fbpx
تراجمترجمہ افسانہ

اٹالو کالوینو کا افسانہ "بنات القمر”

اردو ترجمہ : سیّد سعید نقوی

اٹالو کالوینو (Italo Calvino)، 15 اکتوبر 1923 میں کیوبا کے شہر ہوانا میں پیدا ہوئے۔پیدائش کے دو برس بعد ہی وہ اپنے اطالوی والدین کے ساتھ واپس اٹلی منتقل ہوگئے۔ جہاں ان کا انتقال 19 ستمبر 1985میں ہوا۔

کالوینو اپنے عہد کے اٹلی کے سب سے زیادہ با اثر تخلیق کار تھے۔ان کی کہانیوں اور ناولوں نے مغربی ادبی دنیا میں انتہائی مقبولیت اور پذیرائی حاصل کی۔ ان کی ناولوں میں The queen’s necklace, The white Schooner, Youth in Turin, The cloven Viscount, The Baron in tree وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی ناولوں میں استعاراتی حقیقت نگاری ہے ـ

افسانہ "بنات  القمر ” Le figlie della Luna کے انگریزی ترجمہ بعنوان Daughters of the Moon سے اردو ترجمہ ہے۔ یہ اٹالو کالوینو کی عصری کہانی ہے، جس میں ان کے کمیونزم کے خیالات کی عکاسی نظر آتی ہے۔

افسانہ

چاند بہت قدیم ہے، کیوفک نے اتفاق کیا، تھکا ماندہ، داغدار۔آسمانوں کے درمیان برہنہ پھرتے ہوئے وہ رفتہ رفتہ جھڑتا رہا ہے، کسی گوشت نچی ہڈی کی مانند۔ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا۔مجھے وہ چاند یاد ہیں جو اس سے زیادہ خستہ اور اس سے بھی زیادہ پرانے تھے۔ میں نے ایسے کئی چاند دیکھے ہیں۔ ان کی پیدائش دیکھی ہے اور پھر انہیں آسمان میں پھر کر ختم ہوتے دیکھا ہے۔کسی ٹوٹتے ستارے کی سنگ باری سے جیسے ان کی ہوا نکل جائے، جیسے کسی کے تمام آتش فشاں ایک ساتھ پھٹ جائیں۔ تو ایک پکھراج رنگ پسینہ بہا کر، چاند اس کی جگہ ہرے بادلوں کا لبادہ اوڑھ لیتا اور وہاں محض ایک خشک اسفنج کی گیند ہی باقی رہ جاتی۔

جب کوئی چاند مرتا ہے، تو زمین پر کیا گزرتی ہے، یہ بیان کرنا آسان نہیں ہے۔میں کوشش کروں گا کہ جب آخری بار ایسا ہوا تھا تو اسے بیان کرسکوں۔ ایک طویل ارتقائی سفر کے بعد زمین اس مقام پر پہنچ گئی ہے جہاں آج ہم ہیں۔یعنی ہم ایسے باب میں داخل ہوگئے ہیںجہاں کاروں کے ٹائر جوتوں کے تلے سے پہلے گھس جاتے ہیں۔وہ مخلوق تو بمشکل انسان تھی جس نے اشیا کو ایجاد کیا، ان کی خرید و فروخت کی ، یہاں تک کہ شہروں نے براعظموں کو روشنی سے ڈھانپ دیا۔یہ شہر تقریباـ ان ہی مقامات پر آباد تھے جہاں آج کے شہر آباد ہیں، چاہے بر اعظموں کی کوئی بھی ہئیت رہی ہو۔کوئی نیویارک تھا جو اس نیویارک  سے مشابہہ تھا جس سے آج ہم مانوس ہیں۔لیکن وہ نیویارک زیادہ نیا تھا، بلکہ یوں کہیے کہ نئی اشیا سے پرُ تھا، جیسے نئے ٹوٹھ برش۔ ایک نیویارک جس کا اپنا مین ہٹن تھا۔ بلند قامت عمارتوں کا جنگل جو کسی نئے ٹوٹھ برش کے نائلون ریشوں کی مانند چمکدار تھا۔

اس دنیا میں جہاں ہر وہ شے رد کردی جاتی جس پر خستگی یا عمر رسیدہ ہونے کا ذرا بھی شبہ ہوتا۔ کوئی خراش، کوئی داغ ہوتا تو اس کی جگہ فوراـ "نیا، سالم, نعم البدل آجاتا۔ یہاں صرف ایک ہی خستہ جاں، سایہ ہی باقی تھا؛ چاند۔یہ آسمان پر برہنہ، زنگ آلود،بھورا لٹکتا رہا۔نیچے موجود زمین کے لیے زیادہ سے زیادہ اجنبی ، اپنی عظمت گزشتہ کا محض ایک سایہ۔

پرانی اصطلاحات، مثلاـ پورا چاند، آدھا چاند، آخری چوتھائی کا چانداستعمال تو ہوتی رہیں، لیکن یہ تو محض انداز بیان تھا،  ورنہ بھلا ایسی شکل کو پورا چاند کیسے کہہ سکتے ہیں جو سوراخوں اور دراڑوں سے پرُ ہو۔ ہمیشہ ایسا لگتا ہو کہ کسی بھی وقت ہمارے سروں پر ملبے کی صورت آگرے گا۔اور کسی ڈھلتے چاند کا تو ذکر ہی کیا! جیسے کترے ہوئے پنیر کا چھلکا، جو ہماری توقع سے بھی پہلے ہی غروب ہوجاتا۔ہر نئے چاند پر ہم یہی سوچتے کہ کیا یہ کبھی دوبارہ بھی طلوع ہوگا (کیا ہم سمجھ رہے تھے کہ یہ ایسے ہی غائب ہو جائے گا؟)۔ اور پھر وہ دوبارہ دندان جھڑے کنگھے کی صورت نمودار ہوتا، تو ہم پھریری لے کر آنکھیں پھیر لیتے۔

