِویگبُو اپنے آپ کو غیر معمولی خوش قسمت تصوّر کرتا تھا۔ امن کے اُن ابتدائی دِنوں میں پرانے دوستوں کے ملنے پر جب یہ سلام کرنے کا محض ایک رواج تھا لیکن ’’سلامتی مبارک ہو۔ـ‘‘کے الفاظ اُس کے لیے بہت اہمیّت رکھتے تھے۔ وہ سیدھے اُس کے دِل کی گہرائیوں میں اُتر جاتے تھے۔ وہ جنگ کی تبا ہ کاریوں سے پانچ انمول نعمتوں کے ساتھ بچ نکل آیا تھا… وہ خود ، اُس کی بیوی ماریا اور اُن کے چار میں سے تین بچے ۔ اُس کی سائیکل کا بچ جانا منافع بھی تھا اور… معجزہ بھی لیکن اُس کا موازنہ پانچ انسانی زندگیوں کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا تھا۔
سائیکل کی اپنی مختصر تاریخ تھی۔ جنگ کے عروج کے زمانے میں ایک روز اُسے سائیکل دینے کا حکم ملا۔ ’’فوری فوجی کاررَوائی کے لیے۔‘‘ اُس کے لیے وہ بہت بڑا نقصان تھا۔ اگر اُسے اُس افسر کے سچاّہونے پر رَتّی برابر بھی شبہ نہ ہوتا تو وہ سائیکل اُسے دے دیتا۔ اُس پر شبے کی وجوہات اُس کی چیتھڑے بنی وردی تھی نہ ایک پائوں میں نیلے اور دُوسرے میں خاکی جوتے سے نکلے اُس کے پیروں کے انگوٹھے اور نہ ہی جلدی میں ٹانگے ہوے اُس کے دو پھول تھے کہ جنھوں نے جوناتھن کو مشکوک کیا ہو۔ اُن دِنوں بہت سے اچھے اور بہادر فوجی ایسے ہی بلکہ اُس سے بھی بدتر نظر آتے تھے۔
بلکہ اِس کی وجہ اُس کے روّیے میں مضبوطی اور گرفت کی خاص کمزوری تھی۔ جوناتھن کو شک گزرا کہ وہ اُس کے زیرِ اثر آکر سر تسلیم خم کردے گا لہٰذا اُس نے پام کے پتّوں سے بنا اپنا تھیلا ٹٹولا اور اُس میں سے دو پونڈ نکالے جن سے وہ گھر میں آگ جلانے کے لیے لکڑیاں خریدنے جارہا تھا۔
یہ پیسے اُس کی بیوی ماریا نے فالتومچھلی اور دَلیا فروخت کرکے کیمپ کے اہلکاروں سے کمائے تھے۔ اُس نے اپنی سائیکل واپس حاصل کرلی۔ اُسی رات اُس نے اُسے جھاڑیوں کے بیچ زمین کے ایک صاف قطعے میں دفن کر دیا جہاں کیمپ کے مُردے تھے جن میں اُس کا چھوٹا بیٹا بھی شامل تھا۔ جب ایک سال بعد جنگ بندی ہونے پر اُس نے اُسے کھود کر دوبارہ نکالا تو اُسے محض پام کا تیل دیے جانے کی ضرورت تھی۔ ’’خدا ہر شے سے بے نیاز ہے۔‘‘ وہ حیرت سے بولا۔
اُس نے اُس سے فوری طور پر ٹیکسی کا کام لینا شروع کردیا اور کیمپ کے اہلکاروں اور اُن کے گھر والوں کو چار میل کے فاصلے پر واقع قریب ترین تارکول کی سڑک تک ڈھوڈھو کر بیا فرانی رقم کا ایک چھوٹا سا ذخیرہ جمع کرلیا۔ وہ ایک پھیرے کے چھے پونڈ لیتا اور جن کے پاس رقم تھی وہ اُس میں سے کچھ رقم سے اِس طرح چھٹکارا پاکر خوش ہوتے تھے۔ پندرھواڑہ ختم ہونے پر وہ ایک سو پندرہ پونڈ جمع کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
پھر اُس نے اینُوگُو کی راہ لی۔ وہاں ایک اَور ناقابل یقین معجزہ اُس کا منتظر تھا۔ اُس نے اپنی آنکھیں مل کر اُسے دوبارہ دیکھا۔ وہ اب بھی اُس کے سامنے موجود تھا۔ لیکن یہ کہنا فضول ہے کہ وہ غیر معمولی نعمت پھر بھی اُس کے خاندان کی پانچ زندگیاں سلامت رہنے کے مقابلے میں کم تر تھی۔ یہ نیا معجزہ اوگُوئی اَوورسائیڈمیں اُس کا چھوٹا سا گھر تھا۔ بے شک خدا ہر چیز سے بے نیاز ہے! صرف دو گھروں سے پرے ایک بہت بڑی کنکر یٹ عمارت جسے جنگ سے پہلے ایک دولت مند ٹھیکے دار تعمیر کررہا تھا اب ملبے کا ڈھیر بنی ہوئی تھی۔ اگرچہ اُس کے دروازے اور کھڑکیاں اور چھت کے پانچ تختے غائب تھے لیکن جوناتھن کا چونے اور مٹی کی اِینٹوں سے بنا چھوٹا گھر وہاں اب بھی قائم و دائم تھا!
لیکن وہ کیا تھا؟ پھر یہ کہ وہ اینُوگُوبہت جلد لوٹ آیا تھا۔ وہ جنگل میں بنی کھوہوں میں چھپے ہزاروں لوگوں کے نکل آنے سے پہلے گردوپیش بکھرے پُرانے زنک کے ٹکڑے ، لکڑی اور کارڈ بورڈ کے گیلے تختے اُٹھا سکتا تھا۔ اُنھیں بھی اِن چیزوں ہی کی تلاش ہونا تھی۔ اُس نے ایک ننگے بھوکے بڑھئی کو پانچ نائیجیریائی شلنگ یا پچاس بیافرانی پونڈوں کے عوض پکڑا کہ وہ اپنے اوزاروں کے تھیلے میں موجود ایک پُرانے ہتھوڑے، ایک کُند رندے، چندمڑے تڑے دُوسرے اوزاروں اور کچھ میخوں سے اُس لکڑی ، کاغذ اور دھات کے ملبے سے دروازوں اور کھڑکیوں کے پٹ بنا دیے۔ اُس نے پونڈوں میں ادائیگی کی اور اپنے خوش باش خاندان کے ہمراہ گھر میں منتقل ہوگیا جن کی گردنوں پر پانچوں سر سلامت تھے۔
اُس کے بچّے فوجی قبرستان کے نزدیک سے آم اُٹھا کر چند پیسوں کے عوض فوجیوں کی بیگمات کو فروخت کرنے لگے… اس بار سچ مچ کے پنس… اور اُس کی بیوی نے جلد ہی زندگی کا ازسرِ نو آغاز کرنے کے لیے پڑوسیوں کے لیے اَکارا (akara) کے لڈّوؤںکا ناشتا بنانا شروع کردیا۔ اُس نے سائیکل اُٹھائی اور اپنے خاندان کی آمدن سے اردگرد کے گائوں سے پام کی تازہ شراب خرید کر لانے لگا جس میں وہ اپنے کمرے میں بیٹھ کر فراخدلی سے پانی کی ملاوٹ کرتا جواَب دوبارہ سڑک کے کنارے لگے عوامی نل سے آنے لگا تھااور اُس نے فوجیوں اور دیگر متموّل قسمت کے دھنی لوگوں کے لیے شراب خانہ کھول لیا۔
شروع شروع میں وہ روزانہ جاتا تھا، پھر ایک دن چھوڑ کر اگلے روز اور پھر ہفتے میں ایک بار کول کارپویشن کے دفتر کا، یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کیا ہونے جارہا ہے، چکّر لگانے لگا جہاں کبھی وہ کوئلے کی کان میں کان کن رہا تھا۔ اُسے بس اِتنا پتا چلا کہ اُس کا وہ چھوٹا سا گھر اُس کی سوچ سے بڑھ کر بہت بڑی نعمت ہے۔
اُس کے کچھ سابقہ ساتھی کان کنوں کے پاس دِن بھر کے اِنتظار کے بعد بالآخر لوٹنے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ وہ دفاتر کے دروازوں کے باہر سونے اور بورن وِٹا(Bournvita) کے جستی ڈبوں سے بچی کھچی خوراک اکٹھّی کرکے پکاکر کھانے پر مجبور تھے۔ جب ہفتوں پہ ہفتے گزرگئے اور کوئی بھی یہ بتانے کے قابل نہیں تھا کہ کیا ہونے جارہا ہے تو جوناتھن نے ہفتہ وار چکّر بھی ختم کرکے اپنے پام کے شراب خانے پر توّجہ دینے لگا۔
لیکن خدا تو بے نیاز ہے۔ پھر نعمت غیر مترقبہ ملنے کا وہ دِن بھی آہی پہنچا جب پانچ روز کے تھکادینے والے قطاروں کے جھگڑوں کے بعد اُس نے خزانہ دفتر کے باہر کڑی دھوپ میں بیس پونڈ گنے جو اُسے جنگی خدمات کے بدلے میں اعزاز یہ کے طور پر ملے تھے۔ جب ادائیگی شروع ہوئی تو وہ دن اُس کے اور اُس جیسے بہت سے دُوسروں کے لیے کرسمس کے دن کی طرح تھا۔ وہ اُسے انڈوں والا سؤر کے گوشت کا ٹکڑا کہتے تھے(کیوں کہ چند ہی لوگ اُس کے سرکاری نام کی ادائیگی کرنے کے قابل تھے)۔
جیسے ہی پونڈ اُس کے ہاتھ میں پکڑائے گئے جوناتھن نے مٹھی سختی سے بند کرکے اُسے نوٹوں سمیٹ پائجامے کی جیب میں گھسیڑ لیا۔ اُسے بے حد محتاط رہنے کی ضرورت تھی کیوں کہ دوروز قبل اُس نے اُس ہجوم بے کراں کے سامنے ایک شخص کو فوراً ہی تقریباً دیوانہ ہوتے دیکھا تھاکہ جیسے ہی اُسے اُس کے بیس پونڈ ملے تھے کسی بے رحم بدمعاش نے اُنھیں اُس سے اُچک لیا تھا۔ اگرچہ ایسی شدّید ذہنی کوفت میں مبتلا شخص کو مؤردِالزام ٹھیرانا درست نہیں تھا
لیکن قطار میں لگے بہت سے لوگوں نے شکار ہونے والے شخص کی بے احتیاطی پر تبصرہ کیے بغیر نہیں رہ سکے تھے، خاص طور پر جب اُس نے اپنی جیب اُلٹی اور اُس میں اتنا بڑا سوراخ دکھایا کہ جس میں سے چور کا سر تک گزر جائے۔ لیکن بلامبالغہ اُس کا اصرار تھا کہ رقم دُوسری جیب میں تھی جسے اُس نے باہر اُلٹ کر اچھی طرح دکھایا ۔ بہر حال احتیاط اچھی بات تھی۔
جلد ہی جوناتھن نے رقم اپنے بائیں ہاتھ میں منتقل کرکے اُسے جیب میں ڈال لیا تاکہ بوقت ضرورت کسی سے ہاتھ ملانے کے لیے دایاں ہاتھ فارغ ہو۔ البتّہ اُس نے اپنی نظریں بھی ایسے رُخ پر بلندی کی طرف کرلیں کہ اپنی جانب آنے والے تمام لوگوںکو نظر انداز کرسکے تاکہ گھر پہنچنے تک یہ ضرورت پیدا ہی نہ ہو۔
عام طور پر وہ جلد گہری نیند میں ڈوب جایا کرتا تھا لیکن اُس رات اُس نے ایک ایک کرکے اڑوس پڑوس کی آوازوں کو ختم ہوتے سنا۔ حتّٰی کہ چوکیدار بھی، جو رات کو دُور کسی مقام سے دھات پر چوٹ لگا کر وقت بتاتا تھا، ایک بجے کا ٹَل کھڑکانے کے بعد خاموش ہوگیا تھا۔ نیند آنے سے پہلے وہ جوناتھن کا آخری خیال تھا۔ اُسے ابھی سوئے ہوے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ اُسے شدّید ہنگام نے اُٹھادیا۔
’’دروازہ کون کھٹکٹھارہا ہے؟‘‘ اُس کے ساتھ فرش پر لیٹی اُس کی بیوی نے سرگوشی کی۔
’’مجھے نہیں معلوم ۔‘‘ اُس نے سانس لیے بغیر جوابی سرگوشی کی۔
دُوسری بار دستک اِتنی بلند اور تحکمانہ تھی کہ پرانا اور خشک کمزور دروازہ ٹوٹ کر گر سکتا تھا۔
’’کون ہے؟‘‘ اُس نے پوچھا تو اُس کے حلق سے خشک کانپتی ہوئی آواز نکلی۔
’’چور اور اُس کے آدمی۔‘‘ سرد مہرانہ جواب آیا۔ ’’دروازہ کھولو۔‘‘ اُس کے ساتھ ہی دروازے کو بُری طرح پیٹا گیا۔ سب سے پہلے مار یا نے شور مچایا، پھر اُس نے اور بچوں نے تقلید کی۔
’’ہائے پولیس! ہائے چور! ہائے پڑوسیو! ہائے پولیس! ہم لُٹ گئے! ہم مرگئے ! پڑوسیو، کیا تم سوگئے؟ جاگو ! ہائے پولیس!‘‘ یہ سلسلہ کافی دیر چلتا رہا اور پھر اچانک تھم گیا۔ شاید اُنھوں نے چور کو ڈرا کر بھگا دیا تھا۔ وہاں مکمل سکوت تھا جو بہت تھوڑی دیر رہا۔
’’تم نے اپنا کام ختم کرلیا؟‘‘بیرونی آواز نے دریافت کیا۔ ’’کیا ہم تمہاری کچھ مدد کریں؟اوئے، اے لوگو! ہائے پولیس! ہائے، چور آگئے! ہائے، پڑوسیو! ہم لُٹ گئے! ہائے پولیس!‘‘
چوروں کے سردار کے علاوہ کم از کم پانچ افراد کی آواز یں تھیں۔
اب جوناتھن اور اُس کی بیوی دہشت سے مکمل طور پر مفلوج ہوگئے۔ ماریا اور بچّے راستا کھو بیٹھنے والے بچّوںبے آواز سبکیاں لینے لگے۔ جوناتھن مسلسل کراہ رہا تھا۔
چوروں کے شور کے بعد کی خاموشی نے دل دھڑکن کو خوفناک کردیا۔جوناتھن نے اُن کے سربراہ سے دوبارہ بولنے اور قضیہ ختم کرنے کے لیے کہا۔
’’میرے دوست۔‘‘ وہ طویل خاموشی کے بعد بولا۔ ’’ہم نے اُنھیں بلانے کے لیے اپنی پُوری کوشش کی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ وہ سوئے پڑے ہیں… یا انتظار کررہے ہیں کہ اب ہم اپنا کام کرلیں؟کیا تم کسی اور کو پکارنا چاہتے ہو؟یا ہم تمہاری خاطر اُنھیں آوازدیں؟ پولیس کو پکاریں یا نہیں؟‘‘
’’نہیں بس۔‘‘ اُس کے آدمیوں نے جواب دیا۔ جوناتھن کو لگا کہ اِس بار اُس نے پہلے سے زیادہ آوازیں سنی ہیں اور وہ بُری طر ح آہ و زاری کرنے لگا۔
’’میرے دوست، تم بولتے کیوں نہیں ہو؟ میں تم سے پوچھ رہا ہوں کہ کیا ہم تمہاری خاطر چیخ و پکار کریں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ اب ہم کاروبار کی بات کرتے ہیں۔ ہم بُرے چور نہیں ہیں۔ ہم کسی کے لیے مصیبت پیدا کرنا پسند نہیں کرتے۔ مصیبت ختم۔ جنگ ختم اور اب سارا معاملہ اندرونی ہے۔ دوبارہ بغاوت نہیں ہوگی۔ اب زمانۂِ امن ہے۔ ہے یا نہیں؟‘‘
’’ہے۔‘‘ بھیانک آوازوں نے مل کر جواب دیا۔
’’مجھ سے تم کیا چاہتے ہو؟ میں ایک غریب آدمی ہوں۔ میرے پاس جو کچھ تھا اِس جنگ میں ختم ہوگیا۔ تم میرے پاس کیوں آئے ہو؟ تم جانتے ہوکہ کن لوگوں کے پاس دولت ہے۔ ہم…‘‘
’’ٹھیک ہے۔ ہمیں پتا چلا ہے کہ تمہیں کافی رقم ملی ہے۔ لیکن ہمیں ایک ٹکاتک نہیں ملا۔ لہٰذا اب تم یہ کھڑکی کھولو اور ہمیں ایک سو پونڈ دے دو تو ہم چلے جائیں گے۔ ورنہ ہم اندر گھس آئیں گے اور گٹار بجانے والے ایسے لڑکے سے ملوائیں گے…‘‘
آسمان پر خُودکار بندوق کی بوچھاڑ گونج اُٹھی۔ ماریا اور بچّے دوبارہ اُونچی آوازمیں رونے لگ گئے۔
’’اوہ، بیگم صاحبہ دوبارہ رونے لگی ہیں۔ اِس کی ضرورت نہیں۔ ہم نے بتایا ہے ناکہ ہم اچھے چور ہیں۔ ہم بس اپنا تھوڑا سا حِصّہ لیں گے اور چلے جائیں گے۔ تنگ نہیں کریں گے۔ کیا ابھی ہم نے تنگ کیا ہے؟‘‘
’’بالکل نہیں۔‘‘ ہم آہنگ آوازیں گانے لگیں۔
’’دوستو۔‘‘ جوناتھن بیٹھی ہوئی آواز میں بولا۔ ’’تم نے جو کہا میںنے سُنا اور میں تمہارا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اگر میرے پاس ایک سو پونڈ ہوتے تو…‘‘
’’دیکھو میرے دوست، کھیلو مت۔ ہم تمہارے گھر کھیل کھیلنے نہیں آئے ہیں۔ اگر تم غلطی کروگے اور ہم اندر آگئے تو تم چلنے کے قابل نہیں رہوگے۔ اس لیے…‘‘
’’مجھے قسم ہے میرے پیدا کرنے والے خدا کی، اگر تم اندر آکر ایک سو پونڈ نکال لو تو مجھے، میری بیوی اور میرے بچّوں کو گولی ماردینا۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرے پاس عمربھر کی کمائی بس وہی بیس پونڈ ہیں جو مجھے آج ہی ملے ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔وقت ختم ہوگیا۔ یہ کھڑکی کھولو اور وہ بیس پونڈ لاکر دو۔ ہم اُن پر ہی قناعت کرلیتے ہیں۔‘‘
اب اُن کی ہم آہنگ آوازوں میں اختلاف کی بلند آہنگ بڑبڑاہٹ تھی۔ ’’یہ آدمی جھوٹ بول رہا ہے۔ اِسے کافی رقم ملی ہے… ہمیں اند رجاکر اچھی طرح تلاشی لینا چاہیے … بیس پونڈ سے کیا ہوگا؟‘‘
’’بکو مت۔‘‘ سردار کی آواز آسمان میں گولی کے چلنے کی اکیلی آواز کی طرح گونجی جس نے تمام بُڑابُڑاہٹوں کو یکسر خاموش کردیا۔’’کیا تم موجود ہو؟ جلد رقم لاؤ۔‘‘
’’میں آرہا ہوں۔‘‘ جوناتھن چٹائی پر اپنے سرہانے پڑے لکڑی کے چھوٹے بکسے کی چابیوں کو ٹٹولتا ہؤا بولا۔
سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی ہمسائے اور دُوسرے لوگ اُس کے ساتھ ہمدردی جتانے پہنچ گئے۔ وہ اپنی سائیکل کے کیریئرکے ساتھ شراب کا پانچ گیلن کا کین رَسّی سے باندھ رہا تھا اور اُس کی بیوی مٹّی کے ایک کھلے پیالے میں اُبلتے ہوے تیل میں اَکارا کے لڈّوؤںکو پلٹتے ہوے کھلی آگ کے سامنے پسینے میں شرابور ہورہی تھی۔ کونے میں اُس کا بڑا بیٹا شراب کی پُرانی بوتلوں سے گزشتہ روز کی پام کی شراب کی تلچھٹ کو کھنگال کر نکال رہا تھا۔
’’میں اِسے کوئی اہمیّت نہیں دیتا۔‘‘ اُس نے اپنے غم گساروں سے کہا۔ اُس کی آنکھیں رَسّی پر جمی تھیں جسے وہ باندھ رہا تھا۔’’انڈوں والا سؤر کے گوشت کا ٹکڑا کیا ہے؟ کیا پچھلے ہفتے میرا اُس پر انحصار تھا؟ کیا اُس کی اُن چیزوں سے زیادہ اہمیّت ہے جو جنگ نے چھین لیں؟ میں کہتا ہوں کہ آگ لگے انڈوں والا سؤر کے گوشت کے ٹکڑے کو !یہ بھی وہیں جائے جہاں ہر شے گئی ۔ خدا ہر شے سے نیاز ہے۔
ترجمہ نگار کا تعارف:
نجم الدّین احمد افسانہ نگار، ناول نویس اور مترجم ہیں۔ آپ کا تعلق بہاول نگر سے ہے۔ 2 جون 1971ء کو بہاول نگر ہی میں پیدا ہوئے اور یہیں سے تعلیم حاصل کی۔ انگریزی ادب میں ایم اے کیا ہوا ہے۔ طبع زاد تحریروں میں 3 ناول، 2 افسانوی مجموعے اورتراجم کی سات سے زائد کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔
نمایاں تراجم میں سلیم شہزاد کے سرائیکی ناول "پلوتا” کا ترجمہ، نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کی منتخب کہانیاں، فسانۂ عالم (منتخب نوبیل کہانیاں)، ہاروکی موراکامی کا ناول "کافکا بر لبِ ساحل” اور اَولگا توکارچُک کی منتخب کہانیاں شامل ہیں۔ "فسانۂ عالم (منتخب نوبیل کہانیاں)” پر اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے "محمد حسن عسکری ایوارڈ برائے سال 2019ء دیا گیا۔
آپ سے اس ای میل کے ذریعے رابطہ کی جاسکتا ہے۔
najam341@gmail.com