پاکستان کا انصاف کی فراہمی کے حوالے سے عالمی درجہ 130ویں نمبر پر اسلئے ہے کہ یہاں انصاف ناپید ہے جبکہ انصاف کے نام پر اکثر ایسے تماشے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ حال ہی میں میرے شہر فتح جنگ کے معروف حذیفہ زیادتی وقتل کیس میں سزایافتہ مجرم کو ہائیکورٹ نے پہلی سماعت پر بری کردیا لیکن حقائق بتاتے ہیں کہ مولوی عبدالحئی بری ضرورہوا لیکن بری الذمہ نہ ہوسکا، کیونکہ تمام تر شواہد، حقائق اور حالات اس کیخلاف ہیں۔
معاملہ کچھ یوں ہے کہ سال2019میں فتح جنگ میں حذیفہ نامی بچے کو درندگی کا نشانہ بنا کرقتل کردیا گیا، اوراس کی لاش کئی گھنٹے محلے کے ایک کنویں میں تیرتی رہی، یہ کیس بھی کئی دوسرے کیسز کی طرح چھپ جاتا مگر اہل فتح جنگ کی غیرت جاگ اٹھی اور شہر فتح جنگ میں تاریخ کاسب سے بڑا احتجاج دیکھنے کو ملا جس نے حذیفہ کیلئے انصاف کا مطالبہ کیا، تقریبا ڈیڑھ سال کی عرق ریزی، تحقیق و تفتیش کے بعد21نومبر2020میں ایڈیشنل سیشن جج ڈاکٹر ساجدہ چوہدری نے ملزم کو سزائے موت سنائی، اس کے ساتھ عمرقید اور جرمانہ کی سزائیں بھی دیں۔ بیرسٹر راجہ رضوان چراغ ایڈووکیٹ نے مدعی کی جانب سے یہ کیس فی سبیل اللہ لڑا جبکہ ملزم کے وکیل بشیر پراچہ تھے، سیشن کورٹ میں سزا کے خلاف اپیل میں مجرم کے وکیل ہائیکورٹ پہنچے، اور جب تک اپیل کا فیصلہ سنایا نہ جائے تب تک سزا معطلی کی درخواست دی جسے ہائیکورٹ کے دو رکنی ڈویژنل بینچ جسٹس صادق محمودخرم اور جسٹس طارق عباسی نے مسترد کردیا۔
اگر ہم ہائیکورٹ میں آنے والے کیسز کا جائزہ لیں تو عموماً ہائیکورٹ جن کیسز کی سماعت کررہا ہوتا ہے وہ سیریل وائز ہوتے ہیں۔ اس کو سمجھنے کیلئے یہ کافی ہے کہ آپ ہائیکورٹ جائیں تو اس وقت2018 سے2019تک کے کیسز کی سماعت ہورہی ہوگی۔ لیکن خلاف معمول حذیفہ کیس جس کا فیصلہ2020کے گیارہویں ماہ میں ہوا اچانک سے ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ میں لگ جاتا ہے اور ایک دن قبل متاثرہ فریق کو بتادیا جاتا ہے جو کہ متاثرہ فریق کے کونسل کیلئے حیران کن تھا۔ ابھی کیس لگنے کے محرکات کے پیچھے جاتے کہ مدعی کے وکیل کو سنے بغیر ہائیکورٹ کے دورکنی بینچ نے کیس کو جھوٹا قرار دے کر مجرم بری کردیا۔ جسٹس صداقت علی خان کی سربراہی میں جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے کیس سنا اور مدعی کی جانب سے وکیل پیش کرنے کیلئے تاریخ مانگنے پر صداقت علی خان نے جھاڑ پلاتے ہوئے کیس کو جھوٹا قرار دیا اور خارج کردیا جبکہ ملزم کو باعزت بری کرنے کے احکامات جاری کیے۔
میں نے بذات خود کئی قانون دانوں سے اس بابت سوال کیا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ کسی کیس کو سنے بغیر ہائیکورٹ مقدمہ ہی خارج کردے تو مجھے جواب نفی میں ملا اور ساتھ وہی کہانی سننے کو ملی جو ہم اکثر سنتے ہیں اور اس پر یقین کرنے کیلئے ایسے فیصلے سامنا آنا کافی ہے کہ یہاں عدالت کبھی کبھار کسی کی خواہش، مرضی، لالچ یا کسی اور پریشر کی وجہ سے بھی لگ جایا کرتی ہے۔ تھوڑا تحقیق کی تو معلوم پڑا کہ اس بینچ کے سربراہ جسٹس صداقت علی کا تعلق اٹک شہر سے ہے اور ملزم کے وکیل اور وہ ایک ہی بار کے ممبر ہیں اور اکٹھے پریکٹس بھی کرچکے ہیں، اب ہم کسی کی نیت پر شک کریں گے تو توہین عدالت لگ جائے گی لیکن عدالت کے اند رانصاف کی توہین ہو تو کیسے خاموش رہا جاسکتا ہے۔
شواہد، حقائق، تفتیش کو جانچے بغیر، مدعی کے وکیل کو سنے بغیر ایک درندے کو آزاد کردینا کہاں کی عدالت ہے، کیا اس معاشرے کو ہم اپنے بچوں کیلئے جہنم بنانا چاہتے ہیں؟ پہلی ہی سماعت میں معزز جج کے پاس کون سی ایسی جادو کی چھڑی تھی جو انہوں نے گھما کر پورے کیس کو ردی میں پھینک دیا؟ سوال تو ہوں گے۔ فیصلہ متنازعہ ہے، مجرم کو ایک عدالت نے بری ضرور قرار دیا ہے لیکن وہ بری الذمہ ہرگز نہیں ہوا۔ اہل فتح جنگ ایسے شخص کا معاشرتی بائیکاٹ بھی کریں گے اور یہ کیس اب سپریم کورٹ میں بھی لے کر جائیں گے تاکہ انصاف کا بول بالا ہو۔