یہ بہت مایوس کن نظارہ تھا۔ہم باہر لوگوں میں شامل ہوگئے۔ ہمارے بازو تھیلوں سے بھرے ہوئے تھے۔ وسیع ڈپارٹمنٹ اسٹوروں میں داخل ہوتے اور باہر نکلتے، جو دن رات کھلے رہتے۔جب  ہم ان روشن اشتہاروں کو دیکھ رہے تھے جو بلند قامت عمارتوں پر اوپر ہی اوپر چڑھتے جا رہے تھے، جو ہمیں نئی مصنوعات سے متعارف کراتے ۔ اچانک ہمیں ان چکا چوند روشنیوں میں وہ پھیکا ، نمودار ہوتا نظر آیا۔ سست رفتار، بیمار صورت نظر آئی۔ یہ بات ہم اپنے ذہنوں سے نہ نکال سکے کہ یہ نئی شے تو ہم نے ابھی خریدی تھی، یہ بھی اسی طرح پرانی ہوکر خستہ ہوگی اور ختم ہوجائے گی۔ ہمارا یہ جوش و خروش، دیوانوں کی مانند کام کرنا بھی ختم ہوجائے گا جو محض نئی اشیا کی خریداری کے سبب ہے۔ اس نقصان میں بہر حال صنعت و کامرس کے لیے مضمرات تو پوشیدہ تھے۔

یہی وجہ تھی کہ ہم نے غور کرنا شروع کیا کہ اس غیر پیداواری ذیلی سیارے کا کیا کریں؟ یہ خستہ جان کسی کام کا نہیں تھا۔ اپنا وزن کم ہوجانے کے باعث ، اس کے مدار کا جھکائو زمین کی سمت ہوگیا تھا، یہی سب سے بڑا خطرہ تھا۔ جتنا یہ قریب ہوتا گیا اتنا ہی سست رفتار بھی۔ اب ہم اس کے مدارج بھی ناپ نہیں پا رہے تھے۔ جنتری میں مہینوں کی تال بھی بس ایک روایت ہی رہ گئی تھی۔ چاند اب دھکوں سے آگے بڑھتا تھا، جیسے کسی بھی وقت گر پڑے گا۔

چاند قریب آتا، تو کچھ مخصوص مزاج کے لوگ عجیب حرکتیں کرنے لگتے تھے۔خواب میں چلنے والا کوئی شخص ، کسی بلند عمارت کی کگر پر اپنے ہاتھ چاند کی جانب بلند کیے چلنے لگتا۔ٹائمز اسکوائر کے وسط میں کوئی وئیر وولف بھونکنے لگتا، یا کوئی آگ کا شوقین بندرگاہ کے گوداموں کو نذر آتش کردیتا۔اب یہ نظارے عام ہوگئے تھے اور ان سے اونچی گردنوں کا جھمگٹا نہیں لگتا تھا۔ لیکن جب میں نے سینٹرل پارک کی ایک بنچ پر ایک لڑکی کو مکمل برہنہ بیٹھے دیکھا تو مجھے رکنا پڑا۔

اس پر نگاہ پڑنے سے پہلے ہی میری چھٹی حس نے مجھے کسی پراسرار واقع سے آگاہ کردیا تھا۔ جب میں اپنی کنور ٹیبل کار میں سینٹرل پارک سے گزر رہا تھا، تو مجھے لگا جیسے میں جلتی بجھتی روشنی میں نہا گیا ہوں۔جیسے کوئی بلب فیوز ہونے سے ذرا پہلے کئی بار بہت تیزی سے بھڑکتا ہے۔میرے اطراف میں باغ ایسا منظر پیش کررہا تھا  جیسے وہ چاند کے کسی گڑھے کا حصہ ہو۔ وہ برہنہ لڑکی تالاب کے کنارے بیٹھی تھی، جس میں ایک قاش کی شکل  کے چاند کا عکس جھلملا رہا تھا۔میں نے گاڑی روک دی ۔ ایک لمحے کے لیے مجھے شبہ ہوا کہ شاید میں اسے پہچانتا ہوں۔ میں کار سے نکل کر اس کی جانب بھاگا، مگر پھر میں ٹھٹک گیا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ کون تھی؟ لیکن مجھے یہ احساس ضرور ہوا کہ مجھے اس کے لیے کچھ کرنا ہے۔

ہر چیز اس بنچ کے اطراف گھاس پر بکھری ہوئی تھی: اس کے کپڑے، اسٹاکنگ، جوتے یہاں ہیں، تو باقی وہاں، اسکی بالیاں ، گلے کا ہار،کنگن ، پرس اور خریداری کا تھیلا، جس کا سامان ایک بڑے سے قوس میں پھیل گیا تھا۔لاتعداد تھیلے اور اشیا ،جیسے کسی شاہ خرچ کو خریداری کے دورے سے واپس بلا لیا گیا ہو، اور اس نے ہر چیز گرا دی ہو۔ وہ اپنی ذات کا ہر اس شے سے رابطہ منقطع کرنا چاہتی ہو جو زمین سے اس کا رشتہ ثابت کرسکے، اور اب وہ چاند کے گولے میں سما جانے کی منتظر ہو۔

