پاکستان میں موجودہ سیلاب تباہ کن ہیں، سیلاب سے اب تک تین کروڑ 30 لاکھ لوگ متاثر ہوچکے ہیں، جبکہ 900 سے زائد لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں، لاکھوں مویشی لقمہ اجل بن گئے۔ لاکھوں لوگ کھلے آسمان کے نیچے زندگی بسر کرنے کو مجبور ہیں، پنجاب کی بات کریں تو جنوبی پنجاب کے دو اہم اضلاع ڈیرہ غازی خان اور راجن پور مکمل پانی میں ڈوب چکا ہے،
خیبرپختونخواہ میں ضلع سوات، اپر چترال، دیراپر، ضلع ٹانک اور ضلع ڈیرہ اسماعیل خان بری طرح متاثر ہیں، جبکہ نوشہرہ کے کچھ علاقے بھی متاثر ہیں، سندھ میں سکھر، ٹھٹھہ، جیکب آباد، میرپور خاص، گھوٹکی، سیہون، لاڑکانہ، ٹنڈوالہ یار اور میرپور خاص کے مقامات بری طرح متاثر ہیں، بلوچستان کی حالت زار یہ ہے کہ جعفر آباد، نصیر آباد، ڈیرہ بگٹی، صحبت پور، افغان سرحدی دیہاتوں، چمن کے اطراف اور بولان سیلابی ریلے میں ڈوب چکے ہیں۔ بارشیں رکنے کا نام نہیں لے رہیں، دریاوں کی سطح مسلسل بلند ہورہی ہے، بند ٹوٹ رہے ہیں اور مزید آبادیاں سیلاب کی تباہ کاریوں کی نذر ہورہی ہیں، تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ آزاد کشمیر کے شہروں میرپور، ڈڈیال، سہنسہ اور دریائے جہلم کے کنارے آباد لوگوں کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کیلئے الرٹ کردیا گیا ہے۔
سیلاب کی اس صورتحال میں سیاست کی سیاہ کاریاں کھل کر سامنے آرہی ہیں، پاکستان کی سیاہ ست کے سینے میں واقعی دل نہیں ہے، ایسی خوفناک قسم کی تیرتی لاشوں کی ویڈیوز سے اس وقت سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے لیکن سیاہ ست کے لئے اہم یہ ہے کہ وفاقی حکومت کیسے تحریک انصاف کو دبانے کیلئے پرچے کٹوائے اور پنجاب اور کے پی میں پی ڈی ایم کے خلاف کون سی ایف آرز کہاں کہاں درج ہوں اور گرفتاریوں، ضمانتوں، اپیلوں اور سنسنی خیز سماعتوں کا یہ سلسلہ جاری رہے۔
گزشتہ روز پنجاب کے طلبہ نے ڈی چوک اسلام آباد میں احتجاج کیا اور احتجاج میں انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب کے دونوں اضلاع جو سیلاب سے بری طرح متاثر ہیں وہاں حکومت کہیں دکھائی نہیں دے رہی، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی بار بار ہدایات کے باوجود پنجاب حکومت لاہور سے نکل نہیں پارہی جن اضلاع میں سیلاب ہے وہاں پر 90 فیصد نمائندے تحریک انصاف ہیں، کیا عوام کو مشکل کی اس گھڑی میں نظرانداز کرنے سے تحریک انصاف توقع کرتی ہے کہ پھر اسی عوام کے پاس ووٹ کے حصول کیلئے جا پائے گی؟ سندھ کی بات کریں تو اس سیلاب نے سندھ میں بیداری پیدا کردی ہے، لوگ حکومت سے نالاں ہیں، سیلاب زدگان کو ایک جانب میر منور تالپور 50 روپے فی کس دیتے دکھائی دیئے تو دوسری جانب بلاول بھٹو کی گاڑی کے سامنے احتجاجی مناظر دیکھے، وزیراعظم شہباز کے دورہ سکھر کے موقع پر خواتین نے سڑکوں پر بھرپور احتجاج کیا، حکومت اور اس کے زعما غریب سندھی ہاریوں کی بددعائیں سمیٹ رہے ہیں۔ سیاہ ست نے محض دکھلاوے کے سوا کچھ نہیں کیا، جھوٹۓ نعرے، تسلیاں اور ڈرامے بازیاں جاری ہیں۔
دوسری جانب عمران خان نے بالاخر خود سیلابی علاقوں کا دورہ کیا تو خیبرپختونخواہ کی حکومت نیند سے بیدار نظر آئی۔ وگرنہ وہاں کی سیاہ کاریوں کی حالت یہ ہے کہ پانچ بھائی کوہستان کے سیلابی ریلے میں پانچ گھنٹے صدائیں لگاتے رہے کوئی مدد کو نہ آیا۔ سوات میں غیرقانونی تعمیرات سے بنے ہوٹل سیلاب سے بہہ گئے۔ یہ بھی اسی سیاہ ست کے مناظر ہیں جہاں چند روہے کی رشوت لے کر دریا کنارے غیرقانونی تعمیرات کی اجازت دے دی جاتی ہے۔
بلوچستان کی کیا بات کی جائے، بلوچستان کی عوام پکار رہی ہے، کوئی سننے کو تیار نہیں، سب سے پہلے سیلاب سے متاثر ہونے والے پاکستان کے بلوچ بیٹے ابھی تک منتظر ہیں کہ کوئی ان کی مدد کو پہنچے۔ سیاہ کاروں نے بلوچستان کی صورتحال کو سیاہ کردیا۔ حالت یہ ہے کہ عوام کے مسیحا صرف خدمت کمیٹیاں، الخدمت فاونڈیشن اور دوسرے فلاحی ادارے ہی ہیں جو عوام تک پہنچ پائے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ 2005 والا جذبہ انسانیت بیدار کیا جائے۔ سیاست دان، عوام، ادارے اور اوورسیز پاکستانی سبھی عوام کی خدمت، سہولت اور سیلاب سے ہونے والے نقصان کے ازالے کیلئے میدان میں اتریں۔
رضی طاہر سے رابطہ ان کے ٹوئیٹر اکاونٹ کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