fbpx
تراجمترجمہ مضامین

خود غرضی کی تعریف میں

انگریزی سے اردو ترجمہ : عقیلہ منصور جدون (راولپنڈی)

این رینڈ (Ayn Rand) ان کامیاب خواتین لکھاریوں میں سے ایک ہے جس نے پوری دنیا کے قارئین کو سرشار کیا ہے ۔ جس کی شہرت لازوال ہے ۔ ناول نگار ہونے کے ساتھ ساتھ وہ مضمون نگار ،ڈرامہ گار ،سکرین رائیٹر ( فلم ،ریڈیو اور ٹی وی کی لکھاری ) اور فلاسفر بھی تھی ۔ 1940 کی بے شمار ترقی اور ارتقا اس کی فلاسفی کو دنیا بھر میں پھیلانے کا سبب بنی ، جن میں سے ایک حالیہ مالی بحران بھی ہے ۔ وہ ادبی دنیا کے ان لکھاریوں میں سے ہے جن سے سب سے زیادہ محبت کی گئی ،اور سب سے زیادہ نفرت بھی کی گئی ۔
Ayn Rand in Childhood
Ayn Rand in Childhood
پیٹرزبرگ کے ایک یہودی جوڑے کے ہاں 1905 میں اس کی ولادت ہوئی ، الیسا زینووییونا روزنبام (Alisa Zinov’yevna Rosenbaum) ایک چست غیر معمولی صلاحیتوں سے مالا مال بچی تھی ۔ اسے اپنی سہیلیوں اور نسوانی رشتہ داروں کی دنیا میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ وہ گڑیوں سے کھیلنے یا اپنی ظاہری خوبصورتی پر توجہ دینے کی بجاۓ کتابیں پڑھنا پسند کرتی تھی ۔
پیٹرزبرگ یونیورسٹی سے 1926 میں تاریخ میں گریجویٹ ہونے کے بعد وہ بہت تھوڑی رقم کے ساتھ اور اپنے آپ کو نئے سرے سے دریافت کرنے کی فوری خواہش لئے امریکہ منتقل ہو گئی ۔ وہ مڑ کر کبھی بھی اپنے ملک نہیں گئی اور نہ ہی اپنے خاندان سے کبھی ملی ۔ سوت کا دھاگہ کاٹنے کی طرح اس نے اپنا ماضی ایک طرف پھینک دیا . بہت جلد اس نے اپنا نام بھی تبدیل کر لیا ۔ اپنے زیر استعمال ٹائپ رائیٹر سے اس نے اپنے لیے خاندانی نام ریمنگٹن رینڈ (Remington Rand)منتخب کیا ۔اور اپنے لیے این رینڈ ( Ayn Rand) نام پسند کیا ۔ اسی نام کے ساتھ اس نے نئی دنیا میں نیا جنم لیا ۔
وہ کمیونزم کی پرجوش مخالف تھی ، لیکن تب وہ اپنے تمام نظریات کی بابت پر جوش تھی ۔ اس نے چارلس فرانکس اوکو نور (Charles Francis O’ Connor) نامی اداکار سے شادی کر لی ۔ اور بہت سارے کم بجٹ والے ہالی ووڈ ڈرامے لکھے ۔ اگرچہ اس کے پہلے نیم سوانحی ناول ،” ہم زندہ لوگ” (we the living) کو اچھی خاصی توجہ اور شہرت مل چکی تھی ۔لیکن اسے اصل کامیابی 1943 میں اپنے سب سے زیادہ فروخت ہونے والے ناول The Fountainhead سے حاصل ہوئی ۔ اس ناول کو لکھنے میں اس کے سات سال لگے . اس کا شاندار کام Atlas Shrugged تھا ، جو سائنس فکشن کے ساتھ ساتھ رومانس اور نئے خیالات کا ناول ہے ۔اسی میں اس نے اپنی نئی اخلاقی فلاسفی متعارف کروائی ———— "عقلی ذاتی مفاد کی اخلاقیات” (The Morality of rational self-interest)
کانٹ (Kant) کی بڑی پرستار نہ ہونے کے باعث وہ اسے ” انسانی تاریخ کا سب سے برا انسان ” کہتی ہے ۔ ان لوگوں کے ساتھ اس کا رویہ جنہوں نے اس پر مغربی فلسفہ کے سر چشمہ کی تضحیک کا الزام لگایا تھا ،اس سے بھی زیادہ تلخ تھا ۔
Ayn Rand with Frank O’Connor
” میں نے کانٹ کی تضحیک نہیں کی ،کوئی بھی ایسا نہیں کر سکتا ۔اس نے خود ایسا کیا ہے ۔” وقت کے ساتھ اس کا نام انفرادیت ، سرمایہ داری اور عقلیت پسندی کے مترادف سمجھا جانے لگا ۔ اس پختہ یقین کے ساتھ کہ فرد کو اپنی اقدار اپنی عقل سے اختیار کرنی ہیں ،اس نے فرد کے حقوق کا بمقابلہ کمیونٹی اور ریاست کے دفاع کیا ۔ اور ہر قسم کی حکومتی مداخلت کی مخالفت کی ۔ ( اس لئیے آج اس کی مقبولیت ان میں ہے جو بینک بیل آؤٹ کے مخالف ہیں )
"کوئی بھی اپنا دماغ کسی دوسرے کے بارے میں سوچنے کے لئیے استعمال نہیں کر سکتا ۔” این رینڈ بڑے شوق یہ بات دہراتی تھی ۔”جسم اور روح کے تمام افعال نجی ہیں ۔اس لئیے ان کا اشتراک یا منتقلی ناممکن ہے ۔” حیران کن طور پر اس نے “ دلیل (reason) “ کو نہ صرف ہمارے انفرادی انتخاب کی بنیاد بلکہ مخالف جنس کے درمیان محبت کی بنیاد بھی قرار دیا . یہاں تک کے اس کے نزدیک جسمانی کشش بھی دماغ کی کارستانی تھی ۔ اگر معاشرہ بے لگام چھوڑ دے تو محبت ،جنس اور خواہش بھی خودغرض لگنے لگیں ۔ لیکن اس کے باوجود یا شاید اسکی وجہ سے انہوں نے انسانی فرد کو کشش ، توجہ اور تعریف کے قابل بنا دیا ہے ۔ جیسا کہ فونٹین ہیڈ میں قرار دیا گیا ،” مجھے تم سے محبت ہے ،کہنے کے لئیے پہلے یہ سیکھنا ہوگا کہ “میں “ کی ادائیگی کیسے کرنی ہے ۔ “
خواتین کی جنسیت کے حوالے سے اس کے نظریات مسائل پیدا کر سکتے ہیں ۔ایک طرف تو وہ ان چند خواتین ناول نگاروں میں سے ایک تھی جو خود احتسابی کے بغیر جسمانی خواہشات اور جنسی عضو پرستی پر لکھ سکتی تھی ۔ دوسری طرف اس کا لہجہ کبھی کبھار واضح طور پر متعصبانہ ہوتا تھا ، اور اس کی "خوبصورت عورت” عموماً سنہرے بالوں ,گوری رنگت اور لمبی ٹانگوں والی ہوتی تھی — جب کہ وہ خود ایسی نہیں تھی اور نہ ہو سکتی تھی ۔اس کے تمام ناولوں کے تقریباً جنسی مناظر میں ایک ہی پیٹرن دہرایا جاتا ہے : پہلے عورت مزاحمت کرتی ہے ،مرد اصرار کرتا ہے ،یہ اصرار بعض اوقات جسمانی طاقت کے استعمال کی حد تک ہوتا ہے اور آخرکار عورت ہتھیار ڈال دیتی ہے ۔
وہ کبھی بھی لچکدار شخصیت نہیں رہی ۔این رینڈ خواتین کے بارے میں اپنے خیالات سے حقوق نسواں کے حامیوں کو بدنام کرنا پسند کرتی تھی ، خصوصاً اپنے ان تبصروں سے جن میں وہ بتاتی کہ عورت کو اپنے مرد کی کیسے تعریف کرنی چاہیے ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کی اپنی شادی میں ایسا کچھ نہیں تھا ۔
سال گزرنے کے ساتھ اس کے خاوند فرینک او کو نور کی اپنی حیثیت بیوی کی شہرت کے ساۓمیں ماند پڑتی چلی گئی ۔ نہ کوئی غیر معمولی باصلاحیت اداکار ،اور نہ ہی پروڈیوسروں میں بہت مقبول ، وہ شادی کے وقت سے بے کار رہنے لگا ۔ یہ حقیقت کہ وہ اس سے زیادہ مشہور اور کامیاب تھی ، اس کے لئیے بوجھ بن گئی ۔ اپنی اس ناگفتہ بہ حالت کا مذاق اڑاتے ہوۓ وہ اکثر اپنا تعارف "مسٹر این رینڈ "کے طور ہر کراتا ۔
نیویارک ،1951 میں منتقل ہونے کے بعد این رنیڈ کی ملاقات ایک سائیکالوجی کے انیس سالہ نیتھینل برانڈن (Nathaniel Branden) نامی طالبعلم سے ہوئی ۔وہ اس کی قدر کرتا ،اسے سراہتااور شاید اس سے خوفزدہ بھی رہتا ۔اس کی پرستش اس حد تک پڑھ گئی کہ اس نے این رینڈ کے خیالات دور و نزدیک ہر جگہ پہنچانے کے لئیے باقاعدہ ایک ادارہ قائم کر دیا ۔ جو کشش ، دانشورانہ سطح سے شروع ہوئی تھی وہ جلد ہی جسمانی کشش میں بدل گئی ۔ یہ ایک قسم کی مقناطیسی کشش تھی جو ایک پختہ عمر مشہور و معروف عورت اور ایک جوان ,بلند حوصلہ اور چذباتی مرد کے درمیان شدت اختیار کر گئی ۔ اپنے خاوند سے کچھ بھی پوشیدہ رکھے بغیر ،رینڈ نے آہستہ آہستہ ایک محبت کی تکون بنا لی ،جس میں وہ خود مرکز میں تھی ۔اٹلس شرگڈ کا انتساب دونوں برانڈن اور او کو نور کے نام تھا ۔
اگرچہ یہ ایک پیچیدہ منصوبہ تھا جس سے کوئی بھی خوش نہیں تھا ،یہ سلسلہ چودہ سال چلتا رہا ،جب این رینڈ اکسٹھ سال کی ہوئی تو نیتھانیئل نے ایک جوان ماڈل کے لئیے اسے چھوڑ دیا ۔ مشہور مصنفہ جو جنسی تعلق کو بھی بنیادی طور پر عقلی و فکری تبادلہ ہی سمجھتی تھی , وہ اپنے طویل المدتی عاشق کے “ دماغ پر جسم کی ترجیح دیے جانے “ کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کر سکی ۔
اس نے کبھی بھی اسے معاف نہیں کیا ۔ شاید اس کے عاشق کا اس کی فلاسفی کو ترک کرنا جسمانی تعلق کے ختم کرنے سے زیادہ تکلیف دہ تھا ۔ The Objectivist میں اپنے تلخ آرٹیکل میں اس نے سب کے لیے اعلان کیا کہ کہ اب وہ دونوں مختلف راستوں پر ہیں ۔ اس کے بعد وہ دوبارہ کبھی نہیں ملے ۔
این رینڈ ان کچھ خواتین مصنفین میں سے تھی جنہوں نے شروع ہی سے بچے نہ بنانے کا انتخاب کر لیا تھا ۔جس طرح بچوں کا اس کی زندگی سے کوئی واسطہ نہیں تھا اسی طرح اس کے ناولوں میں بھی ان کا کوئی کردار نہیں تھا ۔ اس پر بچوں کے بارے میں نہ لکھنے اور نہ ہی انہیں سمجھنے کی کوشش کرنے پر تنقید کی گئی ۔لیکن ہمیں کہیں سے بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اس نے اس تنقید کو در خور اعتنا بھی سمجھا ۔ جن بچوں کی اسے ہمیشہ خواہش رہی ،وہ اس کی کتابیں تھیں ۔
Books of Ayn Rand
وہ درخشاں خیالات کی مصنفہ اور شاندار تضادات کی حامل عورت تھی —یہی اس کی میراث ہے ۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ اس کی موت کے بعد بھی اس کی تعریف کرنے والے اور اسے ناپسند کرنے والے اپنی اپنی راۓپر بضد ہیں ۔ اگرچہ اس نے بڑے جوش اور مستعدی سے سرمایہ داری کا دفاع کیا لیکن اپنی نجی زندگی میں اس نے ایسے تعلقات کو پسند کیا جو مطلق العنانیت اور آمریت سے جڑے ہوں ۔نظریاتی طور پر وہ انفرادی آزادی اور تنقیدی سوچ کے حق میں تھی لیکن حقیقت میں وہ اپنے اوپر کی گئی تنقید سے نفرت کرتی تھی ۔ جو بھی اس سے متفق نہیں ہوتا وہ اسے چھوڑ دیتی اور اس سے نفرت کرتی ۔ وہ اپنے قریبی لوگوں سے فرمانبرداری اور وفاداری کی توقع رکھتی ۔ اس کے باوجود کے وہ ضدی اور ہٹ دھرم تھی اور اس کے ناولوں میں آزاد نسوانی کرداروں کی بھرمار تھی وہ دلیل دیتی تھی کہ عورت کو اپنے مرد کے آگے جھک جانا چاہیے ۔ یہ حقیقت کہ وہ اپنی نجی زندگی میں ایسا کچھ نہیں کرتی تھی مختلف معاملہ ہے ۔
وہ ایک مزاحمت کار تھی ، جب اسے کینسر ہوا تو وہ نہیں چاہتی تھی کہ کسی کو معلوم ہو ۔وہ اپنی بیماری کو بھی ایک غلطی سمجھتی تھی جسے "درست” کرنا تھا اور اس نے اسے” درست ” کیا بھی ۔ اور کینسر کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئی ۔ اس کے لیے یہ دماغ کی جسم پر ایک اور فتح تھی ،اس کے نظریے کی تصدیق ۔
لیکن 1982 میں وہ با لکل اچانک غیر متوقع طور پر دل کے دورے سے فوت ہو گئی ۔
آج ساری دنیا سے ادب کے شائقین انٹر نیٹ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور سوالات پوچھتے ہیں مثلا ً اگر این رینڈ میری ماں ہوتی تو میں کس قسم کا نفسیاتی مریض بنتا ۔ ؟ "یا ” اگر میری شادی این رینڈ سے ہوتی تو میری زندگی کیسی ہوتی ؟ ” ہو سکتا ہے وہ صحیح ہوں ۔این رینڈ ماں یا بیوی بننے کے لیے پیدا نہیں ہوئی تھی ۔اگر وہ ماں ہوتی تو وہ ضرور سفاک حاکم قسم کی ماں ہوتی ۔ ہر بچے کو ایک سائنسی تجربہ سمجھتی ۔لیکن شاید ہم سب غلطی کر رہے ہیں ۔ ہو سکتا ہے وہ ماں بننے کو حیران کن شدید ذہنی تجربہ قرار دیتی — جس طرح اس نے اپنی ڈائری میں سکول اور کلاس کو نوجوان لڑکی کہا ہے ۔ مجھے یہ جاننے میں دلچسپی ہے کہ اگر اس کا بچہ ایک باغی نوجوان بن جاتا تو وہ کیا کرتی ۔
یہ قابل فہم ہے کہ شروع ہی سے اسے احساس ہو گیا ہو کہ ماں اور بچے کے رشتے میں جیت ہمیشہ بچے کی ہوتی ہے ۔شاید اسی وجہ سے وہ بچہ چاہتی ہی نہیں تھی ۔این رینڈ جیتنا پسند کرتی تھی ۔
 
