ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اسی کرہ ارض پر ایک ایسا ملک آباد تھا جہاں باتیں بہت زیادہ ہوتی تھیں اور کام بہت کم۔ پرانے زمانے میں جس طرح باقی سب ملکوں میں ایک ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا، اس ملک میں بھی ایک بادشاہ حکمران تھا۔ رعایا کو بادشاہ ایک آنکھ نہ بھاتا۔ رعایا تو خود رعایا، بادشاہ کے محل والوں کو بھی اس سے سخت نفرت تھی۔ سچ پوچھیے تو بادشاہ سلامت تھے ہی اس قابل کہ لوگ ان سے نفرت کرتے۔ عوام کو بادشاہ سے جس قدر نفرت تھی ولی عہد سے اتنی ہی محبت تھی۔ وہ پوری سلطنت کی قدرو منزلت اور چاہت کا واحد حقدار تھا۔ چھوٹے بڑے، مرد عورت سب ولی عہد کو بے حد چاہتے۔ اس کا اشارہ پاتے ہی ہر شخص اس کی خاطر جان قربان کرنے کو تیار ہو جاتا۔ محبت کا یہ جذبہ یک طرفہ نہیں تھا۔ ولی عہد کو بھی وطن اور عوام سے بہت پیار تھا۔ وہ جب کبھی بادشاہ سلامت کی کڑی نگرانی سے بچ کر سیر سپاٹے کے بہانے محل سے باہر نکلتا ملک کے اجاڑ بیابان علاقے اور خشک اور ویران زمینیں دیکھ کر خون کے آنسو بہاتا۔ اکثر اسے بلند آواز میں کہتے سنا گیا :
’’آہ میرے پیارے وطن کیا تیری یہ زمین ہمیشہ یوں ہی ویران پڑی رہے گی؟‘‘ کبھی اس کا گزر کسی دلدل بھرے علاقے سے ہوتا تو کہتا :
’’اگر کسی طرح اس دلدل کے علاقے کے پانی کار خ بنجر زمینوں کی طرف موڑ دیا جائے تو کتنا اچھا ہو۔ ایک طرف سوکھی پیاسی زمینیں سر سبز اور شاداب ہو جائیں تو دوسری طرف یہ دلدل بھرا علاقہ آباد ہو جائے۔ اس طرح بیماری سے بھی نجات مل جائے اور بھوک ننگ سے بھی۔‘‘
ملک کے اخبار نویسوں اور صحافیوں کو ولی عہد سے خاص انس تھا۔ خود ولی عہد بھی رعایا کے تمام طبقوں میں سب سے زیادہ صحافیوں کو چاہتا تھا۔ جب کبھی اسے بادشاہ سلامت کی طرف سے اخبارات و رسائل پر ڈالے جانے والے نا جائز دباؤ کا احساس ہو تا وہ سخت پریشان ہو کر کہتا :’’ جس ملک میں پریس آزاد نہیں، وہاں جمہوریت کبھی پروان نہیں چڑھ سکتی۔‘‘ ولی عہد کو جب موقع ملتا صحافیوں سے خفیہ پریس کانفرنس کرتا۔ ان کے مسائل نہایت غور سے سنتا۔ ان کی مشکلات پر پریشانی کا اظہار کرتا۔ ادھر صحافی بھی ولی عہد کے ارد گرد اس امید سے جمع رہتے کہ شاید وہ کسی روز بادشاہ کا تختہ الٹ دے اور اس کی جگہ خود تخت پر بیٹھ جائے تو پریس کو مکمل آزادی نصیب ہو جائے۔
بعض اوقات ولی عہد صحافیوں کو بڑی بڑی ضیافتیں کھلاتا۔ ان کے ساتھ تصویریں کھنچواتا۔ کبھی کبھی ان تصویروں کی پشت پر یہ عبارت لکھ اخبار نویسوں کو دیتا۔ ’’ دوستی کے بہترین دنوں کی یاد گار۔‘‘ اس عبارت کے نیچے اپنے پُر خلوص دستخط بھی ثبت کر دیتا۔
آزادی تقریر و تحریر کے حامی ولی عہد سے ملک کے فنکاروں کو بھی بڑا لگاؤ تھا۔ ولی عہد کے قدر دانوں میں کم آمدنی والے سرکاری ملازم اور محنت کش طبقے کے لوگ بھی شامل تھے۔ انہیں مکمل یقین تھا کہ اگر ولی عہد تخت نشین ہوا تو ان کے تنگی کے دن بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں گے۔ کاشتکار بھی ولی عہد کے بہی خواہ تھے۔ ہر شخص اس امید پر زندہ تھا کہ وہ بادشاہ بنے گا تو ملک کو جنت نشان بنا دے گا۔ بادشاہ کو ولی عہد کے اس قدر ہر دلعزیز ہونے کا احساس ہوا تو اس نے اس بیچارے پر ظلم و ستم ڈھانا شروع کر دیا۔ عوام سے ملنے اور بات چیت کرنے پر پابندی لگا دی۔ کچھ عرصہ بعد محل کے ایک کمرے میں اسے نظر بند کر دیا گیا۔ پھر ہیرے جواہرات، نوجوان خوب صورت لونڈیاں اور اسی قسم کے دوسرے لالچ دے کر اس کا منہ بند کرنے کی کوششیں کیں لیکن ولی عہد کے دل میں رعایا اور وطن کے بہبود کی ایسی دھن سما چکی تھی کہ اس نے ان چیزوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ اسے نہ اپنی جان کی پروا تھی اور نہ عیش و عشرت یا آرام طلبی کی۔
شاہی محل کا تمام سٹاف اور بادشاہ کے وزراء بھی ولی عہد سے دلی ہمدردی رکھتے تھے۔ وہ اس کے خفیہ طور پر لکھے ہوئے مکتوب چوری چوری اخبار نویسوں تک پہنچاتے۔
آخر کار وہ دن بھی آ گیا جب رعایا نے بادشاہ کے ظلم و ستم کی تاب نہ لاتے ہوئے ملک کے روشن خیال طبقے کی رہنمائی میں علم بغاوت بلند کر دیا۔ بادشاہ کو تخت سے اتار کر ولی عہد کو بادشاہ بنا دیا گیا۔ عوام نے خوشیوں کے شادیانے بجائے اور شاہی محل کے اراکین نئے بادشاہ کو اس عظیم الشان کامیابی پر مبارکباد دینے گئے۔ نئے بادشاہ نے ان سب کو بہت غور سے دیکھا اور پھر حیرت بھری آواز میں پوچھا ’’آپ کون ہیں ؟‘‘
وہ بڑے حیران ہوئے۔ اور حیران کیوں نہ ہوتے؟ جس شخص کو بادشاہ بنانے کے لئے انہوں نے سالہا سال سنگین خطرات مول لئے اور اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہوئے بغاوت کر کے اس کے لئے تخت و تاج خالی کر وایا وہی شخص اب انہیں پہچاننے سے انکار کر رہا تھا۔ آخر ایک شخص نے آگے بڑھ کر اپنا تعارف کروایا :
’’بادشاہ سلامت میں وہی نا چیز خادم ہوں جو شاہی محل میں آپ کی نظر بندی کے دوران اپنی قیمتی جان ہتھیلی پر رکھ کر آپ کے خفیہ مراسلات اخبارات کو پہنچاتا تھا۔‘‘
بادشاہ گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ دماغ پر زور ڈالتے ہوئے بولا’’ یہ کب کی بات ہے ؟ مجھے تو کوئی ایسا واقعہ یاد نہیں آتا۔ میں نے تو تمہیں آ ج زندگی میں پہلی بار دیکھا ہے۔‘‘ ایک اور شخص نے آگے بڑھ کر عرض کی:’’عالی جناب، آپ مجھے تو ضرور پہچان لیں گے۔ میں وہی شخص ہوں جو راتوں کو چوری چوری آ کر آپ کو پرانے بادشاہ کے تخت کو پلٹنے کی مختلف اسکیمیں پیش کیا کرتا تھا۔ ان اسکیموں پر عمل درآمد کرانے کا شرف بھی مجھی کو حاصل ہوا۔‘‘ بادشاہ نے بے رخی سے جواب دیا ’’تم نے ضرور کوئی خواب دیکھا ہو گا۔ مجھے ان باتوں کی کچھ خبر نہیں۔‘‘ ان لوگوں نے لاکھ کوشش کی مگر بادشاہ کسی کو پہچان نہ سکا۔ اگلے روز ایک وفد بادشاہ کو مبارک باد دینے آیا۔ بادشاہ نے سب کو باری باری سر سے پاؤں تک بغور دیکھا پھر بولا’’ میں آپ حضرات میں سے کسی کو بھی نہیں جانتا۔ میرے خیال میں اس سے پہلے آپ لوگوں سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔‘‘ ایک اخبار نویس نے بادشاہ سے کہا ’’عزت مآب، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ مجھے بھی نہیں پہچانتے جسے آپ نہایت بے تکلفی سے ’’میرے بھائی‘‘ کہا کرتے تھے۔ جب ملاقات ہوتی میرے گلے لگ کر بوسا دیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اکثر آپ مجھے مل کر ہائے آزادی۔ ہائے آزادی پکار پکار کر آنسو بہاتے تھے۔‘‘
’’ کون،میں آنسو بہایا کرتا تھا ؟‘‘
’’جی حضور آپ۔‘‘
’’لیکن کب ؟‘‘
’’ اکثر۔ بادشاہ بننے سے صرف چند روز پہلے تک۔‘‘
’’لیکن کہاں ؟‘‘
’’جہاں کہیں ملاقات ہوتی۔ ہر جگہ۔‘‘
’’آپ ضرور دھوکہ کھا رہے ہیں۔‘‘ بادشاہ نے بڑے اعتماد سے کہا ’’مجھے اس بات کا علم نہیں ۔ آپ نے میری ہی شکل کا کوئی اور آدمی دیکھا ہو گا۔‘‘
اخبار نویس نے جیب سے ایک تصویر نکالی اور بادشاہ کو دکھائی۔ یہ تصویر دونوں نے اکٹھے کھنچوائی تھی۔ تصویر پر بادشاہ کے ان دنوں کے آٹو گراف تھے جب وہ ولی عہد تھا۔ ساتھ ہی محبت بھرے الفاظ بھی درج تھے۔ بادشاہ نے تصویر دیکھی۔ لیکن نہ اپنی تصویر پہچانی اور نہ اپنے دستحظ۔
لوگوں نے آپس میں صلاح مشورہ کیا۔ انہوں نے سوچا کہ وہ اچانک بادشاہت ملنے کی خوشی میں اپنی یادداشت کھو چکا ہے۔ چنانچہ اسے کھلی ہوا میں خوب سیر کروائی گئی۔ پھر اسے اسی دلدل اور بنجر علاقے میں لے گئے جسے جنت نشان بنانے کی آرزو میں وہ تڑپتا رہتا تھا۔ بادشاہ نے بغور دلدل پر نگاہ ڈالی اور پھر پوچھا ’’یہ کون سی جگہ ہے، مجھے یہاں کیوں لایا گیا ہے؟۔‘‘
’’حضور یہ وہی دلدل ہے جس کے پانی کا رخ موڑ کر آپ ارد گرد کے بنجر علاقے کو سرسبز بنانے کی مختلف اسکیمیں بنایا کرتے تھے۔ جسے ایک خوبصورت جھیل کی شکل دی جانے والی تھی جہاں دنیا کے گوشے گوشے سے سیاح آنے والے تھے۔‘‘
بادشاہ نے ایک بار پھر غور سے دلدل کی طرف دیکھا اور کہا :
’’بخدا میں نے یہ جگہ زندگی میں آج پہلی بار دیکھی ہے۔ اُف، کس قدر غلیظ جگہ ہے یہ !کتنی بدبو آ رہی ہے ! کاش میں یہاں کبھی نہ آتا !مجھے فوراً واپس محل لے چلو۔‘‘
الغرض نئے بادشاہ کو نہ تو اپنے ولی عہد کے دور کی کوئی بات یاد آئی اور نہ اس نے ان دنوں کے کسی دوست کو پہچانا۔ چند سیانے لوگوں نے مشورہ دیا :’’ معلوم ہوتا ہے بادشاہ کی یادداشت بالکل ختم ہو چکی ہے۔ بھلا دیکھیں تو سہی اپنے آپ کو بھی پہچانتا ہے یا نہیں۔‘‘ ایک روز اس کے سامنے ایک خوب صورت سنہرے فریم والا قد آدم آئینہ لایا گیا۔ بادشاہ نے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھا، دیر تک نظریں جمائے رکھیں، پھر بولا ’’ یہ کون شخص ہے ؟‘‘
’’آپ ہیں بادشاہ سلامت۔‘‘
’’نہیں نہیں۔ یہ میں تو نہیں۔ میں تو ان صاحب کو نہیں پہچانتا ! میں نے تو آج پہلی بار انہیں دیکھا ہے۔‘‘
’’ جناب ذر ا غور سے دیکھیے، دماغ پر زور ڈالیے، یہ آپ ہی ہیں۔‘‘
’’نہیں نہیں ۔ میں نہیں ہوں۔ آئیے آپ لوگ خود دیکھیے اور فیصلہ کیجئے کہ آیا یہ میں ہوں یا کوئی اور۔‘‘
حاضرین نے آگے بڑھ کر آئینے میں دیکھا تو ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ آئینے میں بادشاہ کے عکس کے بجائے ایک عجیب الخلقت چیز دکھائی دے رہی تھی، اس کے گدھے جیسے لمبے لمبے دو کان تھے۔ بیل جیسے دو عدد سینگ۔ بیل ہی کی آنکھوں جیسی دو موٹی موٹی آنکھیں، جسم پر بندر کی طرح لمبے لمبے بال۔ بن مانس جیسا بھاری بھرکم جسم۔ سؤر کی سی تھوتھنی اور گینڈے کی طرح منہ تھا۔ لوگوں نے بادشاہ کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے معافی مانگی اور سب اپنے اپنے گھروں کو چل دیے۔
اس روز سے رعایا میں ہر شخص کے دل میں ایک نئی امید نے جنم لینا شروع کیا۔ ایک نیا ولی عہد، اس کی شاہی محل میں نظر بندی، موجودہ بادشاہ کا تختہ الٹ کر نئے ولی عہد کو بادشاہ بنانے کی امید۔
(ترکی زبان سے براہِ راست اردو ترجمہ)
مترجم کا تعارف:
کرنل (ر) مسعود اختر شیخ، یکم مارچ 1928ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ گارڈن کالج سے بی اے آرنرز کرنے کے بعد 1949ء میں فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ سٹاف کالج کوئٹہ اور استنبول (ترکی) سے فارغ التحصیل ہوئے۔ اپنی عسکری ذمہ داریوں کے دوران میں خوب دنیا دیکھی اور ترکی زبان پر دسترس حاصل کی اور لمبا عرصہ ترکی میں گزارا۔ ادبی ذوق اور عصرِ حاضر کے مشہور ترک ادیبوں سے دوستی نے ترکی ادب کی گہرائیوں تک اترنے کی ترغیب دی۔ 1977ء میں ریٹائر ہونے کے بعد پاکستانی قارئین کو ترکی ادب سے روشناس کرانے کا بیڑا اٹھایا۔ اور متعدد ترک تحریروں کو اردو زبان میں ڈھالا۔ نمایاں کتابوں میں "تماشا ئے اہلِ کرم ” (عزیز نہِ سِن)، "ہمارے امریکی مہمان” (عزیز نہِ سِن)، "مُردہ گدھے کے خطوط” (عزیز نہِ سِن)، "جھگڑا روٹی کا” (اورحان کمال)، "دوشرابی” (اورحان کمال) اور "راہوں کے ساتھی” (یشار کمال) شامل ہیں۔