"کیا ہورہا ہے؟”،میری زبان لڑکھڑا گئی، "کیا میں کچھ مدد کرسکتا ہوں؟”

"مدد؟” اس نے دریافت کیا۔ اس کی نظریں آسمان پر جمی تھیں۔ "کوئی مدد نہیں کرسکتا، کوئی کچھ نہیں کرسکتا”۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ اپنے متعلق نہیں بلکہ چاند کے متعلق گفتگو کررہی تھی۔

چاند عین ہمارے اوپر تھا۔ ایک محدب شکل جو ہم پر چھائی ہوئی تھی، کھنڈر نما چھت، پنیر کش کترنے والے آلے کی مانند سوراخوں سے پرُ۔۔ عین اسی وقت چڑیا گھر میں جانوروں نے چنگھاڑنا شروع کردیا۔

"کیا یہی اختتام ہے؟ "میں نے میکانکی انداز میں دریافت کیا۔مجھے خود بھی علم نہیں تھا کہ میں کیا پوچھ رہا ہوں۔

"یہ تو ابتدا ہے”، وہ بولی، یا اس قسم کا کوئی فقرہ ادا کیا (وہ تقریباـ بغیر ہونٹ کھولے بولتی تھی)۔

"کیا مطلب ہے تمھارا؟ یہ اختتام کی ابتدا ہے، یا کسی اور چیز کی ابتدا؟”

وہ اٹھ کر گھاس پر چل دی۔اس کے لمبے تانبے ایسے بال، اس کے کندھوں سے نیچے پڑے تھے۔ وہ اتنی کمزور لگ رہی تھی کہ مجھے لگا جیسے مجھے کسی طرح اس کی حفاظت کرنی ہے، اسے بچانا ہے۔ میں نے اس کی جانب اپنا ہاتھ بڑھایا جیسے اگر وہ گر رہی ہو تو اسے سنبھال لوں گا۔ اگر کوئی شے اسے نقصان پہچانے کے درپے ہوتو اسے روک دوں گا۔ لیکن میرے ہاتھ اسے چھونے کی ہمت نہ کرسکے، مستقل اس کی جلد سے چند سینٹی میٹر کے فاصلے پر ہی رہے۔یوں جب میں نے اس کا پھولوں کے باغات میں تعاقب کیا تو مجھ احساس ہوا کہ اس کی حرکات تو مجھ جیسی ہی ہیں۔وہ خود بھی کسی نازک شے کو بچانے کی کوشش کررہی تھی، کوئی چیز جو گر کر چکنا چور ہوسکتی تھی، اور جسے کسی محفوظ مقام تک پہنچانا بہت ضروری ہو۔کوئی ایسی شے جسے وہ چھو نہ سکے لیکن اپنے اشاروں سے جسے راستہ دکھا سکے: چاند۔

چاند کھویا ہوا لگتا تھا۔ اپنے مدار کو چھوڑ دینے کے بعد اب اسے نہیں معلوم تھا کہ اس کی منزل کیا ہے؛ کسی سوکھے پتے کی مانند وہ اپنے رہنما کی اطاعت کررہا تھا۔ کبھی محسوس ہوتا تھا جیسے وہ زمین کی جانب جھک رہا ہو، کبھی وہ گھوم کر چکر لگاتا محسوس ہوتا، اور کبھی محض اس سمندر میں بہتا محسوس ہوتا۔مگر یہ بات تو یقینی تھی کہ وہ اپنی بلندی کھو رہا ہے۔ ایک لمحے کو تو ایسے لگا جیسے وہ پلازہ ہوٹل سے ٹکرا جائے گا۔ لیکن وہ دو اونچی عمارتوں کی درمیانی گلی میں داخل ہوگیا، اور جلد ہی  دریائے ہڈسن کی سمت نظر سے اوجھل ہوگیا۔وہ جلد ہی شہر کی مخالف سمت میں نمو دار ہوا۔ بادلوں کے پیچھے سے جھانکتا ہوا، ہارلم اور مشرقی دریا کو دودھیا روشنی میں نہلاتا ہوا۔ پھر جیسے ہوا کے ایک جھونکے کی گرفت میں آکر وہ برونکس کی سمت لڑھک گیا۔

"وہ رہا”، میں چیخا۔” وہاں ، وہ رک گیا ہے”۔

"وہ رک نہیں سکتا”، لڑکی بولی اور گھاس پر ننگے پائوں برہنہ جسم دوڑنے لگی۔

"کہاں جا رہی ہو تم؟ اس طرح نہیں گھوم سکتیں۔ رک جائو، سنو، میں تم سے بات کررہا ہوں۔ کیا نام ہے تمھارا؟”

اس نے چیخ کر شاید ڈائنا یا ڈیانا کچھ کہا، اس میں بھی شاید کوئی غیبی استعارہ تھا۔پھر وہ غائب ہوگئی۔ اس کا تعاقب جاری رکھنے کے لیے ، میں نے دوبارہ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اس کی تلاش شروع کردی۔

میری گاڑی کی روشنی سے روشیں، ٹیلے، مخروطی پتھروں کے مینار روشن ہونے لگے۔ لیکن وہ لڑکی ڈیانا کہیں نظر نہ آئی۔میں شاید زیادہ دور نکل آیا ہوں، وہ شاید پیچھے رہ گئی ہے۔میں نے گاڑی واپس اس سمت موڑنی چاہی جہاں سے میں آیا تھا کہ میرے عقب سے ایک آواز ابھری؛ "نہیں، وہ رہا، چلنے دو”۔

میرے عقب میں، میری کار کے ٹرنک پر وہ لڑکی برہنہ بیٹھی تھی، چاند کی سمت اشارہ کرتی۔

میں اس سے کہنا چاہتا تھا کہ وہ نیچے اتر جائے۔ اسے سمجھانا چاہتا تھا کہ میں شہر میں اس طرح سفر نہیں کرسکتا کہ اس حالت میں اتنی نمایاں بیٹھی ہو۔ لیکن اس کی توجہ ہٹانے کی مجھے ہمت نہیں ہوئی۔ وہ اس سڑک کے اختتام پرڈوبتے، ابھرتے روشن گولے کو نظر سے اوجھل نہیں ہونے دینا چاہتی تھی۔ اور سب سے زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ پاس سے گزرنے والا کوئی شخص  اس نسوانی ہیولے کو میری کار کے ٹرنک پر بیٹھے نہیں دیکھ رہا تھا۔

ہم نے ایک پل عبور کیا جو مین ہٹن کو بقیہ شہر سے ملاتا تھا۔اب ہم کئی قطاروں والی ایک سڑک پر چل رہے تھے، کئی گاڑیاں ہمارے دائیں، بائیں تھیں۔ میں نے اپنی نگاہیں بالکل سیدھ میں مرکوز رکھیں۔ میں ان قہقہوں اور بھونڈے تبصروں سے خوفزدہ تھا جو یقیناـ ہم دونوں کو دیکھ کر اطراف کی کاروں میں جنم لے رہے ہوں گے۔ لیکن جب ایک کار ہمیں پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ گئی، تو حیرت سے میری کار تقریباـ سڑک سے اتر گئی۔ اس کی چھت پر آلتی پالتی مارے ایک برہنہ لڑکی بیٹھی تھی، جس کے بال ہوا میں لہرا رہے تھے۔ ایک لمحے کے لیے مجھے خیال آیاکہ شاید میری مسافر ایک کار سے دوسری کار میں پھلانگ رہی ہے۔لیکن مجھے صرف ذرا سی گردن گھما کر دیکھنے کی ضرورت تھی۔ ڈیانا کا گٹھنا  وہاں میری ناک کے بہت نزدیک ہنوز موجود تھا۔ اب میری آنکھوں کے سامنے صرف اس ہی کا جسم نہیں جگمگا رہا تھا، اب میں ہر سمت میں لڑکیاں دیکھ رہا تھا۔ سب عجیب انداز میں براجمان؛ کوئی ریڈی ایٹر سے لپٹی ہوئی، کوئی دروازے سے تو کوئی تیز رفتار کار کے بمپر سے۔ ان کے سنہرے یا گہرے رنگ کے گیسو متضاد گلابی یا گہرے رنگت کی برہنہ جلد کے سامنے بہار دکھا رہے تھے۔ ان میں سے ایک پر اسرار لڑکی ہر کار میں موجود تھی، سامنے کو جھکی ہوئی، اپنے ڈرائیور کو چاند کے تعاقب پر آمادہ کرتی۔

یہ تو مجھے یقین تھا کہ انہیں خطرے میں گھرے چاند نے طلب کیا تھا۔ وہاں کتنی لڑکیاں تھیں؟ ہر چہار راہ اور چوراہے پر مزید کاریں جمع ہورہی تھیں، جن پر چاند کی لڑکیاں سوار تھیں۔ شہر کے ہر گوشے سے اس مقام پر جہاں چاند آکر تھم گیا تھا، شہر کے کنارے ہم نے اپنے آپ کو ایک کاروں کے قبرستان کے سامنے موجود پایا۔یہ سڑک ایک ایسے علاقے میں ختم ہوئی تھی جہاں وادیاں ، ٹیلے اور پہاڑیاں تھیں۔ لیکن اس زمین کی ناہمواری کی وجہ اس سطح کا خدوخال نہیں تھا، بلکہ اشیا کے وہ غلاف تھے جو اتار کر پھینک دیے گئے تھے۔ ہر وہ شے جو صارفین کے اس شہر نے استعمال کرکے مسترد کردی تھی، تاکہ وہ ہر نئی شے کے استعمال کی مسرت حاصل کرسکیں، جو اس بے مروت محلے میں جمع ہوگئی تھیں۔

برسہا برس میں ٹوٹے ہوئے فرج، لائف میگزین کے بے رنگ شمارے اور بجھے ہوئے بلب اس وسیع کباڑ خانے کے اطراف میں ڈھیر تھے۔ یہ اسی  اجاڑ ، گردش وقت کا مارا علاقہ تھا جہاں اب چاند چمک رہا تھا، اور مڑی، ٹوٹی دھات کا ایک انبار کسی چمکدار موج کی مانند لگتا تھا۔ یہ دونوں کتنے مماثل تھے۔ اجاڑ چاند، اور یہ سطح زمین جو کباڑ کا ایک پہاڑ بن گئی تھی۔ اس دھاتی کباڑ کی پہاڑیوں کی ایک زنجیر سی بن گئی تھی۔ جو خود میں الجھ کر ایک تماشہ گاہ کی مانند تھی، جو چاند کے سمندری آتش فشاں سے مشابہہ تھی۔ چاند اپنی جگہ پر جامد تھا۔ ایسے لگتا تھا جیسے یہ سیارہ اور اس کا ذیلی سیارہ ایک دوسرے کا آئنہ بن گئے تھے۔

ہماری کاروں کے انجن بند ہو گئے تھے۔ کاروں کو ان کے اپنے قبرستان سے زیادہ کوئی چیز خوفزدہ نہیں کرتی۔ڈیانا نیچے اتر گئی، اور اس کے ساتھ دوسری تمام ڈیانائیں بھی۔لیکن لگتا تھا جیسے اب ان کی تمام توانائیاں ختم ہوگئی ہوں۔ وہ بے یقین قدموں سے آگے بڑھیں۔ جیسے اپنے آپ کو ان بڑے فولادی ٹکڑوں کے درمیان پاکر انہیں اچانک خود اپنی برہنگی کا احساس ہوگیا ہو۔ ان میں سے کئی نے اپنے ہاتھ سینے پر باندھ کر اپنے پستان  ڈھانپ لیے، جیسے اچانک سردی سے کانپ رہی ہوں۔یہ کرکے وہ تتر بتر ہو گئیں۔ اس ردی کباڑ کی پہاڑی پر چڑھ کے وہ تماشہ گاہ میں اتر گئیں، جہاں انہوں نے وسط میں ایک دائرہ بنا لیا۔پھر ان سب نے اپنے ہاتھ ایک ساتھ بلند کرلیے۔

چاند محرک ہوگیا، جیسے وہ ان کی حرکت سے متاثر ہوا ہو۔ایک لمحے کے لیے تو محسوس ہوا کہ جیسے اپنی طاقت بحال کرکے وہ بلند ہونا شروع ہوگیا ہو۔دائرے میں لڑکیاں اپنے بازو دراز کیے کھڑی تھیں۔ان کے چہرے اور پستان چاند کی جانب اٹھے ہوئے تھے۔کیا چاندنے ان سے یہی طلب کیا تھا؟کیا چاند کو آسمان پر ان کی ہمت افزائی کی ضرورت تھی۔ میرے پاس اس سوال پر غور کرنے کا وقت نہیں تھا۔عین اسی لمحے کرین اس منظر میں داخل ہوئی۔

اس کرین کو ان حکام نے ڈیزائن کرکے بنایا تھا، جنہوں نے آسمان کو اس بد صورت بوجھ سے آزاد کرانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔یہ ایک بل ڈوزر تھا، جس میں کیکڑے کے پنجے جیسا بازو نمودار ہوا۔ کسی سنڈی کی مانند وہ اپنے پائوں پر آگے بڑھا۔ بھاری بھرکم، پستہ قد، بالکل کسی کیکڑے کی مانند۔ جب وہ اپنی مقررہ جگہ پر پہنچا تو وہ اور زیادہ بھاری بھرکم محسوس ہوا، زمین کی سطح سے چپکا ہوا۔ اس کا آہنی شکنجہ تیزی سے گھوما، کرین نے اپنا بازو آسمان کی جانب بلند کیا۔ کسی کو یقین نہیں تھا کہ ایک اتنے لمبے بازو والی کرین بھی تعمیر کی جاسکتی ہے۔ اس کا دہانہ کھلا، اس کے دانت نظر آنے لگے۔ اب وہ کسی کیکڑے کے پنجے سے زیادہ کسی شارک کا دہانہ لگ رہا تھا۔ چاند جو وہیں تھا، ذرا سا محرک ہوا کہ جیسے فرار ہونا چاہتا ہو۔ مگر لگتا تھا وہ کرین بھی مقناطیسی تھی۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے وہ چاند کوسالم نگل گیا۔ کرین کے جبڑوں میں دبا ، اس کے گرد پنجے کا منہ ایسے بند ہوا کہ ایک تڑخنے کی آواز پیدا ہوئی۔ ایک لمحے کے لیے شبہ ہوا کہ شاید چاند کسی مرمرے کی مانند کچل گیا ہو۔ لیکن وہ وہیں ٹک گیا، آدھا جبڑے کے دہانے کے اندر، آدھا باہر۔وہ دب کر انڈے کی شکل کا ہوگیا تھا۔ جیسے میں کوئی لمبا سگار دبا ہوا ہو، راکھ کی بارش ہونے لگی۔

کرین نے کوشش کی کہ چاند کو اس کے مدار سے نیچے کھینچ لے۔وہ شکنجہ اب واپس سکڑنے لگا تھا۔ اس وزن کے ساتھ اس کی پسپائی بہت دقت طلب تھی۔ ڈیانا اور اس کی تمام سہیلیاں اس سارے عمل کے دوران  بازو اٹھائے بے حس و حرکت کھڑی تھیں۔ جیسے وہ اپنے دائرے کی قوت سے دشمن کی جارحیت پر حاوی آجائیں گی۔ جب اس ٹوٹتے چاند کی راکھ ان کے چہروں اور پستانوں پر گرنے لگی، تو وہ بکھر گئیں۔ ڈیانا کے منہ سے ایک نوحہ بلند ہوا۔

اسی وقت وہ مقید چاند اپنا بقیہ نور بھی کھو بیٹھا۔ وہاں فقط ایک سیاہ بے شکل پتھر باقی رہ گیا۔اس دہانے کے دانت اسے واپس نہ روک لیتے تو وہ زمین پر گر کر ٹوٹ جاتا۔نیچے کارکنوں نے ایک دھاتی جال بن لیا تھا،۔ کرین کے اطراف تمام علاقے میں جہاں کرین اپنا وزن اتار رہی تھی  یہ جال زمین پر لمبی میخوں سے گڑا ہواتھا۔

زمین پر اتر ا تو وہ چاند ایک چیچک زدہ ٹیلہ نظر آتا تھا۔ اتنا بے رنگ اور تاریک کہ اب یہ سوچ کر حیرت ہوتی تھی کہ کبھی یہ آسمان پر اتنا چمکتا عکس تھا۔ اس دہانے کے جبڑے وا ہوئے۔ بل ڈوزر اپنے سنڈی ایسے قدموں پر واپس لوٹ گیا۔ اپنا وزن اتارنے کے کارن وہ اچانک بے وزن ہوکر تقریباـ الٹ ہی گیاتھا۔کارکن جا ل تھامے تیار کھڑے تھے۔انہوں نے اسے چاند کے گرد لپیٹ کراسے چاند اور زمین کے درمیان استعمال کیا تھا۔چاند نے اس تنگ لبادے سے نکلنے کی کوشش کی تو زمین جیسے کسی زلزلے سے لرزنے لگی، خالی ڈبوں کا ایک طوفان اس کباڑ کی چوٹی سے برسنے لگا۔ ایک بار پھر سناٹا چھا گیا۔ بنا چاند کا آسمان اب بڑے مصنوعی لیمپوں کی روشنی سے جگمگا رہا تھا۔ لیکن تاریکی تو اب ویسے بھی چھٹ ہی رہی تھی۔

صبح کی روشنی نے اس کاروں کے قبرستان میں ایک اور ملبے کا اضافہ دیکھا۔ چاند جو اب اپنے وسط میں قرمزی ہوگیا تھا اسے دوسری ردی اشیا سے تمیز کرنا دشوار تھا۔ یہ بھی بقیہ ردی کے رنگ کا تھا، ان ہی جیسی لٹی پٹی صورت۔ یہ یقین کرنا محال تھا کہ کبھی یہ نیا بھی رہا ہوگا۔ اس آسمانی راکھ کے ملبے میں ایک بڑبڑاہٹ سنائی دے رہی تھی۔ صبح کی روشنی نے وہاں سے اشیا کو دوبارہ زندہ ہو کر ایک جھنڈ کی صورت اٹھتے دیکھا۔ بنا بالوں کی یہ مخلوق؛بغیر انجن کے ٹرکوں کے ڈھانچے، بکھرے پہیوں اور مڑی تڑی دھات کے درمیان سے پیش قدمی کر رہے تھے۔

ان ردی اشیا کے درمیان میں ہی رد ہوئے لوگوں کی ایک برادری بھی رہ رہی تھی۔ وہ لوگ جو حاشیوں میں دھکیل دیے گئے تھے یا جنہوں نے حاشیوں میں ہی عافیت تلاش کرلی تھی۔ لوگ جو سارے شہر میں دوڑ بھاگ کر نئی چیزوں کی خرید وفروخت سے عاجز آگئے تھے، جو پھر فوراـ پرانی ہو جاتی تھیں۔لوگ، جنہوں نے یہ طے کرلیا تھا کہ اس دنیا کا اصل سرمایہ تو یہی رد شدہ اشیا تھیں۔ اس پوری تماش گاہ میں یہ لاغر افراد، چاند کے اطراف کھڑے یا بیٹھے تھے۔ ان کے چہروں پر داڑھیاں، بال الجھے ہوئے تھے۔ چیتھڑے سجائے یا عجیب ملبوسات میں لپٹے اس مجمعے کے درمیان میری ڈیانااور شب گزشتہ کی دوسری تمام لڑکیاں موجود تھیں۔وہ آگے بڑھے اور انہوں نے زمین سے اس دھاتی جال کی میخیں اکھاڑنا شروع کردیں۔

فوراـ ہی کسی جہاز کی مانند، جس کی رکاوٹیں ہٹا دی گئی ہوں، یہ چاند ابھر کر لڑکیوں کے سروں پر ایستادہ ہوگیا، ان آوارہ گردوں  کے سروں کے عین اوپر جن سے یہ میدان بھر گیا تھا۔ڈیانا اور اس کی سہیلیاں جس جال پر کام کررہی تھیں، اس میں مقید یہ چاند اوپر تھم گیا۔کبھی وہ انہیں اپنی جانب کھینچ لیتا، اور کبھی جال ڈھیلا پڑ جاتا۔جب لڑکیوں نے تاروں کے کناروں کو پکڑ کر دوڑنا شروع کیا تو ان میں پھنسا چاند بھی ان کے تعاقب میں ہولیا۔

جیسے ہی چاند نے اپنا سفر شروع کیا، اس کباڑ کی وادی میں گویا ایک لہر سی بیدار ہوگئی: اکارڈین کی مانند پچکی کاریں چرچراہٹ کی آواز کے ساتھ ایک جلوس کی مانند آگے بڑھیں۔ ٹین کے ٹوٹے ڈبوں کا ایک دریا بھی ایک گرج کے ساتھ بہنے لگا۔ یہ کہنا دشوار تھا کہ وہ خود پیش قدمی کررہے تھے یا اس چاند کے تعاقب میں جو اس کباڑ کے انبار سے بچا لیا تھا، دوسری اشیا کے ساتھ کھنچے آرہے تھے۔ وہ تمام اشیا ، وہ تمام مسترد شدہ لوگ ایک بار پھر سڑکوں پر نکل آئے اور شہر کے متمول ترین علاقوں میں بھیڑ لگ گئی۔

اس صبح شہر میں یوم شکر گزارئی صارفین منایا جارہا تھا۔ یہ میلہ ہر سال نومبر کے کسی دن لگتا تھا، تاکہ صارفین خدائے پیداوار کا شکر ادا کرسکیں، جو بغیر کسی تھکاوٹ ان کی ہر خواہش پوری کرتا تھا۔شہر کا سب سے بڑا ڈپارٹمنٹ اسٹور ہر سال ایک پریڈ کا اہتمام کرتا۔ مرکزی شاہراہ پرگڑیا کی شکل کے ایک عظیم الشان بھڑکیلے رنگ کے غبارے کی نمائش ہوتی۔ ستاروں سے بنے ملبوسات سے آراستہ لڑکیاں ، ایک بینڈ کے پیچھے قدم بڑھاتی اس غبارے کو رنگین پٹیوں سے سنبھالے رہتیں۔اس روز یہ جلوس پانچویں ایوینو سے برآمد ہورہا تھا۔ بینڈ کی سربراہ نے اپنا عصا ہوا میں گھمایا، بڑے ڈھولوں پر تاپ پڑنے لگی۔ چمکیلی گاڑیوں پر سوار لڑکیوں کی رہنمائی میں، وہ بڑا غبارہ جو مطمئن صارفین کا ایک استعارہ تھا، بلند قامت عمارتوں کے درمیان اڑتا رہا۔لڑکیاں پھندنوں سے آراستہ فوجی ٹوپیاں پہنے ، شانوں پر لٹکتی جھالر کے ساتھ اس کی لگامیں تھامے ہوئے تھیں۔

عین اسی وقت مین ہٹن سے ایک اور پریڈ بھی گزر رہی تھی۔پھپھوند لگا، خستہ جاں چاند بھی آگے بڑھ رہا تھا۔وہ بھی بلند قامت عمارتوں کے درمیان سے گزر رہا تھا اور اس کے جال کے تار برہنہ لڑکیاں سنبھالے ہوئے تھیں۔اس کے عقب میں پرانی کاریں اور ٹرکوں کے ڈھانچے چل رہے تھے۔ایک خاموش مجمع ساتھ تھا جس کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔ صبح چاند کے تعاقب میں جس جلوس کا آغاز ہوا تھا اب اس میں ہزاروں لوگ شامل ہوچکے تھے۔ ہر رنگت کے لوگ، پورے خاندان، ہر عمر کے بچوں کو ساتھ لیے، خاص طور پر جب یہ جلوس ہارلم کے سیاہ فام اور پرٹوریکو کمیونٹی کے علاقوں سے گزرا۔

یہ جلوس ماہتاب شہر کے بالائی علاقوں کی جانب بڑھتا رہا۔ پھر براڈوے سے نیچے اترا اور خاموشی لیکن سرعت سے دوسرے جلوس میں مدغم ہوگیا، جو اپنے عظیم غبارے کو پانچویں ایونیو میں پھرا رہا تھا۔

یہ دو جلوس میڈیسن اسکوئر پر ملے، یا یوں کہیے کہ دونوں نے مل کر ایک جلوس بنا لیا۔وہ مصروف صارف غالباـ چاند کی نوکدار سطح سے مس ہوکر ربر کے ایک چیتھڑے میں بدل گیا۔موٹر سائکلوں پر سوار ڈیانائیں چاند کو رنگ برنگی پٹیوں سے کھینچ رہی تھیں۔ بلکہ  شبہ یہ تھا کہ کیوں کہ اب برہنہ خواتین کی تعداد دوگنی ہوگئی تھی تو شاید خواتین موٹر سائکل سواروں نے اپنے یونی فارم اور فوجی ٹوپیاں اتار دی تھیں۔ جلوس میں شامل کاروں اور موٹر سائکلوں میں بھی ایسی ہی تبدیلی واقع ہوئی تھی۔ اب یہ تمیز کرنا مشکل تھا کہ نئی کاریں کون سی ہیں اور پرانی کون سی۔ مڑے تڑے اسٹیرنگ اور زنگ لگے بمپر شیشے جیسی چمکدار گاڑیوں اور انڈے جیسی چکنائی میں گھل مل گئی تھیں۔

جلوس کے پیچھے دکانوں کی کھڑکیوں پر مکڑی کے جالے بن گئے۔، پھپھوند نظر آنے لگی۔ طویل قامت عمارتوں کے ایلیویٹر چوں چرک کرکے احتجاج کرنے لگے۔اشتہاری پوسٹر بوسیدہ ہوگئے۔فرج میں انڈوں کے خانوں میں چوزے بھر گئے کہ جیسے وہ انکیوبیٹر رہے ہوں۔ٹی وی پر موسمی آندھیوں کی خبریں نشر ہونے نشر ہونے لگیں۔شہر نے ایک لحظے میں اپنا سرمایہ خرچ کردیا تھا۔یہ ایک قابل صرف شہر تھا  جو اب چاند کے آخری سفر میں اس کے ساتھ ہولیا تھا۔

گیس کے خالی ڈبوں پر ڈھول کی تھاپ میں یہ جلوس بروک لین کے پل پہنچا۔ ڈیانا نے اپنا بینڈ لیڈر عصا گھمایا ، اس کی دوستوں نے رنگین پٹیاں ہوا میں لہرائیں۔ چاند نے بھی آخری دوڑ لگائی اور پل کے جنگلے سے گزرتا، وہ سمندر کی جانب جھکا ، اور کسی اینٹ کی مانند پانی میں ڈوب گیا۔ ہزاروں آبگینے پانی پر ابھر آئے۔

اس دوران لڑکیاں ان پٹیوں کو چھوڑ دینے کے بجائے انہیں تھامے رہیں۔وہ چاند کے زور سے ہوا میں بلند ہوگئیں۔وہ پل کے جنگلے پر قوس بناتی پانی میں غائب ہوگئیں۔

ہم حیرت زدہ وہیں کھڑے دیکھتے رہے۔ہم میں سے کچھ بروکلین پل پر ، کچھ ساحل کے نزدیک کھاڑی پر تھے۔ہم اسی کش مکش میں تھے کہ ان کے پیچھے کود جائیں، یا ہم کبھی انہیں دوبارہ ابھرتے ہوئے دیکھ سکیں گے؟

ہمیں زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا۔ سمندر میں ایک بھنور پڑا جو دائروں میں پھیلنے لگا۔ اس دائرے کے وسط میں ایک جزیرہ نمودار ہوا، جو ایک پہاڑ کی مانند بڑھنے لگا۔ ایک نیم گولے کی صورت جیسے سطح آب پر کوئی گولہ رکھا ہوا ہو۔ بلکہ جیسے اس سے ذرا اوپر ٹھہرا ہوا ہو۔ نہیں یوں بھی نہیں، بلکہ جیسے آسمان پر چاند ابھر رہا ہو۔میں اسے چاند سے تشبیہ تو دے رہا ہوں، لیکن یہ اس چاند سے زیادہ مشابہ نہیں تھا، جسے ابھی ہم نے چند لمحوں پہلے ہی سمندر کے پیندے میں بیٹھتے دیکھا تھا۔ لیکن اس نئے چاند کے منفرد ہونے کا انداز بھی بہت مختلف تھا۔یہ سمندر سے اس شان سے ابھرا کہ اس سے سبزہ ٹپک رہا تھا، سمندی گھاس، پانی کی بوچھاڑ فواروں کی مانندایسے نکل رہی تھی کہ اس پر زمرد کی چمک کا دھوکہ ہوتا تھا۔جنگل نے اسے بخارات کی مانند ڈھانپ رکھا تھا۔لیکن یہ پودوں کا نہیں مور کے پروں سے بنا غلاف تھا۔اپنے دلفریب رنگوں اور دیدوں سمیت۔

ابھی ہم اس منظر کی بمشکل ایک جھلک ہی دیکھ سکے تھے کہ وہ گولہ تیزی سے ابھر کے آسمان میں گم ہوگیا۔ کوئی مزید تفصیل ایک عمومی احساس تازگی و شادابی میں گم ہوگئی۔ یہ غروب آفتاب کا وقت تھا۔رنگوں کی تمیز تیزی سے بدلتی دھوپ چھائوں میں مدغم ہورہی تھی۔ اس چمکدار گولے کی سطح پر چاند کی وادیاں اور جنگلات بھی ذرا توجہ سے دیکھے جاسکتے تھے۔لیکن ہم کچھ شاخوں سے لٹکتے جالی دھار جھولوں کی جھلک دیکھنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ہوا انہیں جھلا رہی تھی۔ میں نے ان جھولوں میں ان لڑکیوں کو بیٹھے دیکھا جنہوں نے یہاں تک ہماری رہ نمائی کی تھی۔ میں ڈیانا کو پہچان گیا۔ اب وہ پرسکون تھی، پروں سے بنے پنکھے سے اپنے آپ کو ہوا دے رہی تھی، اور شاید مجھے پہچان لینے کا اشارہ کر رہی تھی۔

"وہاں ہیں وہ، وہاں بیٹھی ہے وہ!” میں چلایا۔ ہم سب ہی چیخ پڑے۔ انہیں ڈھونڈ لینے کی خوشی، انہیں ہمیشہ کے لیے کھو دینے کے غم میںڈوب رہی تھی۔ تاریک ہوتے آسمان پر ابھرتے چاند نے جھیلوں اور میدانوں میں سورج کا تو محض عکس ہی باقی رہنے دیا۔

ہم ایک جنون میں گرفتار ہوگئے۔ ہم اندھا دھند بر اعظموں کو عبور کرنے لگے۔ان سبزہ زاروں اور جنگلات سے گزرتے، جو شہروں ، سڑکوں اور ماضی کے تمام نشانات کو دفن کرکے زمین پر ابھرنے لگے تھے۔ ہم نے اپنی سونڈ اور دانت آسمان کی سمت بلند کرکے شہنائی سے سر نکالے ۔ہماری دکھ بھری لے سے حلق کے کھردرے بال جھومنے لگے۔ وہ دکھ جب ہم بڑی جسامت کے نوجوان جانوروں کو اپنی گرفت میں لیتا ہے، تب ہمیں یہ ادراک ہوتا ہے کہ زندگی تو اب شروع ہورہی ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ ہم وہ کبھی حاصل نہیں کرسکتے جس کی ہمیں خواہش ہو۔

مترجم کا تعارف

ڈاکٹرسیّد سعید نقوی امریکا میں مقیم نامور پاکستانی مصنف، مترجم اور شاعر ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے وہ طبی معالج ہیں ۔ اب تک 5 افسانوں کے مجموعے، 2 ناول، ایک شعری مجموعہ اور 13 سے زائد فکشن اور نان فکشن کے تراجم شایع ہوچکے ہیں۔ جن میں دلاری (ٹونی موریسن)، وجود کی ناقابل برداشت لطافت (میلان کنڈیرا)، اشتعال کی فصل (جان اسٹین بیک)، انڈیا کا ایک سفر (ای ایم فورسٹر) اور جینیات کی ان کہی تاریخ (نان فکشن) نمایاں ہیں۔

آپ سے اس ای میل کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

saeedsyed64@gmail.com

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے