نور مقدم کا ظاہر نامی ناہنجار و سفاک شخص کے ہاتھوں قتل قوم ابھی تک نہیں بھولی تھی کہ چک شہزاد اسلام آباد میں معروف صحافی ایاز امیر کے بیٹے شاہنواز نے اپنی بیوی سارہ انعام کوڈمپل مار کر قتل کر دیا اور اس کی نعش کو ٹب میں ڈال دیا ۔اس واردات کی اطلاع خود سفاک قاتل کے باپ نے پولیس کو دی ۔اس ہولناک واقعہ کے بعد سوشل میڈیا پر طرح طرح کی آراءسامنے آنے لگیں ۔ واقعہ کی مذمت کا سلسلہ دراز ہونے لگا۔قاتل اس سے قبل اپنی دو بیویوں کو طلاق دے چکا تھا ۔ 37سالہ کینڈین شہریت کی حامل سارہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ برسرروزگار خاتون تھیں۔اور دو روز بعد دبئی واپس جانے والی تھیں ۔سارہ کے ایک غیر ملکی دوستStephr Nash اور اینکر مہر بخاری نے اپنے الگ الگ ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ سارہ ایک شریف النفس سلجھی ہوئی خاتون تھیں ۔ساری دنیا گھوم چکی تھیں ۔اب وہ اپنا گھر بسانا چاہتی تھیں ۔شاہنواز سے شادی کا مقصد بھی ازدواجی زندگی کو سیٹل کرنا تھا ۔پڑھی لڑکی خاتون ہونے کے باوجود سارہ نے شاہنواز سے شادی کرکے اپنی زندگی کا سب سے اہم مگر غلط فیصلہ کیا ۔ان دونوں کی شادی چکوال میں ہوئی ،سارہ کے والدین کو بھی اس سے بے خبر رکھا گیا ۔اس سانحے کے پس منظر کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ سارہ نے تعلیم یافتہ اور باشعور خاتون ہونے کے باوجودشاہنواز کی ”بیک گراو ¿نڈ “جانے بناءاس سے شادی کرکے خود اپنی موت کے پروانے پر دستخط کئے۔والدین کو اعتماد میں لئے بغیر کئے گئے فیصلوں کا انجام کار ہمیشہ بھیا نک ہوتا ہے ۔ سارہ کو اپنی زندگی کےلئے ایک سائبان کی ضرورت تھی لیکن اس نے ایک غلط شخص کا انتخاب کیا ۔سارہ کو صدی کی سب سے بے وقوف خاتون کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اس نے اپنے ناہنجار شوہر کو اپنی کمائی کے لاکھوں ڈالر بھی دئیے اور ایک قیمتی گاڑی بھی منگوائی ۔یہی گاڑی اُس کےلئے موت کا بہانہ بنی ۔ شاہنواز نے دھوکے سے وہ گاڑی اپنے نام کروا لی ۔جس پر جھگڑے نے طول پکڑا تو شاہنواز سے اپنی ہی مہربان کو قتل کردیا ۔شاہنواز نے ایک خاتون کے ساتھ دھوکا اور فراڈ کیا ۔عورت حقیقتاًکمزور ہوتی ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ عورت کسی انجان بندے کے ساتھ نکاح کی صورت میں اسی بندے کی دستِ نگر ہو کر رہ جاتی ہے ۔ایک نہتی عورت کو قتل کردینابھی کوئی مردانگی نہیں ۔نورمقدم نے بھی یہی غلطی کی تھی ،سارہ کو کم ازکم نور مقدم کے انجام کو نہیں بھولنا چاہئے تھا ۔اورسچ تو یہ ہے کہ ہمارے عدالتی نظام میں موجود خرابیوں کے سبب بااثر طبقہ سزا سے بچ جاتا ہے ۔نو رمقدم کی طرح آئے روز حوّا کی بیٹیاں اس قسم کے سفاک قاتلوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتی ہیں ۔نورمقدم کو مجرم ظاہر نے جس بے دردی سے قتل کیا تھا اگرسارہ اسے ذہن میں رکھتی تو شایدوہ بھی شاہنواز کے ہاتھوں قتل نہ ہوتی ۔والدین کی کمائی پر پلنے والے یہ لوگ معاشرے کا وہ ناسور ہیں جنہیں اس معاشرے میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔غور طلب بات یہ ہے کہ سارہ انعام نے ۔۔آ بیل مجھے مار ۔۔کے مصداق قاتل کو خود موقع دیا کہ وہ اس کی جان لے ۔مقتولہ کا پیسہ بھی گیا ،عزت سادات بھی گئی اور والدین بھی زندہ درگور ہو گئے ۔اور سچ تو یہ ہے کہ خود خریدی گئی موت کا علاج تو کسی کے پاس نہیں ،جوان بیٹی کا یوں دنیا سے چلے جانابوڑھے والدین کے لئے ایک بڑا صدمہ ہے ۔ساری زندگی والدین اس غم کو بھلا نہیں پائیں گے ۔ایاز امیر ایک معروف سیاستدان ہیں ۔میڈیا پر ملک و ملت کا درد لئے ہر روز اپنا فلسفہ بیان کرتے نظر آتے ہیں ۔لیکن وہ اپنے بیٹے کو انسان بنا سکے اورنہ ہی انسانیت سکھا سکے ۔ ان کا بیٹا ایک خاتون کے ساتھ ظلم کرگیا ،اسے اذیت ناک موت سے دوچار کیا ۔لیکن یہ واقعہ ساری زندگی ایاز امیر سمیت خود شاہنواز کو بھی سکھ سے جینے نہیں دے گا ۔ایک نہتی عورت کو قتل کرنا اور پھر قتل کا جواز بنانے کےلئے مقتولہ کی کردار کشی کرنا ،قتل سے بھی زیادہ افسوسناک اور ناقابل معافی جرم ہے ۔شاہنوازکوسارہ پر کئے گئے ظلم کا حساب دنیا میں بھی چکانا ہے اوروز ِمحشر بھی اُسے ربّ کائنات کی عدالت سے سزا پانا ہے ۔ ساری دنیا گھومنے والی سارہ ایک بے وقوفی کرکے اپنی جان گنوا بیٹھی ۔
سارہ اور نورمقدم کا قتل قوم کی بہو بیٹیوں کے لئے ایک پیغام ہے کہ موت برحق ہے لیکن اپنی زندگی کے فیصلوں میں من مانی کسی طور نفع بخش نہیں ہو سکتی ۔والدین سے زیادہ اولاد کا کوئی ہمدرد اور خیر خواہ نہیں ۔والدین تقدیر کے آگے رکاوٹ تو بن نہیں سکتے لیکن بچوں کویہ بات ذہن نشین کر لیناچاہئے کہ والدین کا اعتماد اولاد کے روشن مستقبل کےلئے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا ۔سارا انعام تو دنیاسے چلی گئی لیکن اسلامی ریاست کے ذمہ داران کےلئے ایک سوال ضرور چھوڑ گئی کہ کیا پاکستان میں”حوّا کی بیٹیاں“ یوں ہی سفاک اور بے رحم درندوں کے ہاتھوں قتل ہوتی رہیں گی اور کسی قاتل کو نشان عبرت نہیں بنایا جائے گا ۔پولیس اور عدالتی سسٹم کی بدولت قاتل برّی اور والدین ساری زندگی غم کی تصویر بنے گذار دیتے ہیں۔پاکستان میں مظلوموں کو انصاف ملناایک ایسا خواب ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں ۔یہاں ظلم کرکے بھی ظالم آزاد ہیں اور مظلوم ساری زندگی ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے میں گذار دیتے ہیں ۔ سارا کے قتل کے حالات و واقعات کا جائزہ لیاجائے تو یہی ذہن میں آتا ہے۔ بقول شاعر
قاتل کی یہ دلیل منصف نے مان لی
مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پر
Follow Us