کتابیں پیدا کرنا ہی اس کے لئے کافی تھا ۔
 
****
(ایلف شفق کی ترکی زبان میں لکھی کتاب Siyah Süt کے انگریزی ترجمہ Black Milk کے ایک باب In Praise of Selfishness کا ترجمہ)
انگریزی ترجمہ : Hande Zapsu
 
مترجم کا نوٹ
اپنی کتاب Black Milk میں ایلف شفق نے وضع حمل (postpartum depression) کے بعد کا ڈپریشن ، ذہنی صحت ،ورکنگ ویمین ، ماں اور لکھنے لکھانے جیسے موضوعات پر بات کی ہے ۔ اس میں اس نے اپنے ماں بننے کے تجربے اور اس جدوجہد میں جو اسے پوسٹ پارٹم ڈپریشن کے خلاف کرنی پڑی کو بیان کیا ہے ۔
اس کتاب میں قاری کو مختلف مصنفین کی زندگی میں جھانکنے کا موقع ملتا ہے۔جن میں لیو ٹالسٹائی سے لے کرزیلڈا فٹزگیراڈ سے ٹونی موریسن اور بہت سارے اور شامل ہیں ۔ انہی میں یہ اقتباس بھی شامل ہے ۔

ترجمہ نگار کا تعارف:

عقیلہ منصور جدون

پیدائش : 14 جولائی 1957 حسن ابدال ضلع اٹک ۔ میٹرک تک کی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ گرلز کالج حسن ابدال سے حاصل کی ، سکول میں سوسائٹی برائے ادب کی صدر رہی ۔ ۔بعد ازاں سی بی کالج ( موجودہ ایف جی ) سے تعلیم مکمل کر کے پنجاب یونیورسٹی لاء کالج لاہور سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی ۔1984 میں شادی ہو جانے کے بعد سے اب تک راولپنڈی میں رہائش پزیر ہیں ۔لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ کی پہلی خاتون وکیل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ۔ عملی طور پر وکالت کے ساتھ ساتھ راولپنڈی کے مختلف لاء کالجز میں قانون پڑھانے کا سلسلہ بھی جاری رہا ۔انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ خواتین میں بھی قانون پڑھانے کا اعزاز حاصل ہوا ۔ سیاست میں دلچسپی رہی ۔1994 میں انٹرنیشنل مسلم وویمن کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی اور صدر سوڈان سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہو ا ۔ ادب سے دلچسپی بچپن سے وراثت میں ملی ۔ سکول و کالج لائف میں روزنامہ تعمیر (جو بعد میں بند ہو گیا )کے ادبی صفحے پر تحریریں چھپتی رہیں ۔ اب عملی طور وکالت کو خیر آباد کہنے کے بعد نیٹ ہر “ عالمی ادب کے اردو تراجم “ سے متعارف ہونے کے بعد فطری ادبی لگاؤ نے تراجم کی طرف راغب کر دیا ۔ اس سلسلے کی پہلی کتاب “ خدا کے نام خط “ حال ہی میں ‘سٹی بک پوائنٹ، کراچی’ سے شائع ہوئی ۔ مزید تراجم کا سلسلہ جاری ہے۔

برائے رابطہ : aqilajadoon@gmail.com

 

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے