البرٹ کامیو (Albert Camus) ۱۹۱۳ – ۱۹۶۰ء فرانسیسی دانش ور، ناول نگار اور مضمون نگار ہے۔ اس نے وجودی ہونے سے انکار کیا ہے۔ لیکن اس کے فکری مضمونوں، تمثیلوں اور ناولوں میں جو مسائل پیش کئے گئے ہیں، وہ جودی روح سے مشابہ ہیں۔ علاوہ ازیں طریقہ کار کی مماثلت بھی موجود ہے۔ اجنبی (۱۹۴۲ء)، پلیگ (۱۹۴۷) زوال (۱۹۵۶) جلا وطنی و سلطنت (۱۹۵۱ء)، اس کے ناول اور ارسطوسی فس (۱۹۴۳ء) باغی (۱۹۵۱ء) اور مقاومَت، بغاوت اور موت اس کے نمائندہ فکری مضامین ہیں۔ کامیو نے سارتر کے اس نظریے کو وسعت دینے کی سعی کی ہے کہ دنیا لغو(Absurd) ہے کوئی شے یہاں تک کہ انسان بھی کسی مفہوم کا حامل نہیں۔ کائنات موضوع کی سٹیٹ ہے۔ واحد سنجیدہ فلسفیانہ مسئلہ خود کشی کا مسئلہ ہے۔ انسان دائمی طور پر لغو حالتوں میں زندگی بسر کرتا ہے اور ان پر قابو پانے کی جدوجہد کرتا ہے۔ مگر اس کی تمام سرگرمیاں لا حاصل اور لایعنی ہیں۔ انتہا پسندانہ عقل دشمنی اور فرد پرستی کامیو کے فکر کی امتیازی خصوصیات ہیں۔ سارتر کے علاوہ شوپنہار نطشے اور جرمن وجودیوں کا کامیو کی ذہنی نشود نما میں نمایاں حصہ ہے۔
کامیو نے عدمیت (nihilism) کے اس احساس سے غذا حاصل کی ہے، جس نے عصر حاضر کی دو عظیم جنگوں کے دوران فرانسیسی ادب پر غلبہ حاصل کر رکھا تھا۔ بلا شبہ یہ جنگیں اس جہان میں بدقسمتی اور تباہی و بربادی کا پہلا انسانی تجربہ نہ تھیں، لیکن ان سے پیدا شدہ احساس گزشتہ تمام ادوار کی نسبت شدید تر تھا۔ حساس ذہن اس سے اثر پذیر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔مسلسل تباہ کن جنگیں بربادی، ظلم، قتل و غارت، لوٹ مار معاشی بد حالی اور اس کی ساتھ نام نہاد سائنسی تکنیکی ترقی اختیار پسندانہ ریاستوں کے حربے اور نظریات —- یہ سب مل کر انسان کو دنیا میں کشتہ ستم ہونے کا احساس دلانے کے لئے کافی تھے۔ علوم میں نئے اضافوں نے تخریبی عمل کو تیز کرنے میں معاونت کی۔ انسان کی عظمت اور کائنات میں اس کے مقام کے بارے میں تمام روایتی اعتقاد ملیا میٹ ہو گئے۔ ہر کوئی تسلیم کرنے کو تیار ہو گیا کہ انسان ایک بے معنی کائنات میں بغیر کسی جواز کے پھینک دیا گیا ہے زندگی بے مقصد اور لغو عمل ہے۔
۱۹۴۶ء میں کولمبیا یونیورسٹی نیو یارک میں تقریر کرتے ہوئے کامیو نے اپنے عہدکی تصویر ان الفاظ میں کھینچی تھی:
"ہم جنگ عظیم اول کے اوائل میں پیدا ہوئے۔ عنفوان شباب میں ہمیں ۱۹۲۹ء کی بے چینی اور بیس برس کی عمر میں ہٹلر کے بحران سے گزرنا پڑا۔ پھر جنگ ایتھوپیا اور اندلس و میونخ میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ یہ ہماری تعلیم کی بنیادیں تھیں۔ بعد ازاں جنگ عظیم دوم اور اس کے نتیجے میں شکست اور ہٹلر ہمارے شہروں و گھروں میں در آئے۔ ایسی دنیا میں رہتے ہوئے ہم کسی پر بھروسہ رکھ سکتے تھے؟ کسی پر بھی نہیں۔ اس نفی کے سوا کسی پر بھی نہیں، جس میں ابتدا ہی سے ہمیں خود کو محصور کر دینے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ جس دنیا میں ہمیں رہنے کو کہا گیا تھا، ایک لغو دنیا تھی۔ کوئی دوسری دنیا موجود ہی نہ تھی جس میں ہم پناہ حاصل کر سکتے۔ دنیائے ثقافت حسین تھی لیکن حقیقی نہ تھی اور جب ہم نے خود کو ہٹلر کی ہیبت کے رو برو پایا تو ہم کن اقدار میں سکون پاسکتے تھے؟ کن اقدار کی نفی کی مخالفت کر سکتے تھے؟ کسی کی بھی نہیں اگر مسئلہ کسی سیاسی آئیڈیا لوجی یا کسی نظام حکومت کے دیوالیہ پن کا ہوتا تو یہ بالکل آسان ہوتا لیکن جو کچھ ہوا، وہ انسان اور سماج کی بنیادوں سے ابھرا تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں تھا اور روز بروز مجرموں کے کردار سے زیادہ عام آدمی کے عمل سے اس کی تصدیق ہوتی گئی۔ واقعات سے ظاہر ہوتا تھا کہ انسان اس کے مستحق ہیں، جو ان کے ساتھ ہو رہا تھا۔ ان کے طرز زندگی میں قدر معدوم تھی اور ہٹلرین نفی کا تشدد بذاتہ منطقی تھا۔ تاہم یہ سب کچھ نا قابل برداشت تھا اور ہم نے مزاحمت کی۔ اب جبکہ ہٹلر اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے، ہم کئی باتوں کو جانتے ہیں اوّل تو یہ کہ جس زہر نے ہٹلریت کو جنم دیا تھا۔ وہ ختم نہیں ہوا۔ وہ ہم سب میں موجود ہے۔ جو بھی آج قوت اثر اور ہسٹاریکل ٹاسک کی اصطلاحوں میں انسانی وجود کا ذکر کرتا ہے، وہ اس زہر کو پھیلاتا ہے۔ وہ ممکنہ یا حقیقی قاتل ہے، کیونکہ اگر انسان کے مسئلے کو کسی قسم کے ہسٹا ریکل ٹاسک میں تحویل کر دیا جائے تو وہ تاریخ کے خام مواد کے ماسوا اور کچھ نہیں رہتا۔ اس وقت اس کے ساتھ کوئی جو چاہے کر سکتا ہے۔ ایک دوسری بات جو ہم نے سیکھی، وہ یہ ہے کہ ہم وجود کے کسی رجائی نظریے یا کسی اچھے انجام کو قبول نہیں کر سکتے۔ تاہم اگر ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ رجائیت احمقانہ ہے، تو ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ انسانوں کے عمل کے بارے میں قنوطیت قابل مذمت ہے۔
” ہم تشدد کو اس لئے نا پسند کرتے ہیں کہ یہ ہمیں قتل کرنے یا قتل ہونے میں انتخاب کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ اشتمال کو نا ممکن بنا دیتا ہے۔ اس لئے ہم ہر اس آئیڈیا لوجی کو مسترد کر دیتے ہیں جو کل زندگی پر غالب آنے کی مدعی ہو۔”
ایک فرد کی حیثیت سے کامیو کی زندگی ایسے حالات میں بسر ہوئی جنہوں نے لغویت ،افسردگی اور تنہائی کے اس احساس کی جو ہمارے عہد کی روح ہے، نہ صرف توثیق کی بلکہ اس کی تاثیر میں مزید اضافہ کیا۔
کامیو ۱۹۱۳ء میں اس وقت کی فرانسیسی نو آبادی الجزائر میں مونڈوی کے مقام پر ایک مفلوک الحال خاندان میں پیدا ہوا۔ والد کے انتقال کے بعد اس کے تعلیم و تربیت اور پرورش کی تمام ذمہ داریاں اس کی بیوہ ماں کو اٹھانی پڑیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے جلد ہی جلد اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کی۔ جب وہ الجیرس یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا تو اسے اپنے اخراجات پورے ے کرنے کے لئے کئی چھوٹی موٹی ملازمتیں کرنا پڑتیں تھیں۔ اس نے فلسفہ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور فلاطینوس اور سینٹ آگسٹائن کی باہمی فلسفیانہ اضافتوں کے موضوع پر تحقیق کی۔ اس کا ارادہ تھا کہ تعلیم سے فراغت کے بعد یونیورسٹی میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دے گا۔ لیکن اسی اثنا میں اسے تپ دق نے آلیا اور یوں اس کی یہ خواہش تشنہ تکمیل رہ گئی۔ ان ایام میں کئی ذہنی و ادبی اثرات سے گزرا۔ بالخصوص دستور سکی اور آندژے مالوکس کے مطالعہ نے اسے بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ ان عظیم فنکاروں کے شہ پاروں میں پائی جانے والی عدمیت اور بغاوت کی روح نے کامیو کے ذہن کو ہمیشہ کے لئے گرفت میں لے لیا۔ ۱۹۳۸ء ۱۹۳۹ء کے دوران میں اس نے کئی ڈرامے لکھے اور صحافی کی حیثیت سے اپنے کیریر کی ابتدا کی۔ آئندہ برس وہ پیرس روانہ ہوا۔ جب فرانس پر نازی فوجوں نے قبضہ کر لیا تو بے شمار دوسرے فرانسیسی نوجوانوں کی طرح کامیو بھی سر پر کفن باند ھے تحریک مزاحمت میں شریک ہو گیا۔ انہیں دنوں وہ خفیہ طور پر شائع ہونے والے محاذ آزادی کے ترجمان "کومبیٹ” سے بھی منسلک رہا۔ پیرس کی آزادی کے بعد وہ جریدہ مذکورہ کا مدیر مقرر ہوا۔ ۱۹۴۲ء میں "اجنبی” کی اشاعت سے اسے بین الاقوامی شہرت نصیب ہوئی۔
جنگ کے بعد بھی کامیو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتا رہا اس دوران میں سارتر اس کا قریبی رفیق تھا۔ جب اس نے ۱۹۵۱ء میں بغاوت کے موضوع پر ایک مضمون "باغی” لکھا تو دونوں کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے۔ جو آخر قطع تعلق پر منتج ہوئے۔ ۱۹۵۷ء میں کامیو کو نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا۔ وہ ۴ جنوری ۱۹۷۰ء کو موٹر کے ایک حادثہ میں ہلاک ہو گیا ۔جب کہ وہ شہرت و عظمت کی انتہائی بلندیوں پر پرواز کر رہا تھا۔ زندگی بھر وہ جس لغویت کا پرچار کرتا رہا تھا، ناگہانی بےوقت موت نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔
کامیو علمی مفہوم میں فلسفی نہیں۔ دیگر وجودیوں کے ہاں جن انوکھی اور دقیق اصطلاحوں کی بہتات ہے، کامیو کا دامن اس سے تہی ہے۔ البتہ ابہام اور منطق دشمنی میں وہ ان سے کہیں آگے ہے یہ کہا جاسکتا ہے کہ عمومی وجودی نقطہ نظر سے بھی کامیو کا فلسفہ جدید پیشہ ورانہ فلسفے کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ باایں ہمہ وہ فلسفی ہے اور و جودی روایت کا اہم نمائندہ۔ اس نے جذباتی اور اخلاقی سوچ کو عقلی تحقیق میں صنم کر کے عہد حاضر کے فکر میں قابل قدر اضافہ کیا ہے۔
ہمیں یہ بات بھی نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ کامیو نے کئی بار فلسفی ہونےسے انکار کیا ہے۔ وہ اپنے تئیں مارلسٹ قرار دیتا ہے۔ یہ دعویٰ بجا ہے، اب جبکہ اخلاقیات کو مابعد الطبیعیات سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا، فلسفی کے طور پر کامیو کا مقام برقرار ہی رہتا ہے۔ اس کے ادبی شاہکار فلسفیانہ افکار سے بھر پور ہیں۔ اس نے دو اہم مضامین ارسطو رسی فس اور "باغی” میں اس فلسفیانہ نقطہ نظر کا دفاع کیا ہے، جس کا اظہار اس کی تمثیلوں اور ناولوں میں ہوا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ارسطوسی فس، واضح طور پر” اجنبی” پر فلسفیانہ تبصرہ اور ”باغی“ "پلیگ” پر۔ ان دونوں فکری مضامین میں پیش کئے ہوئے افکار میں نمایاں اختلافات موجود ہیں، جو کامیو کے ذہنی ارتقاء کی نشاندہی کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر اس نے ارسطو سسی فس کی عدمیت سے "باغی” کی انسان دوستی کی جانب سفر کیا ہے۔ بعض ایسے تصورات بھی ہیں جو ابتدا ہی سے اس کے کام میں موجود رہے ہیں، گو وہ وقتا فوقتاً اخلاقی زندگی میں ان کی اہمیت کے بارے میں اپنے نظریات میں تبدیلیاں کرتا رہا ہے۔
عہد رفتہ کے فلسفیانہ نظاموں کے تجزیے سے کامیو اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ان میں سے کوئی نظام بھی حیات انسانی کے لیے مثبت رہنمائی فراہم نہیں کر سکتا اور نہ ان ہی انسانی اقدار کی معقولیت کی ضمانت دے سکتا ہے۔ اس نتیجے کے شعور ہی سے وہ خود کو ایسی صورت حال میں پاتا ہے، جسے "ارسطوسی فس” میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ مضمون بظاہر خودکشی کے مسئلے سے تعلق رکھتا ہے، جو کامیو کے نزدیک واحد سنجیدہ فلسفیانہ مسئلہ ہے۔ یہ نتیجہ ہے دنیا کی لغویت کا۔ دنیا کا کوئی جواز نہیں۔ یہ سراپالغویت ہے۔ یہ ہر قسم کے نصب العین یا آدرش سے محروم ہے۔ ہمیں صداقت کی جستجو ہے۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ اس کائنات کی جس میں ہم زندگی بسر کرتے ہیں، ماہیت کیا ہے؟ اس کی تخلیق کیوں کی گئی؟ اس کا خالق کون ہے، تاریخ کیا ہے اور زندگی کا مقصد کیا ہے؟ مفہوم تک رسائی حاصل کرنے کی ہماری یہ جستجو کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی کیونکہ کوئی مفہوم موجود ہی نہیں، جسے دریافت کیا جائے۔ دنیا زندگی یا تاریخ وغیرہ کے معنی وہی ہیں جو ہم ان سے منسوب کریں۔ انسان سے ماورا کوئی ہستی موجود نہیں، جو انہیں کوئی مفہوم دے سکے۔ اس امر کے شعور سے لغویت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ غیر معقول کائنات کے سمجھنے کی جدوجہد ہی لغویت کا سبب ہے۔
آخر ہماری زندگی کیا ہے؟ ایک پہلے سے طے شدہ مکینیکل عمل—- کھانا، پینا، سونا، محنت مزدوری کرنا، بچے پیدا کرنا اور بآلاخر مر جانا۔ تاہم کبھی کبھار ہماری روح کی گہرائیوں سے کوئی سرگوشی ابھرتی ہے اور ہم سے اس بے روح عمل کا جواز طلب کرتی ہے یہ لمحہ انقلابی لمحہ ہے۔ اور جب ہم اس لمحے کے سوال کا جواب دینے سے قاصر رہتے ہیں تو لغویت کا احساس عفریت کا روپ دھار کر ہمیں نگلنے کو بڑھتا ہے۔ اس صورتحال میں خود کشی کا مسئلہ جنم لیتا ہے۔ کامیو پوچھتا ہے کہ جب انسانی زندگی کی لغویت واضح ہو جاتی ہے، تو پھر جئے جانے کا جواز کیا ہے؟ یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے وہ ہمیں بتاتا ہے کہ خود کشی لغویت کے تجربے کا موزوں رد عمل نہیں۔ یہ ناکافی ہے کیونکہ خود کشی، انسان اور دنیا دو میں سے محض ایک پول کو کچل کر لغویت کا مقابلہ کرنے کی کوشش ہے۔ حالانکہ یہ دونوں اس کشاکش کا سبب ہیں۔ اس لحاظ سے خود کشی لاچاری اور بے بسی کا اثبات اور انسانی وقار کے منافی ہے۔ اپنی لغویت کے روبرو شمع زندگی روشن رکھنے ہی سے ہم اپنی تکمیل کر سکتے ہیں۔ زندگی کی لغویت کے واضح شعور کے باوجود ہمیں یہ سمجھ کر جینا چاہئے کہ اس طرح زندگی آزادی سے ہم کنار ہوتی ہے۔
اس موقع پر جیسا کہ پروفیسر سی۔ اے قادر رقم طراز ہیں: "یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو شخص یہ سمجھ لیتا ہے کہ کائنات لغو ہے، اس کا اخلاق کسی قسم کا ہوگا ۔” [1]
پروفیسر موصوف خود ہی اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں ” بے مقصد زندگی کے لیےہر چیز جائز ہونی چاہئے۔ لیکن ہر چیز جائز ہونے سے یہ مراد نہیں کہ جرم بھی ممنوع نہیں ہیں۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ندامت فضول ہے اور قرض ادا کرنے میں کوئی خوبی نہیں۔ ایک اخلاقی قانون ویسا ہی اچھا یا برا ہے جتنا کوئی اور ہو سکتا ہے۔ کامیو کا "اخلاقی انسان” تمام ذمہ داریوں سے پاک ہے۔ اس کا قانون اخلاق اپنا ہے۔ اسے جس شے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ زندگی اچھی طرح سے بسر ہو۔ اگر عیاش اس امر کو سمجھتا ہے کہ زندگی بکواس ہے لیکن رہتا خوب مزے سے ہے یا ایک فنکار زندگی کو لغویت تو سمجھتا ہے لیکن اس کے باوجود خوبصورت مجسمے بتاتا ہے تو یہ دونوں اور اس قماش کے ہزاروں اور آدمی کامیو کے نزدیک بہترین طور پر زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی طرح سے جو لوگ یہ جانتے ہوئے کہ فتح و شکست دونوں فضول ہیں، جابر بادشاہ کے خلاف بغاوت کرتے ہیں، وہ اپنی اولوالعزمی دکھاتے ہیں اور آزادی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہر شخص کو جان لینا چاہئے کہ تمام افعال کی قیمت مساوی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے آپ کو کسی لائحہ عمل کا پابند کیا جائے اور اس کو نبھانا زندگی کامقصد بنا لیا جائے۔
کامیو کے آخری دور کے کام اور بالخصوص "پلیگ” میں جو خیالات پیش کیے گئے ہیں، وہ ارسطوسی فس کی روح سے ایک حد تک متبائن ہیں۔ ابتداء میں اس نے انسان کو سسی فس میں تبدیل کر کے لغویت کا شعور حاصل کرنے کی سعی کی تھی۔ سی فس کو دیوتاؤں نے مہیب چٹانیں پہاڑوں پر لے جانے کی سزا دی تھی۔ لیکن جوں ہی وہ بلندیوں پر پہنچتا، وہ گہرائیوں میں لڑھک جاتیں۔ اس پر وہ انہیں از سر نو منزل مقصود پر لے جانے کے جتن کرتا۔ یہ قصہ پیش کرنے سے کامیو کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ انسان بھی لغویت پر غلبہ نہیں پا سکتا، سو اسے بھی سسی فس کی مانند بے مقصد اور بے سود تک و دو کا المیہ قبول کر لینا چاہئے۔ تاہم انسان کی بہر طور با معنی زندگی بسر کرنے کی شدید خواہش نے کامیو کو بھی اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ چنانچہ آخری عمر میں اس نے انسان کے لیے سی فس کی دلیرانہ مگر منفی ہٹ دھرمی کی بجائے لغویت اور مصیبت زدہ نوع انسان کے متعلق زیادہ ایجابی اور عملی اسلوب فکر تجویز کرتے ہوئے کہا کہ انسان کو تخریب پسند اور استحصالی قوتوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے بہتر معاشرہ تشکیل کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔ اب اس کا ہیرو سی فیس نہیں "باغی” ہے۔ جو ہر قسم کے استبداد کے خلاف بغاوت کرتا ہے اور جس کی زندگی بے مصرف نہیں ہوتی۔
حوالہ جات
[1] سی – اے – قادر "وجودیت” اقبال، 1964، جلد 12، نمبر 4، صفحہ 52
****
(یہ تحریر قاضی جاوید کی کتاب "وجودیت” سے لی گئی ہے۔ جسے فکشن ہاؤس، لاہور نے شایع کیا ہے۔)
Follow Us